آپ کا صفحہ: بہت خوشیاں لے کر ...

September 06, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

بحالیٔ صحت پر توجّہ

لاک ڈائون کے دوران سنڈے میگزین خاصا کم زور ہوگیا ہے، تو اب اس کی بحالیٔ صحت پر کچھ توجّہ مرکوز کریں۔ صفحات بڑھانے کا کوئی ارادہ ہے یا نہیں؟ عرفان جاوید کا ’’عجائب خانہ‘‘ تو واقعی ایک میوزیم ہی ہے۔ کیا کیا اچھوتے خیالات، منفرد واقعات، تاریخ کے خُوب صُورت اوراق پڑھنے کو نہیں مل رہے۔ (سمیع عادلوف، جھڈو، میرپور خاص)

ج: جس ادارے کے مالک کو احتساب کے نام پر بے قصور گرفتار کررکھا ہو۔ ہزاروں ورکرز کے گھروں کے چولھے بُجھانے کی سازش ہورہی ہو، اُس کے سپوت نحیف وکم زور نہیں ہوں گے، توکیا اکھاڑے میں اُتریں گے۔ آپ سمجھیں، جو مل رہا ہے، وہ بھی غنیمت ہے۔ کئی کئی ماہ کی تن خواہوں کے بغیر یہ جو کچھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے، براہِ مہربانی، فی الحال اسی پر اکتفا کیجیے۔

آنٹیوں کو آئینہ

اس دفعہ آپ کی طرف سے مہذّبانہ جواب ملا، تو دل کو کچھ تسلّی ہوئی، وگرنہ یہاں تو اپنی مرضی سے کوئی کچھ بول بھی نہیں سکتا۔ ’’جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر ہمیں لکھ بھیجیے۔‘‘ یہ خُوب صُورت الفاظ بس لکھنے ہی کی حد تک ہیں۔ مائوں کے عالمی دن کا چرچا پڑھ کے حیرت ہوئی، صرف ایک دن !! جو اپنی پوری زندگی اولاد پر نچھاور کردیتی ہے، اُس کے لیے صرف ایک دن۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں رانجھا صاحب بھی کس دَور کی کہانی لے آئے کہ جب شوہر کی خدمت، بچّوں کی تعلیم وتربیت بنتِ حوّا کے ایمان کا حصّہ تھا، آج کل تو ایسی خواتین کو اَن پڑھ، گنوار سمجھا جاتا ہے۔ ’’انسانیت کی خدمت کاحلف، مریضوں کی دیکھ بھال ہی ہماری پرائمری ڈیوٹی، ہم ڈرکر گھر نہیں بیٹھ سکتے… ‘‘ شفق رفیع صاحبہ! یہ بھی وہی دانت ہیں، جو ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بائیں جانب نیچے کی طرف نمایش کے لیے رکھے جاتے ہیں، اگر آپ اسپتالوں کی صُورتِ حال جا کےدیکھیں، تو آپ کو پتا چلے گا ان معالجین کا اخلاق، رویّہ اور مریضوں کے ساتھ حُسنِ سلوک۔ ہاں، ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ’’فیمینزم بمقابلہ فیمیلیزم‘‘ لے کر آئیں اور چھا گئیں۔ دَورِ حاضر کی خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے یہ تحریر۔ اگلے شمارے میں افشاں مراد نے ’’توکّل علی اللہ‘‘ کو بہترین انداز میں بیان کیا۔ عابد صاحب کی آہ وبکا کہ ہم ستّر سال سے تجربات کررہے ہیں، بالکل درست ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ناہید خان کے ’’دوسرا رُخ‘‘ میں کچھ بچپنا سانظر آیا۔ شگفتہ عُمر نے اسلام میں خواتین کے حقوق بیان کرکے حقوقِ نسواں کا شور مچانے والی آنٹیوں کوآئینہ دکھادیا۔ ابصار فاطمہ نے ذہنی دبائو سے نکلنے کے جتنے بھی نسخے بتائے، اُن میں کوئی ایک بھی دین ومذہب سے متعلق نہ تھا۔ اتنی بھی مادّیت پرستی اچھی نہیں کہ ہم یہ بھی بھول جائیں کہ ہمارا کوئی دین، مذہب بھی ہے۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں عرفان جاوید نے بہت سے مظالطوں کودورکیا۔ ممکن ہو تو نام نہاد روشن خیالی کے مغالطے کوبھی ختم کیا جائے ؎ ( مسٹر معذرت خواہ، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: مسٹر خوامخواہ ! آپ کے دو خطوط سے70فی صد زہر نکالنے، نام نہاد دانش وَری ایڈٹ کرنے کے باوجود جو بچ رہا ہے، اُس پربھی ’’ایک تو کریلا اوپر سے نیم چڑھا‘‘ کی مثل ہی سوفی صد صادق آتی ہے، مگر کیا کریں، شایع توکرنا پڑے گا کہ ’’آپ کی رائے ہمارے لیے مقدّم ہے‘‘ کی کلہاڑی بھی تو ہم نے خود ہی اپنے پائوں پہ مار رکھی ہے۔

اندازِ تحریر کا جواب نہیں !!

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شفق رفیع نے خدمت گار مائوں پربہت ہی عُمدہ مضمون تحریرکیا۔ عرفان جاوید کا ’’عجائب خانہ‘‘ تو گویا ایک الف لیلوی داستان ہے۔ پی او بی آئی اسپتال پر رپورٹ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ منور راجپوت کے اندازِ تحریر کا جواب نہیں۔ ہمارا وَرثہ میں ہدایت حسین نے اچھی داستان رقم کی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر رانجھا کی کہانی ’’ماں جی‘‘ بہت اچھی لگی اور اس مرتبہ تو پیارا گھر بھی بہت ہی پسند آیا۔ اگلے شمارے کے اشاعتِ خصوصی اور سرچشمۂ ہدایت میں شگفتہ عُمر اور حافظ حسن عامر نےاچھے مضامین لکھے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید نے اردو کے نعتیہ کلام پر اچھی معلومات فراہم کیں۔ ’’عجائب خانہ‘‘ کے سفید کوّے توکمال کی تحریر ہے۔ ڈائجسٹ کی دونوں کہانیاں بھی زبردست تھیں۔ (رونق افروزبرقی، دستگیر کالونی، کراچی)

چاند، ہالے میں بھلا لگتا ہے!!

سنڈے میگزین پڑھا۔ سرورق پر عبایا اسکارف میں لپٹی، حوّا کی بیٹی شرم وحیا کا پیکر لگی۔ واقعی Veil is the ornament of a woman اور چاند ہالے میں بھلا لگتا ہے۔ شگفتہ عُمر نے اسلام اور حقوقِ نسواں سے متعلق خُوب لکھا۔ جتنے حقوق اسلام نے عورتوں کو دیئے ہیں، مغرب ابھی اُن کے نصف کو بھی نہیں پہنچا۔ حافظ حسن عامر نے رزقِ حلال کی اہمیت اجاگر کی، تو ریاض علیمی نے زکوٰۃ کو نظامِ معیشت اور طبقاتی تقسیم کے خاتمے کے لیے بہترین گردانا۔ رئوف ظفر نے انٹرویو میں اردو نعت کے آغاز و ارتقاء سے متعلق بات چیت کی اور منور مرزا نے کورونا وائرس کواس شعر کے مصداق قرار دیا ؎ سارے محاورے ہی الٹ ہوگئے ہیں بس…ہرچیز کو وبا نے کورونائی کردیا۔ سنڈے اسپیشل‘‘ میں ابصار فاطمہ نے کورونا کے سبب ہونے والےذہنی دبائو سے بچنے اور اتائیوں، جعلی ڈاکٹروں سے ہوشیار رہنے کا مشورہ دیا۔ نجم الحسن عطا فطرت کے اشارے سمجھنے پر زور دے رہے تھے کہ ’’نہ سمجھو گے، تو مٹ جائو گے‘‘ قیصر عباس کا ’’مِن جانب کورونا‘‘ ناہید خان کا دوسرا رُخ ڈاکٹر قمر عباس کی نظم ’’حیات بعد از قرنطینہ‘‘ اور منیٰ جاوید کی ’’کشمیر‘‘ کافی ہارٹ ٹچنگ تھے۔ سبیتا مشتاق کا ’’دھوپ میں سایہ بننے والے مَردوں کے نام‘‘ بہت ہی متاثر کُن لگا۔ مقامِ شُکر کہ مظلوم مَردوں کے حق میں بھی کسی نے آواز اٹھائی۔ ویل ڈن اینڈ تھینک یو سبیتا۔ اور آپ کا صفحہ کے رنگارنگ خطوط اور کھٹّے میٹھے جوابات تواپنی مثال آپ ہی ہیں۔ ( جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، بہاول نگر)

بہت خوشیاں لے کر…

اس بار کورونا کے عفریت کے سبب میں مدرزڈے اور فادرزڈے کےلیےپیغامات بھیجنے سے قاصر رہا۔ پوسٹل سروس جو متاثر تھی، مگر ہم دونوں میاں بیوی کے لیے یہ ایّام بہت خوشیاں لےکر آئے کہ ہمارے بچّوں نے ہم کو اپنی محبّتوں میں یادرکھا۔ ویسے دونوں ہی ایڈیشنز شان دار تھے۔ شفق رفیع نے اپنے والد کو جن خُوب صُورت الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا، لاجواب تھا۔ ممکن ہو، تو طارق عزیز سے متعلق کوئی تفصیلی مضمون شایع فرمادیں۔ (اسلم قریشی، میمن نگر، گلزار ہجری، ملیر،کراچی)

ج:طارق عزیز صاحب سے متعلق تو ہم وقتاً فوقتاً تحریریں شامل کرہی رہے ہیں۔

جلد یہ دن دیکھیں

50لاکھ آبادی والے مُلک، نیوزی لینڈکی آئرن لیڈی، وزیر اعظم، جسینڈا آرڈرن نے5 مئی کو انتہائی مسرور چہرے کے ساتھ قوم کے سامنے یہ اعلان کیا کہ ’’ہمارا مُلک کورونا فری ملک بن چکا ہے‘‘ تو دیکھ کرخوشی سے آنکھیں بھر آئیں۔ اللہ کرے کہ ہم بھی جلد یہ دن دیکھیں۔ کڈنی ہل پارک کو عملی طور پر اپنے جنون اور خلوصِ دل سے وجود بخشا، میٹرو پولیٹن کمشنر، ڈاکٹرسیّد سیف الرحمٰن نے۔ واقعی مستقبل قریب میں یہ کراچی کے لیے آکسیجن ٹینک ثابت ہوگا۔ سیف الرحمٰن جیسے مخلص، پُرعزم اور جواں ہمّت افسر ہمارا مان ہیں۔ ایسے افسران کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں اعزازات سے نوازنا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی تحریک ملے۔ منور مرزا کی گرفتِ قلم کا کیا کہنا۔ عرفان جاوید ’’زمانہ‘‘ کی دوسری قسط کے ساتھ جلوہ افروز تھے۔ واقعی، جو وقت کا نہ ہوا، وہ کہیں کا نہ رہا۔ ماڈل مریم رانا پر سرتاپا گلابوں کے شجر ہی کا گمان ہوا۔ کورونا وبا سے متعلق مختلف النّوع سوالات کے انتہائی مدلّل جوابات ’’میگزین رپورٹ‘‘ کی شکل میں دیئے گئے، زبردست بھئی۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں امّ حبیبہ نور باورچی خانے میں ہر مسئلے کا حل لیے مُسکراتی نظر آئیں۔ واقعی ٹوٹکے زبردست تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں حفصہ صدیقی کی کہانی میں شعور کی اہمیت کو عُمدگی سے اُجاگر کیا گیا۔ سنڈے میگزین کا یہ خاصّہ ہے کہ اس کا اِک اِک لکھاری اپنی مثال آپ ہے، جب ہی تو سنڈے میگزین اس قدر منفرد اور نایاب ہے۔ (ضیا الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج:۔ جی، اِن شاء اللہ تعالیٰ ہم بھی جلد ہی یہ دن دیکھیں گے۔

’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ میں موقع ؟

کڈنی ہل پارک کی رپورٹ میں ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کا تعارف شایع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ابھی تو کچھ ہی عرصہ پہلے اُن کا تفصیلی انٹرویو سنڈے میگزین میں شایع ہوا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ قارئین ڈاکٹر صاحب پر پی ایچ ڈی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور آپ کو شاید ہم ایک ہزار سے بھی زیادہ بار کہہ چکے ہیں کہ ہم خاندانی نواب زادے ہیں، ہمارے خطوط ایڈٹ نہ کیا کریں۔ اور ہاں، سہیل وڑائچ صاحب سے کہیں کہ ایک دن ’’جیو کے ساتھ‘‘ میں ہمیں بھی موقع دیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد ،کراچی)

ج:ارے ہمیں وڑائچ صاحب سے کہنے کی کیا ضرورت ہے، وہ یقینًا ایک نہ ایک روز خود ہی آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ کے پاس آن پہنچیں گے۔

ایک شمارے پر

اپنی ہی روایت کو توڑتے ہوئے اس بار صرف ایک شمارے پر تبصرہ کروں گا۔ عالمی وبا کورونا سے متعلق منور مرزا، ڈاکٹر نرگس اسد، ڈاکٹر عائشہ میاں نے خُوب رہنمائی فرمائی۔ ہیوی ویٹ ڈرامے، ارطغرل غازی کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر، ڈراما نگار، مہمت بوزداع سے ’’کہی اَن کہی‘‘ میں خُوب دل چسپ گفتگو ہوئی۔ ممکن ہو تو دیگر فن کاروں کو بھی کہی اَن کہی میں لائیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی نژاد سائنس دان، ڈاکٹر نوید امام سیّد سے اچھی گفتگو کی گئی۔ ’’اسٹائل‘‘ میں ’’عالمی یومِ والد‘‘ کی مناسبت سے خصوصی اہتمام تھا۔ نام وَر کرکٹر، کامران اکمل اپنے پیارے پیارے بچّوں کے ساتھ موجود نظر آئے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں والدین کے نام پیغامات شامل ہوئے۔ لاک ڈائون نہ ہوتا، تو ہمارا پیغام بھی جگمگا رہا ہوتا۔ چوںکہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں محمّد سلیم راجا نے مجھ ناچیز اور چند مستقل تبصرہ نگاروں کو ہیو ی کاسٹ کہا، تو یہ ان کا حُسنِ نظر ہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار ،بہاول نگر)

ج:ہم آپ کو اپنا ہی منفرد ریکارڈ توڑنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

خطوط نگاروں کے آرٹیکلز

کیسے یک سر ہی دنیا کے حالات و واقعات بدل سے گئے ہیں، ہمیں کورونا سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے۔ رئوف ظفر کی ہدایات ہوں یا محمّد عمر قاسمی کے چٹکلے، نگہت شفیع رقم طراز ہوں یا حمنہ اسحٰق، بات ایک ہی کہی گئی کہ مِن حیث القوم ذمّے دار بننا ہوگا۔ ایسے میں طارق عزیز کا روٹھ جانا بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ اُن سے متعلق فاروق اقدس کی عُمدہ قلم کاری دیکھنے کو ملی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کا ’’دال نامہ‘‘ مزے دار تھا۔ باپ، بیٹا آمنے سامنے کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’زمانہ، وقت کا حیرت کدہ‘‘ پڑھا، جی کو خُوب بھایا۔ لگتا ہے اس سلسلے کی کڑیوں میں ’’زمانہ‘‘ بازی لےجائےگا۔ اگلے شمارے میں سب سے پہلے ’’عجائب خانہ‘‘ ہی کی طرف لپکے۔ اب دوسری قال ہو یا کہ دال میں کچھ کالا، ست سِری اکال ہو یا کہ فلسفیوں کی اختراعات، مگر ایک بات طے ہےکہ بالاخر کائنات کا سفر مکمل ہوجائےگا۔ ’’متفرق‘‘ میں احتشام انور نے ’’گبریل گارشیا مارکیز‘‘ سے متعارف کروایا۔ بھئی واہ، پڑھ کے مزہ آگیا کہ ایسے حیران کُن ادبا بھی دنیا میں آئے۔ ویسے لاطینی امریکاحیرت انگیز تہذیب و ثقافت کا حامل ہے۔ ’’کڈنی ہل پارک‘‘ سے متعلق تحریر پڑھ کر دل خوش ہوگیا کہ کراچی سے بھی کوئی اچھی خبر ملی۔ باقی سارا میگزین عُمدہ ہے، ایک سے بڑھ کر ایک تحریر اور اب تو خطوط نگار باقاعدہ آرٹیکلز بھی لکھنے لگے ہیں، بھئی واہ۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج:یہ ہمارے حق میں بہت بہتر ہوگیا ہے۔ کم از کم ’’آپ کا صفحہ‘‘ جو تختۂ مشق بنا ہوا تھا، اُس سے تو جان چھوٹ رہی ہے اور یہ درحقیقت ہمارے مشورے کے تحت ہی ہو رہا ہے، جس کی تحریر میں کچھ دم خم ہے، وہ باقاعدہ آرٹیکلز لکھ لے، نہ کہ خطوط میں مندرجات پر تبصرے کے بجائے طول طویل رام کہانیاں لکھ لکھ کر بھیجےاور آدھا تیتر، آدھا بٹیر بنا رہے۔

لکھنے پڑھنے پر فوکس

ایک نظم، ایک غزل اور ایک اور کاوش صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے ارسال کر رہا ہوں، چوںکہ لاک ڈائون ہے، باہر جانا ہوتا نہیں، گھر ہی پر رہنے پر اکتفا ہے، تو سارا فوکس لکھنے پڑھنے ہی پر ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس کےلیے بھی چند تحریرات پائپ لائن میں موجود ہیں۔ وہ بھی ان شاء اللہ جلد مکمل کر کے ارسال کردوں گا۔ (ڈاکٹر اطہر رانا،فیصل آباد)

ج:جی بہتر۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

’’عید ایڈیشن‘‘ سمیت پانچ شمارے سامنے دھرے ہیں، ہر اک شمارہ اور سرِورق بہت خُوب۔ ’’یہ قید گویا مچھلی کا پیٹ ہے‘‘ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی بات دل کو لگی۔ بلاشبہ دُعائوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں کہ دُعائیں تو انبیا ؑنے بھی مانگی ہیں۔ خود نبی کریمﷺ سے ہر ہر موقعے کی دُعا ثابت ہے۔ سنڈے اسپیشل ’’لاک ڈائون ایسے بھی ہوتا ہے‘‘ منفرد اور دل چسپ مضمون تھا، بہت پسند آیا۔ ’’شاباش شاہ پوش…‘‘، رنگین صفحات پر دیدہ زیب ملبوسات دیکھ کر بےاختیار منہ سے نکلا۔ ایسے ہی ملبوسات تو درحقیقت ہمارے لیے ہیں، وگرنہ آپ کی وہ ٹیل شرٹس اور دھوتی شلواریں، توبہ توبہ۔ حالات و واقعات کے تحت تمام مضامین یک سانیت لیے محسوس ہوتے ہیں، پھر خیال آیا، جب ماحول ہی ایسا بنا ہوا ہے، تو مضمون نگار بھی بھلا کیا کریں۔ ’’درخت آدمی ہیں‘‘ نے تو اب تک سحر زدہ کر رکھا ہے۔ مڈغاسکر کاذکر آیا، تو اپنا پچھلے سال کا سفر یاد آگیا۔ حقیقتاً قدرتی حُسن سے مالامال انتہائی حسین جزیرہ نوع بہ نوع پودوں اور درختوں سے لدَا پھندا اپنی مثال آپ ہے۔ انصار برنی کے بارے میں پڑھنا بھی اچھا لگا۔ ڈائجسٹ کے تحت’’درد کے پیوند‘‘ نے افسردہ کردیا۔ ’’مدرزڈے ایڈیشن‘‘ کا سرِورق لاجواب تھا۔ شفق رفیع کا خصوصی مضمون خاص طور پر پسند آیا۔ ’’سفید کوّے‘‘ کے تو عنوان ہی نے چونکا دیا تھا۔ مغالطوں اور حقائق کا عرق ریز تجزیہ بس عرفان جاوید ہی کا خاصّہ ہو سکتا تھا۔ خالدہ سمیع نے بالکل صحیح کہا کہ لوگ ناحق ہی ناول کو رو رہے ہیں، ’’عجائب خانہ‘‘ نے سب کسریں پوری کردی ہیں۔ عید شمارہ تو بہت ہی خُوب ہے۔ کورونائی عید نے بھی لُطف دے دیا۔ سدا بہار فضیلہ قیصر کو دیکھ کرماضی یاد آگیا۔ ’’حیرتوں کے سمندر میں…‘‘ سنگار پور اور ملائیشیا کی سیر خُوب رہی۔ یوں تو راجا بھائی کا تبصرہ مختصر اور مدلّل ہوتا ہے، مگر پروفیسر مجیب ظفر کا تبصرہ بھی مجھے تو جان دار لگتا ہے۔اپنی مزید ایک تحریر ارسال کررہی ہوں، اُمید ہے، اصلاح فرمائیں گی۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج: جی بلاشبہ، ’’عجائب خانہ‘‘ جیسے سلسلے ہی درحقیقت ’’سنڈے میگزین‘‘ کا اصل فخرو امتیاز ہیں۔ اور اگر آپ کبھی غلطی سے پروفیسر صاحب کا پورا تبصرہ پڑھ لیں، جو وہ ہمیں عنایت فرماتے ہیں(اور ایک بار نہیں، متعدّد بار خود ہی تصیح فرما فرما کے) تو وہ آپ کو صرف جان دار ہی نہیں، بہت لحیم شحیم، ہٹا کٹا بھی لگے گا کہ اس کی جسامت و ضخامت کم کرتےکرتےتو ہمارا سیروں خون جل جاتا ہے۔

گوشہ برقی خُطوط

٭دُعا ہے، آپ ہمیشہ خوش رہیں اور میرا خط شائع ہونے کے بعد اللہ آپ کو اور بھی خوش رکھے۔ شکر ہے، میں نے آپ کا شاہ کار ناول پڑھنا شروع ہی نہیں کیا تھا، اِسی لیے لوگوں کے منفی تبصروں سے بھی کچھ لینا دینا نہیں۔ باقی جریدہ اپنی جگہ خُوب ہے۔ (نورین فتح، حیدر آباد)

ج:شاباش !! یہ تو تم نے بہترین کام کیا۔

٭انتہائی احترام کے ساتھ ایک بار پھر آپ کی اور جنگ، سنڈے میگزین کی پوری ٹیم کی تہہ دل سے شُکرگزار ہوں کہ جریدے میں جگہ دی۔ یوں تو پورا میگزین ہی نایاب تحاریر سے مزیّن ہوتا ہے، مگر فاروق اقدس کی طارق عزیز سے متعلق تحریر لاجواب تھی۔ البتہ عالمی یوم والد کی مناسبت سے تحریروں کی کچھ کمی محسوس ہوئی۔ (سمیرانظام شیخ،نواب شاہ)

٭اس بار سنڈے میگزین کا سرورق قدرت کی رنگینیوں سے سجا نظر آیا۔ حالات و واقعات میں منور مرزا نے بجٹ کے خُوب بخیے ادھیڑے۔ اشاعت خصوصی میں طارق عزیر کی زندگی کے بہت سے گوشوں سے شناسائی حاصل ہوئی۔ لاک ڈائون کا کڑوا گھونٹ حکومتی پالیسیوں کا ایکس رے ثابت ہوا۔ ’’پدر بمقابلہ پسر‘‘، معاشرے کی تلخ حقیقت کو آشکار کرتی تحریر لگی۔ قاری عبد الباسط کی تلاوت سُنتے تو بڑے ہوئے، اُن کی زندگی پر مضمون پڑھ کر بہت لطف آیا۔ مجموعی طور پر شمارہ جان دار تھا۔ (دانیاں حسن چغتائی، کہروڑ پکا، لودھراں)

٭اس بار بھی سنڈے میگزین گزشتہ جرائد ہی کی طرح شان دار تھا۔ آپ خطوط کے جوابات بڑے ہی اچھے انداز سے دیتی ہیں، پڑھ کر مُسکراہٹ ہونٹوں پر پھیل جاتی ہے ۔ ناقابلِ فراموش کا معیار کچھ گر گیا ہے، اِسے بہتر بنائیں۔ ہماری ای میل کا جواب ضرور دیجیے گا اور براہِ مہربانی رعنا فاروقی کو واپس لائیں۔ (راحیل قریشی)

ج:رعنا فاروقی صاحبہ نے خود یہ ذمّے داری نبھانے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ اب ہم ان کے ساتھ زبردستی تو کرنے سے رہے۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk