مجھے فخر ہے کہ میں شہید بیٹے کی ماں ہوں

September 04, 2020

تحریر : طاہرہ نسیم

(والدہ ، میجر جہاں زیب عدنان شہید، ستارہ بسالت)

’’1965کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں موثر بناتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور اس مقصد کے لیے بےدریغ جان و مال کے نذرانے پیش کیے اور آج جب پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سامنا ہے تو بھی افواج پاکستان کے جانباز جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن وطن عزیز کے دفاع کے لیے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

قوموں کی زندگی میں کچھ دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے باعث ان کا تشخص ایک غیور اور جرات مند قوم کا ہوتا ہے۔ آزادی کے بعدجہاں پاکستان کو مختلف چلنجز کا سامنا تھا وہیں دفاع کا مسئلہ بھی درپیش تھا لیکن پاکستانی قوم نے حوصلے اور بھرپور جذبے کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا اور کامیابی حاصل کی ۔کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی۔

دفاع جتنا مضبوط ہوتاہے قوم بھی اتنی ہی شاندار اور مضبوط ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی پاکستان کے لئے بڑا چیلنج رہی ہے لیکن ہمارے بہادر جوان کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔یہ ایسے جوان تھے جن کے پیچھے دلیر مائوں کا ہاتھ تھا ۔جنہیںبچپن سے ہی بچوں کو سکھانا پڑتا ہے کہ وطن کی سلامتی میں ہماری سلامتی ہے۔ وطن کی بقا سے ہمارا وجود ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنی ہی مائوں کے بہادر بیٹوں نے جام شہادت نوش کیا۔ میرا بیٹا 18فروری 2014کو پشاور میں شہید ہوا، اس نے سینے پر 7 گولیاں کھائیں ،اسپیشل مشن پر تھا۔ اس کی شہادت کے بعد ضرب عضب شروع ہوا۔وہ دن ہمارے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔شہادت سے ایک دن پہلے اس کا فون آیا اور کہامیرے اور میرے جوانوں کے لئے دعا کریں‘‘ دوسرے ہی دن اطلاع ملی کہ آپ کا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔

اس نے سات دہشت گردوںکو جہنم واصل کیا، یہ ایک بہت بڑا آپریشن تھا۔ 30سال کی عمر میں جہاںزیب نے اتنا بڑا مقام حاصل کر لیا ۔جب لوگ مجھے خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتاہے ۔دل میں خواہش ہوتی ہے کہ اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں انہیں بھی وطن پر قربان کر دیتی، شہید کی بیوی شوہر کی شہادت پر فخر کرتی ہے، بیٹی شہید باپ کو اپنا غرور سمجھتی ہے اور بیٹے شہید باپ کی طرح خود کو وطن پر قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتےہیں۔

میرے جیسی بہت سی مائیں وطن عزیز کے لئے اپنے بیٹوں کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔جہاں ایسی مائیں ،بیویاں، بیٹیاں اور بیٹے ہوں ، ایسے خاندان ہوں وہاں ملک پر کوئی میلی آنکھ کیسے ڈال سکتا ہے اور اس کو کوئی نقصان کیسے پہنچا جاسکتا ہے۔ جہاں ایسا حوصلہ ،ایسا جذبہ ہو وہاں دشمن ہمیشہ شکست کھاتا ہے۔

شہید کی ماںہونے کا رتبہ بہت بڑا تھا امتحان بھی بہت بڑا تھا ۔ مجھے اس کا بچپن یاد آرہا ہے جب چھوٹی عمر سے ہی اسے پاکستان سے عشق تھا اور ہر لمحہ وہ کسی نہ کسی کی خدمت میں لگا رہتا تھا ۔ وطن کا ہر شہری اس کا بھائی تھا ۔ جب ماؤں کے جوان بچے شہید ہوتےہیں تویہ دکھ صرف ماںہی جانتی ہیں لیکن مجھے فخر ہے کہ میں شہید بیٹےکی ماں ہوں ۔دعا کرتی ہوں کہ اللہ ایسے بیٹے سب کو دے ۔میرے بیٹے کی خواہش تھی کہ اُسے شہید کا رتبہ ملے ۔للہ نے اس کی سن لی ۔میرا بہت فرما نبردار ،محبت کرنے والا اور خیال رکھنےوالا بیٹاتھا۔کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن میرے الفاظ بھی میرے جذبات کی عکاسی نہیں کر سکتے۔

مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ میں ایک شہید کی ماں ہوں میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے۔بس یہی کہوں گی کہ یہ شہدا ہمارا سرمایہ ہیں، یہ شہدا ہمیں وطن عزیز پر تن من دھن قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا فرماتے ہیں، یہ شہدا ہماری عزتوں کے محافظ ہیں، یہ شہدا ہمارے ضعیف والدین کے بڑھاپے کا سہارا ہیں، یہ شہدا ہماری بہنوں کی عصمتوں کے نگران ہیں، یہ شہدا ہمارے بچوں کے مستقبل کی ضمانت ہیں، پاکستان دنیا کی واحد سرزمین ہے جس کی حفاظت کے لئے لاکھوں شہدا نے اپنی جانوں کا نذرانہ، خواتین نے اپنی عصمتوں اور بچوں نے اپنے بچپن کا نذرانہ پیش کیا۔ جب تک وطن پر بیٹوں کو نثار کرنے والی مائیں موجود ہیں ،اس وطن کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔‘‘