یومِ دفاعِ پاکستان

September 06, 2020

’’مجھے آپ سے بالکل بات نہیں کرنی۔ بھلا ایسا بھی کوئی بھائی ہوتا ہے، جو بہن کی شادی کے لیے چھٹیوں پر آئے اور اسے رخصت کیے بنا ہی ڈیوٹی پر واپس لَوٹ جائے، بس ایک ہی دِن کی تو بات ہے، رُک جائیں ناں بھائی، پلیز…!!‘‘ حیا، بھائی کو مناتے مناتے رو پڑی۔’’میری پیاری بہنا! سب سے پہلے تو اپنی آنکھوں سے یہ آنسو پونچھو۔ فوجیوں کی مائیں، بہنیں کم زور ہوتی ہیں اور نہ ہی بات بات پر آنسو بہاتی ہیں۔ بلا شبہ تم میری جان ہو اور مَیں تمہیں ہمیشہ ہنستا مُسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں، لیکن یاد رکھو کہ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ عزیز وہ عہد ہے، جو مَیں نے یہ خاکی وردی پہنتے ہوئےاس مٹّی، اس پاک سر زمین سے کیا تھا۔ اس وقت تم سے زیادہ وطن کو میری ضرورت ہے ، اس لیے مجھے جانا پڑے گا۔‘‘یہ کہہ کر کیپٹن احمد علی نے بیگ اُٹھایا ، بہن کا ماتھا چومااور ماں باپ کی دُعائیں لے کر رخصت ہوگئے۔‘‘ ’’بابا…! دیکھیں، میرے میتھس اور فزکس میں فُل مارکس آئے ہیں۔مَیں بھی بڑا ہو کر آپ ہی کی طرح فائٹر پائلٹ بنوں گا۔ آج مَیں نے ماما کو نانو سے باتیں کرتے سُنا ، وہ کہہ رہی تھیں کہ مَیں بالکل آپ ہی کی طرح ذہین اورسمجھ دار ہوں،پر مَیں توآپ کی طرح بہادر بھی بننا چاہتا ہوں۔مجھے پتا ہے کہ آپ نے جنگ میں دشمن کے تین جہاز مار گرائے تھے اور باقیوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور طیارے کے انجن میں آگ لگنے کے بعد آبادی میں جہاز گرا کر اپنی جان بچانے کے بجائے پانی میں جہاز گرا کر شہید ہونے کو ترجیح دی تھی۔ آپ میرے سُپر ہیرو ہیں۔

ائیرکموڈور(ر)، خالد محمود

آئی لَو یواینڈ مِس یو سو مچ۔‘‘ اسکواڈرن لیڈر ، خاور شہزادکا بیٹا روز کی طرح اپنے بابا کی تصویر سے باتیں کر تے کرتے نیند کی آغوش میں جا چُکا تھا۔’’ امّاں !مَیں نے کتنی بار آپ سے کہا ہے کہ سودا لینے اکیلی مت جایا کریں۔ مَیں ہوں ناں، آپ مجھ سے کیوں نہیں کہتیں …؟؟یہ وہیل چیئر آپ کے بیٹے کی کم زوری نہیں، طاقت ہے۔ ٹانگیں کیا،مُلک کی خاطر میری جان بھی چلی جاتی تو افسوس نہ ہوتا۔‘‘ ’’میرے بچّے! مجھے تم پر فخر ہے۔ کیا مَیں نہیں جانتی کہ تم نے کتنے شوق سے پاک بحریہ جوائن کی تھی۔ آج بھی وہ سفید وردی تم پر بہت جچتی ہے، شہزادہ لگتا ہے میرا بیٹا۔ اور مجھے سوہنے ربّ کی ذات پر پورا یقین ہے کہ ایک دن تُو پھر سے اپنے پَیروں پہ کھڑا ہو گا، پھر سے گہرے سمندر میں جائے گااور پھر سے سب مَیرین میں ڈیوٹی دے گا۔‘‘والدین کے اکلوتے بیٹے لیفٹیننٹ عاصم نے دشمن کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کج کوشش ناکام بنائی، مگر بد قسمتی سےاس دوران ان کا دھڑشدید متاثر ہوا اور وہ وہیل چیئر باؤنڈ ہو گئے۔

کہنے کو تو یہ چند کہانیاں ہیں، لیکن کہیں نہ کہیںان کی حقیقت ہمارے شیر دل سپوتوں، افواجِ پاکستان کے سپاہیوں کے گھروں ہی سے جُڑی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا فوجی ہو، جس نے اس پاک سر زمین کی حفاظت کے لیےاپنی فیملی لائف قربان نہ کی ہوکہ یہی تو ہمارے بہادر سپاہیوں کی شان ہے کہ موسم کی سختیاں جھیلنے، سخت حالات کا سامنا کرنے کے با وجود ہر لحظہ بحری، برّی اور فضائی حدود کی حفاظت یقینی بنارہے ہیں۔ وہ سرحدوں پر ایسے ڈَٹے ہیں کہ ان کا رعب و دبدبہ ہی دشمن کو زیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ افواجِ پاکستان کی ہمّت، بہادری، جرأت، شجاعت کی یہ داستانیں آج کی نہیں، برسوں پرانی ہیںکہ جذبۂ شہادت، دلیری، پروفیشنلزم تو انہیں وَراثت میں ملا ہے۔وہ جو کہتے ہیں ناں کہ ’’پاکستان کھوکھلا ہو چُکاہے‘‘ انہیں در اصل اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ 27رمضان المبارک کو وجود میں آنے والے اس عطیۂ خداوندی کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔

میجرل جنرل(ر)،عنایت اللہ خان نیازی

اس وطن پر مَیلی آنکھ ڈالنے والے، اس کا بُرا چاہنے والے شاید اب تک اس بات سے اَن جان ہیں کہ یہ غازیوں ، شہداء کا دیس ہے اور قوم کے اصل ہیروز کو سلام پیش کرنے کا آج سے بہتر دن اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ 6ستمبر صرف یومِ دفاع ہی نہیں، ہماری شان و عظمت کا بھی دن ہے۔اس جیسے دن ہر قوم کا مقدّر نہیں بنتےاورزندہ قومیں ایسے اہم ایّام ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ آ ج کا دن صرف ان شہیدوں ہی کو یاد کرنے کا نہیں، جنہوں نے اپنا کل ، ہمارے آج پر قربان کر دیا، بلکہ جنگِ ستمبر تو پوری پاکستانی قوم کی جرأت و شجاعت، بلند ہمّتی اور عزم و استقلال کی شاہد ہے۔

چھے ستمبر کوبھارت نے طاقت کے نشے میںگیدڑوں کی طرح رات کے اندھیرے میںپاکستان کی آزادی سلب کرنے کی ناپاک جسارت کی، جس کو پاک فوج اور قوم نے مل کر خاک میں ملا یا اور دنیا کو یہ پیغام دیاکہ بھارت یا کوئی اورکسی خام خیالی میں نہ رہے کہ ہم اپنے دفاع سے غافل ہیں۔ جذبۂ شہادت سے سرشار افواجِ پاکستان اپنے مُلک کی طرف بڑھنے والے ہر ناپاک قدم کو روندنا خُوب جانتی ہیں ۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم نے ہمارےان محافظوں کی شان میں کیا خوب لکھا ؎اَے پُتَر ہٹاں تے نئیں وِکدے … کی لَبھ نی ایں وِچ بازار کُڑے… اے دین وے میرے داتا دی … نہ ایویں ٹکراں مار کُڑے… اے پُتَر وِکاؤ چیز نئیں … مُل دے کے جھولی پائیے نئیں…اَے اَیڈا سَستا مال نئیں… کتہوں جا کے منگ لیا ئیے نیں…اَے سَودا نَقَد وی نئیں مِل دا… تُوں لَب دی پھِریں اُدھار کُڑے…اے شیر بہادر غازی نیں … کِسے کولوں وی ہَر دے نئیں…اینا ںدشمناں کولوں کی ڈرنا… اَے موت کولوں وی ڈردے نئیں…اَے اپنے دیس دی عزت توں … جان اپنی دیندے وار کُڑے…دَھن بھاگ نیں اَوہناں ماواں دے … جنہاں ماواں دے اے جائے نیں…دَھن بھاگ نیں بہن بھراواں دے …جِنہاں گودی وِیر کِھڈائے نیں…اے آن نیں ماناں وَالیاں دی … نئیں ایس دی تینوں ساڑ کُڑے۔’’ جب اعلانِ جنگ ہوا، تو اُس وقت فوجیوں نے کیا محسوس کیا، میدانِ جنگ میں کیا جذبات تھے، وہ کیا سوچتے تھے؟‘‘ اس حوالے سے جنگِ ستمبر1965ء میں حصّہ لینے والے ایک غازی، میجر جنرل(ر)عنایت اللہ خان نیازی کا کہنا ہے کہ’’ جب جنگ ہوئی ،اس وقت مَیں لیفٹیننٹ تھا۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوئے دو سال ہی ہوئے تھے۔ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جنگ چِھڑ جائے گی کہ بھارت نے شیروں کی طرح نہیں، چُھپ کر وار کیا تھا۔ ہم پوسٹنگ پر چھانگا مانگا جا رہے تھےکہ راستے میں خبر ملی کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے۔

ائیرکموڈور، سیداحمر رضا

اس خبر سے ہم ڈرے، نہ گھبرائے بلکہ یوں لگا کہ جس خواب کے ساتھ پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی تھی، خاکی وردی تَن پہ سجائی تھی، اس کی تعبیر کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ جذبات صرف میرے نہیں، بلکہ میرے تمام ساتھیوں کے تھے۔ ہمارے دل جذبۂ شہادت سے لبریز تھے، سر پر بس ایک ہی جنون سوار تھا کہ کسی بھی قیمت پر مُلک کا دفاع کرنا ہے، اس پاک سر زمین اور اپنی قوم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، چاہے اس کے لیے ہماری جان ہی کیوں نہ قربان ہو جائے۔ خیر، ہم لوگوں کو سیال کوٹ جانے کے آرڈرز ملے۔ یہاں مَیں پاکستانی قوم کے جذبے اور عوام کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ہر قدم پر، حقیقتاً قدم قدم پر ہمیں سپورٹ کیا، ہمارا حوصلہ بڑھایا۔

مَیں حیران ہوں کہ اس وقت موبائل فونز ، ٹیلی فونز وغیرہ کی سہولت نہ ہونے کے با وجود گاؤں والوں کو کیسے خبر مل جاتی تھی کہ ہم وہاں سے گزرنے والے ہیں کہ وہ پہلے سے ہمارے استقبال کے لیےکھڑے ہوتے، ’’نعرۂ تکبیر ، اللہ اکبر اور افواجِ پاکستان زندہ باد…‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے، جنہیں سُن کر ہمارا جذبۂ حبّ الوطنی مزید بڑھ جاتا۔ اُس وقت جو خوشی ، مسرت اورفخر ہم محسوس کرتے تھے، وہ نا قابلِ بیان ہے۔ یہاں مَیں ایک اہم بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، جو یقیناً آج کی نسل کو نہیں معلوم ہوگی کہ جنگِ ستمبر اچانک تو چھِڑی تھی، مگر دَر حقیقت یہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی افواج کی پیش قدمی روکنے کے لیے بھارت کاردِعمل تھا۔

گزشتہ پانچ ماہ سے کشمیر میں بھارت کو افواجِ پاکستان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھااور جنگ اِسی لیے چھیڑی گئی۔بھارتی فوج تعداد اور ٹیکنالوجی میں یقیناًہم سے آگے تھی ، مگر جرأت وجذبے میں مات کھا گئی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے نہ صرف اُن سے اپنے علاقے خالی کروائے، بلکہ اُن کے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ۔ پاکستان کو مسلسل کام یابی ہی کام یابی ملے جا رہی تھی۔ جب بھارت نے دیکھا کہ وہ جنگ ہار رہا ہے، تو اقوامِ متحدہ جا کر جنگ بندی کروانے کی درخواست دینے میں عافیت جانی ۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ بھارتی افواج اور حکومت کے لیے کس قدر شرم کا مقام ہے کہ جنگ کا آغاز بھی انہوں نے کیا، تعداد اور ٹیکنالوجی میں بھی وہ ہم سے بہت آگے تھےاور جنگ بند ی کی درخواست بھی انہوں نے ہی دی، کیوں کہ اس جنگ میں بھارت کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا، افواجِ پاکستان، بالخصوص پاک فضائیہ تو ان کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہو ئی ۔ بھارت کی نام نہاد پروفیشنل فوج ،جو لاہور میںناشتا کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی، اُس کے لیے اپنے علاقوں کی حفاظت کرنا مشکل ہوگیا ۔ تب ہی جب جنگ بندی/ سیز فائر کا اعلان ہوا تو ہمیں مایوسی اور افسوس ہواکہ ہم تو جنگ جیت رہے تھے۔

یہاں قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ 1965ء میں روس ، بھارت کا اور امریکا ، پاکستان کا دوست تھا۔ یعنی اس موقعے پر امریکا کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تھا، لیکن اس نے کہا کہ اب ہم پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو اسلحہ فراہم نہیں کریں گے، حالاں کہ بھارت تو روس سے اسلحہ لیتا تھا، یعنی امریکا تب ہی سے دوست کے رُوپ میں دشمن ہے۔ اگر مَیں عصرِ حاضر کی بات کروں تو مجھے خوشی ہے کہ ہماری افواج ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بہتر اور پروفیشنل ہوتی جا رہی ہیں۔البتہ اب ہمیں اسلحہ سازی پر دھیان دینا چاہیےاور آنے والے بیس، پچیس برسوں کی پلاننگ ابھی سے کرنی چاہیے۔ اسلحے کے لیےکسی دوسرے مُلک پر نہیں، خود اپنے اوپر انحصار کرنا چاہیے۔ میرے دَور کے بہت سے فوجی کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ بہت اچھا تھا، پر مَیں کہتا ہوں کہ یہ بچّے ہم سے بہت بہتر ہیں۔

افواجِ پاکستان ہر لمحہ اس وطن پر جان دینے کو تیار ہیں۔‘‘ایسے ہی ایک غازی، روس کے دو طیارے تباہ کرکے اسے شٹ اَپ کال دینے والےپاک فضائیہ کے شاہین، ائیر کموڈور(ر)خالد محمود نے جنگ کے حوالے سے اپنی یاد داشتیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’’رُوس نے، جو اس وقت کا سویت یونین تھا، افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا، چوں کہ پاکستان، افغانستان کی مدد کرر ہا تھا، تواس نے ہمیں ڈرانے، ہم پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے پاکستان کی فضائی سرحدوں پر وائلیشن کی کوشش کی۔ مَیں اُس وقت فلائٹ لیفٹیننٹ تھا اور نمبر 14 اسکواڈرن کا ایف سولہ طیارہ اُڑاتا تھا۔7 ستمبر 1988ء کو، جو یومِ فضائیہ ہے، روس نے جان بوجھ کر فضائی وائلیشن کی ۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ جیسے کوئی ڈاکو آپ کے گھر میں گُھس جائے اور بس ڈرا کر واپس چلا جائے۔ مگریہ ہماری سالمیت پر حملہ اور ہمارے لیے نا قابلِ بر داشت تھا۔ پھر 13 ستمبر 1988ء کی صبح دوبارہ روس کے چھے جہاز چترال آئے، ہمیں پہلے ہی بے حد غصّہ تھا کہ انہوں نے ہماری سرحدیں عبور کرنے کی جرأ ت کیسے کی۔ سو، مَیں نے اُن کے دو جہازوں کا نشانہ لیا اور الحمدُ للہ مار گرائے، یہ دیکھ کر باقی 4 جہاز بھاگ گئے اور اس کے بعد انہوں نے ہماری حدود عبور کرنے کی جسارت نہیں کی۔ ‘‘ ’’کامبیٹ(فضائی معرکہ) میں جانے سے پہلے کیا جذبات تھے؟‘‘ ہم نے پوچھا تو خالد محمود کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’پہلے دن ہی سےاکیڈمی میں ہمیں انتہائی سخت تربیت دی جاتی ہے۔ معمول کی فضائی مشقیں بھی اسی جذبے سے کرتے ہیں کہ جیسے جنگ ہو رہی ہے، تو جب مَیں کاک پِٹ میں گیا تو اس وقت ہر طرح کے جذبات و احساسات سے عاری تھا، بس وطن کی حفاظت کا جنون سوار تھا، روس کے دو جہاز تباہ کرنے کے بعد بھی مجھے احساس نہیں تھا کہ کتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے، وہ تو بعد میں احساس ہوا کہ الحمدُ للہ ! میرے مالک نے مجھے سُرخ رُو کیا۔

مَیں ایک اور بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ عوام کی سپورٹ ہمارے لیے بہت اہم ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ افواجِ پاکستان دن دُگنی، رات چوگنی ترقّی کر رہی ہیں کہ یہ قوم ان پر بھروسا کرتی ہے۔ یہ قوم کی ماؤں ہی کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ آج پاک فضائیہ دنیا کی واحد فورس ہے، جو جنگی جہاز تیار بھی کر رہی ہے اور فروخت بھی۔پہلے ہم ایف سولہ طیارے امریکا سے خریدتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ بآسانی جب چاہتا ہم سے ڈومور کا مطالبہ کردیتا، تو پاکستان نے اپنے جنگی جہاز بنانے کا عزم کیا اور ایف سولہ کے مقابلے پر اپنے جہاز کا نام ایف سترہ رکھا کہ یہ جہاز امریکا ساختہ ایف سولہ طیارے سے بھی بہتر ہے۔ پھر چوں کہ چین بھی ہمارے ساتھ تھا، تو اس نے کہا ،ایف سے پہلے، ’’جوائنٹ (جے)‘‘ لگا لیںاس طرح پاکستان نے اپنے طیارے کا نام، ’’جے ایف 17 تھنڈر ‘‘ رکھا۔

یہی نہیں، پاک آرمی نے’’الخالد ‘‘ٹینک بنایا، پاکستان نیوی شپس تیار کر رہی ہے، تو اب ہم اسلحہ سازی میں بھی اپنے قدم جما رہے ہیں، تاکہ مُلک کا دفاع مزید مضبوط کر سکیں۔ بلا شبہ، افواجِ پاکستان انتہائی دلیری و مہارت سے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کر رہی ہیں، لیکن قوم کے بزرگوں کی دُعائیں سایا بن کر ہماری حفاظت کرتی ہیں۔ یہ قوم دنیا کی عظیم ترین قوم ہے، جس نے ہمیشہ اپنی افواج کا ساتھ دیا، دہشت گردی کے خلاف آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ کا آغاز ہوا تو نقل مکانی کی، اپنے گھر چھوڑ کر کہیں اور بسنا آسان نہیں ہوتا، مگر قبائلی عوا م نےمُلک کی بقا کی خاطر یہ بھی کیا۔اسی طرح 2005ء کے زلزلے میں جب ہم امدادی کا رروائیوں کے لیے بٹگرام کی طرف جا رہے تھے، تو اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے ایک میڈیکل اسٹور جانا پڑا۔ مَیں نے کہا ’’امدادی کاموں کے لیے جا رہے ہیں، ان لوگوں کے لیے کچھ سامانا چاہیے۔ آپ کے پاس کیا کیا چیزیں موجود ہیں؟ ‘‘تو جواباً دکان دار نے کہا ’’سر! پوری دکان آپ کی ہے، جو چاہے، لے لیں کہ ہمارے بھائیوں کو اس وقت ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے۔‘‘

یاد رکھیں، جو قوم مشکل وقت میں متحد ہوکے کھڑی ہوتی ہے،پھر اُسے دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی۔‘‘پاک فضائیہ کے ترجمان، ائیر کموڈور، سیّد احمر رضا، تمغۂ امتیاز ملٹری، نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا کہ ’’اکیڈمی میں قدم رکھنے، پاکستان کا بیج سینے پر سجانےاور وردی زیبِ تن کرنے کے ساتھ ہی غازی یا شہید بننے کا خواب بھی ہمارے دلوں میں پنپنے لگتا ہے۔ہمیں تو بے صبری سے اُس پَل کا انتظار رہتا ہے کہ اس پاک وطن پر جان نچھاور کا موقع نصیب ہو۔ سو،جب ایسا کوئی موقع آتا ہے،تو ہمارے جذبات کسی اور ہی سطح پر ہوتے ہیں کہ وطن نے پکارا ہے، تو ہم اس مٹی کا قرض اُتارنے کے لیے اپنے لہو کی آخری بوند تک قربان کر دیں گے۔

گزشتہ سال، 2019ء میں ہونے والے آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ میں پاک فضائیہ کے افسران اور جوانوں کا جذبہ قابلِ دید تھا۔ ہم اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں قوم کے سامنے سُرخ رُو کیا ۔ ایسے مواقع پر عوام ہمارے لیے سپورٹ سسٹم کا کام کرتے ہیں۔ بے شک، افواج سرحد پر ہوتی ہیں، لیکن عوام کی پذیرائی، ان کا ساتھ، ہماری ڈھارس، ہمّت ہوتا ہے۔ مجھے اس قوم پر فخر ہےکہ ا س نے کبھی اپنے شہیدوں، غازیوں کو فراموش نہیں کیا، ہمیشہ ہی افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔‘‘