آسماں کیوں نہ گر گیا، زمین کیوں نہ پھٹ گئی

September 04, 2020

’’ڈاکٹر پلیز! پہلے امّاں کو دیکھ لیں‘‘۔ میںنے سر اُٹھا کر دیکھا۔ اور اس سے پوچھا ’’مریض کہاں ہے آپ کا‘‘؟ جی وہ باہر ہیں۔ سسٹر کہہ رہی ہے آپ کا نمبر نہیں ہے، مگر آپ دیکھ لیں۔ امّاں گر گئی ہیں۔ میں نے کہا آپ لے آئیے انہیں۔ چند لمحے بعد میرے سامنے 70-75 سالہ انتہائی کمزور خاتون تھیں ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ کیا ہوا امّاں کو؟ ڈاکٹر یہ ہماری کرایہ دار ہیں۔ کوئی نہیں ہے ان کے ساتھ امّاں کو ٹیبل پر لٹاتے ہوئے میںنے پوچھا۔ جی نہیں یہ اور بابا ہی رہتے ہیں۔ امّاں آپ کیسے گر گئیں پٹی کرتے ہوئے میں نے پوچھا۔ پوپلے منہ سے بولیں شوہر کے لیے روٹی پکا رہی تھی چکر آ گیا۔

کیا بچّے نہیں ہیں آپ کے۔ میں نے پوچھا تو فوراً بولیں ہیں ، ماشاء اللہ چار بچّے ہیں۔ تو پھر آپ اکیلے کیوں؟ کیا باہر رہتے ہیں۔ نہیں صرف ایک لڑکا امریکا میں رہتا ہے۔ دو بیٹیاں لاہور میں اور ایک بیٹا اسی شہر میں رہتا ہے۔ آپ کے ساتھ کیوں نہیں؟ چھوٹی بہو کو ہمارے ساتھ رہنا پسند نہیں ہے۔ نہ ہی ملنا جلنا۔ شوہر ریٹائرڈ گورنمنٹ ملازم ہیں۔ بس ہم دونوں رہتے ہیں۔ کوئی ملازم؟ نہیں پنشن میں ہم دونوں کےکھانے پینے کے علاوہ دوائیوں وغیرہ کے بعد ملازم نہیں رکھ سکتے۔اماں کی بیپتاسن کر میں کئی دنوں تک سوچتی رہی کہ اس ضعیفی میں امّاں کیسے گھر کا کام کرتی ہیں، کیسے گزارہ ہوتا ہے۔

قریباً ایک ماہ بعد وہ مالک مکان خاتون اپنے بچّے کو دکھانے آئی تو میں نے امّاں کا پوچھا تو کہا کورونا کی وباء سے پہلے اچانک بابا کا انتقال ہوگیا۔ امّاں کے بتائے ہوئے نمبروں پر بچوں کو فون کئے کسی سے رابطہ نہ ہو سکا ۔ملنے ان سے طویل عرصے سے کوئی آیا ہی نہیں تھا۔ ہم نے کفن دفن کا انتظام کر دیا اور دس دن بعد امّاں بھی چل بسیں ۔ کسی بچّے سے کوئی رابطہ نہ ہوا تو محلّے والوں کے مشورے سے ان کی بھی تدفین کر دی گئی۔ ساری زندگی ماں باپ بچوں کو کیسے پال پوس کر بڑا کرتے ہیں… کیا اس دِن کے لئے؟۔ اتنےبے خبر ہو سکتے ہیں بچّے اپنے والدین سے، یہی سوچ مجھ پر طاری تھی۔ باہر کے ملکوں کی طرح ہمارے ہاں بھی اولڈ ہومز ہونے چاہئیں۔ کم از کم بڑھاپے میں کوئی تو سہارا ہو۔ کوئی سنبھالنے والا ہو۔

اولڈ ہومز کے نام پر ہمارے معاشرے میں عجیب سے رویئے دیکھے جاتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھلا ان اولڈ ہومز کی کیا ضرورت ہے یہ تو ان مغربی معاشروں کی ضرورت ہیں جہاں بچّے 16-17 سال کی عمر میں گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن والدین اور بچّوں میں صرف رشتہ ہوتا ہے۔ محبت نہیں۔ وہاں والدین اولڈ ہومز میں داخل ہو کر یتیموں والی زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی دِل اس بات کو تسلیم کرتا ہے اور کبھی انکار کر دیتا ہے۔ ان ہی دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ دیکھی۔ سوچتی ہوں آسماں کیوں نہ گر گیا۔ زمین کیوں نہ پھٹ گئی۔ ایک بیٹا اپنی ماں کے قدموں تلے جنت تلاش کرنے کی بجائے اپنی ماں پر تشدد کر رہا تھا۔ اس پر ہاتھ اُٹھا رہا تھا۔ پر کیسے ممکن ہے یہ اس کا بیٹا نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسے ہی کسی نے سوشل میڈیا پر خبر لگا دی ہوگی۔

مگر دُوسرے دن ہی تصدیق ہوگئی کہ وہ بدبخت بیٹا اس بدنصیب عورت کا ہی تھا۔ پر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ دِل بے چین، پریشان اور اُداس ہوگیا۔ ذراسوچیں ایک ماں نے کیا بیٹے کو پال پوس کر اس لیے جوان کیا تھا کہ وہ شادی کے بعد بیوی کے کہنے پر اپنی ماں پر ہاتھ اُٹھا ئے۔ ہم تو بس ایک ہی بات جانتے ہیں کہ جب لفظ ’’ماں‘‘ آ جائے تو پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اور پوری کائنات ماں بن جاتی ہے۔ ہر فرق سے مبرا وہ خس و خاشاک پر بسنے والی ماں ہو یا محلات میں رہنے والی یہ فرق بھی ختم ہو جاتا ہے کہ وہ ماں انسان ہے یا انسانوں کے علاوہ کسی اور مخلوق میں سے ہے۔ ماں صرف ماں ہوتی ہے۔ جس کے قدموں تلے جنت ہے جنت کی بے توقیری ہو سکتی ہے بھلا؟ کہیں کچھ غلط ضرور ہوا ہے اور ہو رہا ہے یہ خبربھی گزشتہ دنوں کی ہی ہیں کہ بیوہ ضعیف خاتون کو 3 بیٹوں نے بیویوں کے کہنے پر مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا۔

گزشتہ ماہ کی ایک اور خبر ہے کہ نیوی آفیسر نے 70 سالہ ضعیف ماں کو گھریلو تنازع پر کلہاڑی کے وار کر کے قتل کر دیا۔ واقعات تو نجانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے ہیں اور ہو رہے ہیں بس جو خبر سوشل میڈیا تک پہنچ جائے وہ سب تک پہنچ جاتی ہے۔ سب دُکھی ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کا ضمیر جاگ اُٹھتا ہے۔ ماں کی عظمت اور محبت سے متعلق میسجز کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ٹی وی پروگرام میں ذکر اور پھر خاموشی۔

انسان کی ہیئت، ساخت اور بناوٹ میں محبت، نفرت، غصہ،انتقام، حسد،رشک، رقابت،عدم تحفظ، اُمید مایوسی اور بے وفائی سب کچھ شامل ہے، مگر والدین سے سلوک، ماحول، معاشرہ اور تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ ریاستِ مدینہ ثانی میں ایسے واقعات کا بڑھ جانا انتہائی تشویش کا مقام ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ ہمارا معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔ معاشرے مستقل تبدیل ہوتے رہتے ہیں ،مگر یہ جو نئی تبدیلی ہے وہ ٹوٹ پھوٹ کا الگ عمل ہے۔

جس کے نتیجے میں معاشرہ اپنا توازن کھو رہا ہے۔ انفرادی زندگیاں ٹوٹتی اور بکھرتی جا رہی ہیں۔ معاشی اور سماجی مسائل دِن بہ دِن بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ ذہنی، جسمانی اور رُوحانی امراض کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ سوچیں سمجھیں کیا ہم اس طرح کی خبریں سن کر اور دیکھ کر دُکھی دِل اور نمناک آنکھوں کے ساتھ استغفراللہ کہہ کر یا پھر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر ان واقعات کو قیامت کی نشانیاں بتا کر اپنے معاملات میں مصروف ہو جائیں گے۔ نہیں یہ ہی وقت تو سوچنے کا ہے۔

ہمارے معاشرے میں اس کا اطلاق کتنا ہے ہاں بہت سے بچّے اب بھی اتنے فرمانبردار اور نیک ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ماں باپ کو اس قدر عزت ، احترام اور آرام کے ساتھ رکھتے ہیں کہ دیکھ کر رشک آتا ہے ۔ انہوں نے دنیا میں جنت کمالی ہے ، اس کے لیے بہترین تربیت اور انسان سازی کی ضرورت ہوتی ہے ،جس کی کمی میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے ۔نوجوانوں کا ایک تعلیم یافتہ غیرتربیت یافتہ ہجوم تیار ہو رہا ہے، جسے صرف اچھے گریڈ اور اچھی نوکری کی ضرورت ہے۔ رشتوں کا احترام شاید ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

انسانی رشتے فولاد سے زیادہ مضبوط اور شیشے سے زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ یعنی نہایت آسانی سے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ دُنیا میں کوئی چیز پائیدار نہیں۔ یہ زندگی کی فطرت اور یہ ہی زندگی کا راز ہے۔ طلوع اور غروب ہوتا سورج، کھلتے اور مرجھاتے پُھول، درختوں سے گرتے پتّے فطرت اور قدرت کے ان گنت مظاہر ہمیں یہ راز سمجھاتے ہیں کہ دُنیا میں کسی شے کو دوام نہیں۔ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ خود انسان بھی وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے حتیٰ کہ جسمانی اعضا اور چہرے کے نقوش۔ ہر بچّے کو جوان اور جوان کو بوڑھا ہونا ہے۔ وقت اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھا۔ کب لڑکپن جوانی میں تبدیل ہوا۔ کب اُدھیڑ عمری سے بڑھاپا شروع ہوا اور کب زندگی کی شام ڈھلنے لگی۔ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں۔

وقت اور سمجھداری کا تقاضا ہے کہ ہم اس کے لئے خود کو تیار کریں۔ اپنے بزرگوں اور معاشرے کے دیگر افراد کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں۔ ان عوامل پر غور کریں جن کی وجہ سے معمر افراد کی زندگیاں ان کے اپنے لئے بوجھ اور معاشرے کے لئے نمونۂ عبرت بن جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عموماً والدین بچوں کے لئے زندہ رہتے ہیں اور ان ہی سے زندہ رہتے ہیں۔ ان ہی سے محبت کرتے ہیں اور ان ہی کی آسائشوں کی خاطر خود کو بے آرام کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم، صحت، آرام اورخوشیوں کے حصول کے ساتھ ان کے گھر بسانے کی کوششوں میں زندگی کا سنہرا دورانیہ گزار دیتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جب معمر افراد کو طبّی اور صحت کے مسائل کی وجہ سے روزمرہ کے معمولات کےلیے دُوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ،مگر اس وقت ان کے آس پاس کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی سہارا دینے والا نہیں ہوتا۔ عمر رسیدہ افراد تنہائی کے بوجھ کو برداشت نہیں کر پاتے۔ زندگی کے تجربات کو رُوح میں اُتار لیتے تلخیوں کو زندہ رکھتے اور سوچ کو منفی کر لیتے ہیں چند سالوں میں ہی مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچے یقیناً ان سے پیار کرتے ہوں گے، مگر اپنی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کےلیے وہ سارا دن مصروف رہتے یا پھر ملک سے باہر اپنے مستقبل کو سنوارنے اور تابناک بنانے میں لگے ہوتے ہیں جب کہ والدین مجبوری اور لاچاری کی تصویر بنے ہوتے ہیں ان کی مجبوری، محرومی اور کسک کو بچے کیوں محسوس نہیں کرتے؟ سوچیں وہ ماں باپ جو بچوں کےلیے ٹھنڈی چھائوں ہوتے ہیں ان کی زندگی بڑھاپے میں تپتا صحرا کیوں بن جاتی ہے؟ عام لوگوں کو بھی معاشرے کے ضعیف افراد کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق سے متعلق آگہی کی ضرورت ہے بزرگوں کا وجود ہرگز بھی اس لئے نہیں کہ ترقی کے عمل میں پیچھے رہ جانے کے باعث انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے یا اولڈ ہومز میں داخل کروا دیا جائے۔

معمر افراد کو زندگی گزارنے کےلیے مناسب توجہ اور نگہداشت کے ساتھ صحت، غذا، رہائش اور ذاتی اخراجات کی مد میں روپے پیسے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں محبت اور عزت بھی چاہئے۔ آج کل کچھ بچّے والدین کو جھڑکنے اور بلند آواز سے بات کرنے میں بالکل جھجک محسوس نہیں کرتے بلکہ اب تو ان پر ہاتھ اُٹھانے، تشدد کرنے اور قتل جیسی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں، حیاتی ان پر عذاب بن کر گزر رہی ہے ہر ایک خواہش ان کی آنکھوں کے سامنے مر رہی ہے بڑھاپا ایک حقیقت۔ اور یقیناً ہم ایک بہتر بڑھاپا چاہیں گے۔

اس کے لئے ہم سب کو خصوصاً خواتین کو زندگی کے درمیانی سالوں میں ہی اپنے آپ کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیارکر لینا چاہئے، جس کے لئے صرف تھوڑی سی منصوبہ بندی اور قوتِ ارادی کی ضرورت ہے۔ ہم زندگی کے کسی بھی دور میں ہوں، سب سے بنیادی چیز صحت ہے ،کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔پیارےبچو!والدین کی قدر کریں ۔اپنی جنت اپنے ہاتھوں نہ کھوئیں ۔