سیرت النبیﷺ (قسط نمبر 2)

September 06, 2020

دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکا ،لودھراں

بیٹے اور بیٹیاں

آپ ﷺ کی نرینہ اولاد میں سے ایک حضرت قاسم تھے۔ دوسرے بیٹے عبداللہ تھے،جنھیں طیّب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے۔یہ دونوں حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ تیسرے بیٹے حضرت ابراہیم، آپﷺ کی باندی، حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے ہوئے۔تاہم، آپ ﷺکی تمام بیٹے بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ آپﷺ کی چار صاحب زادیاں تھیں، جو حضرت خدیجہؓ ہی کے بطن سے ہوئیں۔ حضرت زینبؓ کا مکّہ مکّرمہ میں حضرت خدیجہؓ کی زندگی ہی میں ابوالعاص بن ربیع سے نکاح ہوا، جو غزوۂ بدر کے بعد مسلمان ہوئے۔ غزوۂ بدر میں کفّار کی طرف سے گرفتار ہوئے، تو حضرت زینبؓ نے اُن کی رہائی کے لیے بطورِ فدیہ وہ ہار بھیجا، جو نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓ نے اُنھیں دیا تھا۔ آپﷺ نے ہار پہچان لیا اور مسلمانوں کی اجازت سے ہار حضرت زینبؓ کو واپس کیا اور ابوالعاص بن ربیع کو اس شرط پر رہا کیا کہ وہ حضرت زینبؓ کو مدینہ بھیج دیں۔ اُنہوں نے وعدے کی پاس داری کرتے ہوئے قریش کی مخالفت کے باوجود اُنھیں مدینہ بھیج دیا۔

جب حضرت زینبؓ مدینے کے لیے نکلیں، تو کفّار نے رکاوٹ پیدا کی اور ایک بد بخت نے نیزہ مارا، جس سے وہ اونٹ سے گر کر زخمی ہوگئیں۔بعدازاں، ابوالعاصؓ بھی مسلمان ہوگئے۔آپﷺ نے اُن کا حضرت زینبؓ سے نکاح برقرار رکھا۔حضرت زینبؓ کا ایک بیٹا علیؓ اور ایک بیٹی امامہؓ بڑے ہوئے۔حضرت امامہؓ سے حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد نکاح کیا۔حضرت رقیہؓ، حضرت زینبؓ سے تین سال چھوٹی تھیں۔ آپﷺ کی دو صاحب زادیوں، حضرت رقیہؓ اور اُمّ کلثومؓ کے نکاح آپؐ کے چچا، ابو لہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہو چُکے تھے، لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جب آپﷺ نے نبوّت کا اعلان کیا،تو ابو لہب نے اپنے بیٹوں سے زبردستی دونوں کو طلاق دلوا دی۔آپﷺنے حضرت رقیہؓ کا نکاح حضرت عثمان بن عفّانؓ سے کر دیا۔اُن کی شادی پر لوگوں نے کہا کہ ’’اِن جیسا حَسین جوڑا ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ آپﷺنے صحابہؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا، تو حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیّہؓ بھی وہاں چلے گئے۔حبشہ ہی میں آپ ؓکے ہاں ایک بیٹا، عبداللہ پیدا ہوا، جو پانچ ماہ کی عُمر میں وفات پاگیا۔ حبشہ سے دونوں نے مدینے کی طرف ہجرت کی۔

غزوۂ بدر پیش آیا، تو ایک طرف مسلمانوں کا لشکر تیار تھا اور دوسری طرف حضرت رقیہؓ بیمار تھیں۔آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو تیمار داری کے لیے اُن کے پاس چھوڑا اور خود غزوے کے لیے روانہ ہو گئے۔جب قاصد فتح کی خبر لے کر آیا، تو اہلِ مدینہ حضرت رقیّہؓ کو دفنا کر ہاتھ جھاڑ رہے تھے۔حضرت رقیّہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ نے حضرت اُمّ کلثومؓ کو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دے دیا۔حضرت اُمّ کلثومؓ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ نو ہجری میں رسول اللہﷺکی زندگی ہی میں آپﷺ کی تیسری صاحب زادی بھی دارِ فانی سے رخصت فرما گئیں۔آپﷺ نے خود جنازہ پڑھایا اور خود قبر میں اُتارا۔حضرت فاطمہؓ نبوّت کے اعلان سے تقریباً پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں۔جب عُمر پندرہ سال ہوئی، تو آپﷺ نے حضرت علی المرتضیؓ سے نکاح کر دیا۔اُن کے بطن سے حضرت علیؓ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تولّدہوئیں۔(1)حضرت حسنؓ (2) حضرت حسینؓ (3) حضرت محسنؓ۔(حضرت محسنؓ کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا)۔صاحب زادیوں کے نام(1) حضرت رقیّہؓ (2) حضرت زینبؓ (3)حضرت اُمّ ِ کلثومؓ ہیں۔حضرت زینبؓ کا نکاح عبداللہ بن جعفرؓ سے ہوا، جن سے ایک بیٹا علیؓ پیدا ہوا۔حضرت اُمّ ِ کلثومؓ کا نکاح حضرت عُمر فاروقؓ سے ہوا اور ایک بیٹا زید پیدا ہوا۔حضرت عُمرؓ کے بعد اُن کا نکاح عون بن جعفرؓ سے ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت

جب آپﷺ کی عُمرِ مبارک چالیس سال ہوئی، تو ظاہری طورپر بھی خلعتِ نبوّت سے نوازا گیا۔ سیرت نگاروں کے مطابق وہ 8 ربیع الاوّل، پیر کا دن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں عبادت کے لیے تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرائیلؑ حاضر ہوئے اور فرمایا’’ اقرأ‘‘ یعنی پڑھیے، تو آپؐ نے فرمایا ’’مَیں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’ حضرت جبرائیلؑ نے مجھے اِتنے زور سے بھینچا کہ تکلیف ہونے لگی۔پھر مجھے چھوڑ دیا اور دوبارہ کہا ’’اقرأ‘‘ مَیں نے پھر وہی جواب دیا۔ اُنہوں نے مجھے پھر پکڑ کے سینے سے بھینچ لیا اور پھر جب چھوڑا، تو سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پڑھیں۔‘‘اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دینا شروع کر دی، لیکن ابھی علانیہ دعوت دینے کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اِس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی لوگوں ہی کو دعوت دی۔

اِسی لیے سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں آپؐ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ ، دوست حضرت ابو بکر صدیقؓ ، چچا زاد حضرت علیؓ اور آپؐ کے غلام حضرت زید بن ثابتؓ تھے۔جب آپؐ نے حضرت ابو بکرؓ کو دعوتِ اسلام دی، تو اُنہوں نے فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کر دی۔ اس کے بعد وہ بھی خفیہ طور پر اسلام کی دعوت دینے لگے۔ اُن کی دعوت پر حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے اسلام قبول کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مرکز’’ دارِ ارقم‘‘ کو بنایا لیا، جو ایک وسیع گھر تھا۔صحابہ کرامؓ یہیں جمع ہوا کرتے۔ تقریباً تین سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

علانیہ دعوت

جب صحابہ کرامؓ کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا،تو اللہ ربّ العزّت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت کا حکم ملا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قبیلوں کے نام لے کر سب کو جمع کیا۔جب سب جمع ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو کا آغاز کیا اور فرمایا’’ اگر مَیں تمھیں خبر دوں کہ ایک لشکر اِس پہاڑی کے پیچھے سے تم پر حملہ آور ہونے کو ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟‘‘ سب نے بیک زبان کہا’’ جی ہاں، کیوں کہ ہم نے آج تک آپﷺ کو جھوٹ بولتے نہیں سُنا۔‘‘اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ اللہ پر ایمان لے آؤ اور باطل عقائد سے باز آؤ، ورنہ تم پر اللہ کا سخت عذاب نازل ہوگا۔‘‘یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی علانیہ دعوت تھی، جس میں آپﷺکے چچا، ابو لہب کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی۔

لوگوں کی مخالفت

جب لوگوں کو پتا چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بُتوں کی مخالفت کر رہے ہیں، تو وہ آپﷺ کے خلاف ہو گئے اور طرح طرح سے پریشان کرنے لگے۔آپﷺ کو شہید تک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ایک مرتبہ ابو جہل نے دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سَر بڑے پتھر سے کچلنا چاہا، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا رُعب طاری ہوا کہ پتھر ہاتھ سے گر گیا۔جب قریش ہر طرح کی اذیّت دے کر بھی رسول اللہﷺکو حق بات سے نہ روک سکے، تو ایک چالاک سردار، عتبہ بن ربیعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لالچ دینے کے لیے بھیجا۔عتبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا’’ بھتیجے! تم حسب، نسب میں بہت بہتر ہو، لیکن تم نے اپنی جماعت میں تفریق ڈال دی اور ان کے معبودوں کو بُرا بھلا کہا۔آج مجھے سچ بتا دو کہ اس سب سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تمھیں مال کی ضرورت ہے، تو مجھے بتاؤ، مَیں تمہارے لیے اِتنا مال جمع کر دوں گا کہ تم ہم سب سے امیر ہو جاؤ گے۔اگر تم شادی کرنا چاہتے ہو، تو عرب کی سب سے خُوب صُورت لڑکی سے تمہاری شادی کر دیں گے۔

اگر سرداری چاہتے ہو، تو ہم آپ کو قریش کا سردار بنا دیں گے۔ اگر چاہو، تو تمھیں بادشاہ بنائیں گے۔ اگر(نعوذ باللہ) تم پر کوئی جنّات وغیرہ کا اثر ہے، تو ہم تمہارے لیے اچھا طبیب تلاش کریں گے۔‘‘جب عتبہ اپنی بات کرچُکا، تو آپﷺ نے اُسے قرآنِ پاک کی چند آیات سُنائیں، جنھیں سُن کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اُس نے واپس آکر قبیلے والوں سے کہا’’ محمد(ﷺ) کے پاس جو کلام ہے، اُس کی عظمت ظاہر ہونے والی ہے۔ میرا تو یہی مشورہ ہے کہ تم محمّد( ﷺ)کو اذیّت دینے سے باز رہو اور کچھ عرصہ انتظار کرو۔ اگر وہ عرب پر غالب آگئے، تو اس میں تمہاری عزّت ہے، کیوں کہ وہ تمہارے قبیلے سے ہیں اور اگر عرب اُن پر غالب آگئے، تو تمہاری اُن سے جان چُھوٹ جائے گی۔‘‘قریش نے عتبہ کی باتیں سُنیں، تو کہنے لگے ’’محمّد(ﷺ) نے اِس پر بھی جادو کر دیا۔‘‘جب قریش کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لانے والوں کو بھی ستانا شروع کر دیا۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ کی والدہ، حضرت سمیہؓ کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔یہ اسلام کی خاطر پہلی شہادت تھی۔

ہجرتِ حبشہ

جب مسلمانوں پر مظالم حد سے بڑھنے لگے اور برداشت جواب دینے لگی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ 12 مرد اور 4 خواتین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، جن میں حضرت عثمانؓ اور اُن کی اہلیہ حضرت رقیہؓ بھی شامل تھے۔حبشہ کے بادشاہ، نجاشی نے اُن کا اکرام کیا اور اُنھیں اپنے مُلک میں رہنے کی اجازت دے دی۔ جب قریش کو اِس بات کا پتا چلا، تو اُنہوں نے عُمر بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو نجاشی کے پاس بھیجا۔ اُنہوں نے نجاشی سے کہا’’ یہ لوگ فسادی ہیں، اِنھیں اپنی حکومت میں رہنے کی اجازت نہ دیں، بلکہ ہمارے حوالے کر دیں۔‘‘ شاہِ حبشہ نے کہا’’ مَیں بلا تحقیق ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر سکتا۔جب تک ان سے پوچھ نہ لوں کہ اُن کا مذہب کیا ہے؟ مَیں کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کروں گا۔‘‘جب نجاشی نے مسلمانوں سے اُن کے مذہب اور عقیدے کے بارے میں پوچھا، تو حضرت جعفر بن ابی طالبؓ آگے بڑھے اور فرمایا’’ اے شاہ! ہم جاہل تھے، بُتوں کی پوجا کرتے، مُردار کھاتے تھے۔ فحش کام، قطع رحمی اور بد خلقی میں مبتلا تھے۔

طاقت وَر، کم زور کو کھا جاتا تھا۔ پھر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہماری طرف ایک رسولؐ بھیجا، جو ہمارے ہی کنبے کا ہے۔ ہم اس کے نسب کی سچائی اور امانت کو بھی جانتے ہیں۔ اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لائیں اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ بُت پرستی چھوڑ دیں، سچ بولیں، عزیز و اقارب کے ساتھ صلۂ رحمی کریں، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اُنھوں نے ہمیں خون بہانے، جھوٹ بولنے اور یتیم کا مال کھانے سے روکا۔ جب ہم نے یہ سب سُنا، تو ہم مسلمان ہو گئے۔‘‘نجاشی نے اسلام کی یہ حقیقت سُنی، تو بے حد متاثر ہوا اور قریش کے قاصدوں کو واپس بھیج دیا۔مسلمان تین مہینے عزّت و اکرام کے ساتھ حبشہ میں رہنے کے بعد واپس مکّہ آگئے۔اُنہی دنوں حضرت عُمرؓ بن خطاب نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اُن کے اسلام میں داخل ہونے سے مسلمانوں کی قوّت میں اضافہ ہوا اور حضرت عُمرؓ کے اسلام لانے کے بعد لوگ علانیہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ نمازیں بیتُ اللہ میں ادا کی جانے لگیں۔

سماجی بائیکاٹ

اب قریش نے طے کیا کہ بنی عبد المطلب اور بنی ہاشم سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے بھتیجے یعنی حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حوالے کر دیں، ورنہ اُن سے لاتعلقی اختیار کر لی جائے۔ بنی عبدالمطلب نے یہ منظور نہ کیا، تو قریش نے ایک حلف نامہ لکھا کہ’’ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے قطع تعلق کر لیا جائے۔اُن سے لین دین اور شادی بیاہ سمیت ہر طرح کے تعلقات ختم کیے جائیں۔‘‘ یہ عہد نامہ لکھ کر بیتُ اللہ میں لٹکا دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم، آپؐ کے تمام رفقاء اور اقربا کو ایک پہاڑ کی گھاٹی میں مقیّد کر دیا گیا۔ ابو لہب کے سِوا تمام بنی عبدالمطلب خواہ مسلمان ہوں یا مشرک، سب وہاں مقیّد رہے۔اس گھاٹی میں آمد و رفت کے راستے بند تھے۔ خوراک کا انتظام نہ تھا، یہاں تک کہ محصورین کو درختوں کے پتّے کھانے پڑے۔

یہ حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ صحابہ کرامؓ کو حبشہ ہجرت کا حکم دیا۔ اب کی بار 83 مرد اور 12 خواتین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاندان سمیت تین سال تک اس گھاٹی میں، جو شعبِ ابی طالب کے نام سے جانی جاتی ہے، محصور رہے۔جب تین سال بعد یہ سوشل بائیکاٹ ختم ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا، ابو طالب کا انتقال ہو گیا۔اس کے بعد تو مشرکین کو گویا موقع مل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ ستانے لگے۔

طائف کا تبلیغی سفر

آپﷺ، حضرت زید بن ثابتؓ کو ساتھ لے کر طائف چلے گئے تاکہ وہاں کے باشندوں تک حق کی دعوت پہنچا سکیں، لیکن اہلِ طائف میں سے ایک شخص بھی مسلمان نہ ہوا، بلکہ اُنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکالیف اور اذیّتیں پہنچائیں۔ محلّے کے بچّوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا، وہ آپﷺ پر پتھر برساتے اور بُرا بھلا کہتے، حتیٰ کہ اُنہوں نے اِتنی سنگ باری کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ مبارک لہولہان ہو گئے۔ حضرت زیدؓ آپﷺ کے سامنے ڈھال بنے کھڑے رہے، یہاں تک کہ اُن کا سَر زخمی ہو گیا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ طائف کے لیے بددُعا نہیں کی۔ (جاری ہے)