اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بےثغور (قسط نمبر4)

September 13, 2020

ہوم گرینیڈا، زمین سے چھت تک مکمل طور پر سیمنٹ، سریے اور فائبر گلاس کی چھتوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ کہیں کوئی چھوٹی موٹی سی موری بھی نہ تھی کہ بندہ جھانک کر ہی دیکھ لے کہ مہروماہ کس حال میں ہیں۔ اپنی زبان میں کہوں، تو ساری رات پرنالے بہنے والی بات تھی۔جب جب رات کو آنکھ کُھلی، اِس اُندلس کی دُلہن کا رونا دھونا ہی سُنائی دیا۔ تیار ہوئے، ناشتے کا اعلان ہوا کہ الحمرا کے ٹکٹ کے لیے قطاروں میں لگنے کے لیے بہرحال توانائی کی ضرورت تھی۔ باہر نکلے، شُکراً شُکراً کہا کہ آسمان کی صورت بڑی سجیلی سی تھی۔ نکّڑ پر پہنچے، تو اِس اجنبی دیس کے ماحول پر بکھرے سحر نے قدموں کو روک سا دیا۔

پارک کے درختوں کا بانکپن اور طلائی کرنوں کا عمارتوں اور درختوں کی چوٹیوں کو سنہرے رنگ میں رنگے دیکھنا، دل فریب تھا۔ ناشتا باہر درختوں کی چھائوں میں اورنج جوس اور زائلو فون پر ایک مانگنے والے لڑکے کا گیت سُنتے ہوئے کیا۔اللہ رب العزت کیسا مسبب الاسباب ہے۔ ایک موٹے سے بندے کی طرف سے ایک پلیٹ میں Complimentry piece آیا۔ واہ مولا واہ، تیرے رنگ، تُو ہی رازق تُو ہی مالک۔ دوپہر کے لیے پردیسیوں کو من و سلویٰ کا تحفہ۔ فوراً ٹشوپیپر میں لپیٹ کر بیگ میں ڈال لیا کہ لنچ کی ڈنڈی مارنی ہے۔ جب ناشتے کے بِل کی ادائی کے لیے اندر گئے، تو سیما اپنا ٹکٹ والا پٹارہ یہاں بھی کھولے بیٹھی تھی۔

لڑکے نے قریبی بینک جانے اور وہاں سے ٹکٹ ملنے کی نوید دی۔ لیجیے، مار دھاڑ کرتے وہاں گئے۔ ہم تو اپنے ہاں کے رونق میلے والی آوت جاوت اور رنگ رنگیلے سے بینک ماحول کے عادی تھے۔ یہاں تو اُلّو بولتے تھے۔ ہونّق سا ایک آدمی بیٹھا نظر آیا، جس نے ہماری درخواست سُنتے ہی پھٹکار کے سے انداز میں کریڈٹ کارڈ کی رَٹ لگائی، تو تھوڑی دیر مغز کھپانے کے بعد باہر نکل آئے اور خود کلامی سی کی۔ ’’اپنی ٹانگوں پر بھروسا کرو۔ چلو سیدھی طرح لائن میں جاکر لگو۔ اتنا ڈھیرسارا کھایا پیا کِس لیے ہے، اسی کشٹ کو کاٹنے کے لیے ناں۔‘‘

اِدھر اُدھر بسوں اور میٹرو کے بجائے ہم نے سیدھے سیدھے ٹیکسی کا سوچا کہ اِس مختصر سے عرصے میں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ اسپین کے ٹیکسی ڈرائیور ڈنڈی نہیں مارتے۔ کرایہ بھی معقول ہوتا ہے اور تین افراد پر تقسیم ہوکر بہت سستا پڑجاتا ہے۔ گاڑی خوب صورت، کشادہ اور کہیں تنگ تنگ گلیوں سے گزرتی شہر کی پشت پر سائبانوں کی طرح کھڑی سیرا نویدا پہاڑیوں کی جھلک دکھاتی ہمیں الحمرا کے گیٹ پر لے آئی۔ پہلے چند لمحے تو جذباتی کیفیت میں گزرگئے۔’’ہم اور غرناطہ، ارے ہم اور الحمرا۔ زمانوں کاخواب، مولا تیرا شُکر، مولا تیرا احسان۔‘‘ پتھروں سے بنے راستے پر چلتے ہوئے دو تین بار لڑکھڑائی۔ آگے بڑھے، تو دیوار سے ٹیک لگائے شلوار قمیص میں ملبوس ایک گوری سی خاتون کو دیکھا۔

البیازین میں مراکو فیملی کے ساتھ

پتا چلا کہ پاکستانی ہے اور پشاور سے تعلق ہے۔ ہم نے الحمرا کے ٹکٹ نہیں لیے تھے۔ یہاں آئے، تو معلوم ہوا کہ ٹکٹ کے لیے قطار کا سرے سے کوئی سلسلہ ہی نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کی پردھانی ہے۔ ایک ترکیب ہوٹل والوں کی خوشامد ضرور ہے کہ وہ اگر ترس کھا کر دگنی قیمت پر دے دیں۔ پتا چلا اُس کا شوہر بھی اُسے یہاں بٹھا کر ہوٹل والوں کے ترلے منّتیں کرنے گیا ہے۔’’لو بھئی، کرلو گل‘‘میں نے سیما اور مہرالنساء کی طرف دیکھا۔ بھاری بھر کم ناشتا اور لائن میں لگنا سب حرام ہوا۔ مگر سیما نے کہا۔ ’’آگے تو چلو، خود پتا کرتے ہیں۔‘‘ اب جو دیکھا، تو آنکھیں پَھٹیں۔ پورا میدان بھانت بھانت کے لوگوں اور بولیوں سے بَھرا پڑا تھا اور ٹکٹ آفس والے اپنی ذمّے داری مشینوں کو سونپ کر بڑے مزے سے بیٹھے تھے۔ سیما بے حد اُداس تھی کہ غرناطہ آکر الحمرا دیکھے بغیر چلے جانا تو کچھ ایسا ہی ہے، جیسے بندہ آگرہ جائے اور تاج محل نہ دیکھ سکے۔

ہم سیما کو بہلا پُھسلا کر کافی شاپ کے سامنے بنی سنگی چوڑی بینچ پر لے آئے اور کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے ممکنہ امکانات پر سنجیدگی سے بات کی۔ ہوٹل ہی آخری اُمید تھی۔ ناکامی کی صورت میں قیام بڑھایا جائے۔ آخری جملے کی تان اسی پر ٹوٹنی تھی ناں کہ ’’بھئی، اللہ پر بھروسا رکھو۔‘‘ اُٹھو، چلو سامنے دکان کا دیدار کریں اور باہر نکلیں۔ ’’غرناطہ کیا؟‘‘ یہاں اسپین کے شہروں میں چھپنے والے چھوٹے اور بڑے سوینیئرز، کتابیں موجود تھیں۔ ڈی وی ڈی اور کیسٹس سب ہی کچھ تھا۔ واشنگٹن ارونگ Washington Irving کی Tales of the Alhambra اٹھا کر سرسری طور پر دیکھی، قیمت پوچھی اور پھر یہ سوچ کر کہ ابھی تو یہاں آنا ہی ہے۔ خریدلیںگے، باہر آگئی۔ سیما کا کہنا تھا کہ اِس وقت بارہ بج رہے ہیں۔ ہمیں واپس جاکر ٹکٹوں کا پتا کرنا چاہیے تاکہ اس کے مطابق اگلا لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔ مجھے غصّہ آیا۔ ’’اب اِن آنیوں جانیوں کے چکّروں ہی میں رہیں گے۔ ٹکٹ لازماً آج کے تو نہیں، کل کے ہوں گے۔ شام کو جائیں گے، تو دیکھ لیں گے۔‘‘

مَیں غرناطہ کی اُس مسجد کو دیکھنے کی متمنّی تھی، جو میری یادداشتوں میں ایک پرلُطف اور خُوب صُورت یاد کی طرح محفوظ تھی۔ وہ آٹھ جولائی 2003ء کا حبس آلود سا دن تھا۔ الجریزہ ٹیلی ویژن لائیو خبرنشر کررہا تھا۔ غرناطہ کی اِس نئی تعمیر شدہ مسجد کے مؤ ذن کا مینار پر چڑھنا اور نصف میلینیم کے طویل عرصے بعد ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا کا گونجنا کیسا ایمان افروز واقعہ تھا۔ اسے بنانے کے لیے کتنا انتظارکرنا پڑا، اس کی تفصیل بڑی طویل ہے۔ درخواست گزاری کی اس مہم میں نہ صرف مسجد کا مطالبہ تھا، بلکہ اس کا مرکزی مطالبہ سیان نکولس چرچ کی واپسی تھی، جوصدیوں پہلے ہسپانیہ کے موروں کی مسجد تھی، جسے سقوطِ غرناطہ کے بعد چرچ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

پندرہ سولہ ہزار ہسپانوی مسلمان، جن کے اندر عزمِ صمیم کی لَو اُنہیں سرگرم رکھتی تھی، اُن کی مسلسل جدوجہد اور کوششوں کے لیے تعریف و تحسین کے الفاظ بہت معمولی ہیں۔ دوسری طرف حکومتی سطح پر ارکان کی مخالفت بہت شدید تھی۔تاہم، ایک وقت ایسا آیا کہ سیاسی طور پر مسلسل بلند ہونے والی اِس آواز کو دبانا مشکل ہوگیا۔ یواے ای، شارجہ کے حکمران نے اِس کے کم و بیش سارے اخراجات اٹھائے۔ نصف صدی سے بھی زیادہ کی کاوش کا یہ حسین تحفہ اس اپنے طرز کے منفرد اکلوتے مینار کی چھوٹی سی جگہ پر جب مؤذن نے اللہ اکبر کی صدالگائی، تو غرناطہ کے پہاڑوں، میدانوں اور اس کی فضائوں میں گونجنے والی آواز سے آنسو جاری ہوگئے۔

یہ خزاں کے دن تھے، جب غرناطہ آنا نصیب ہوا تھا۔ ہم اس وقت ہوپ آن اور ہوپ آف کے بجائے ٹیکسی میں سفر کررہے تھے۔ اردگرد کا ماحول انتہائی دل کش تھا، پتّوں نے کتنے رنگوں کے پیرہن پہن لیے تھے۔ چناروں کے قدیمی درخت، سَرو اور شاہ بلوط کے بلندوبالا پیڑ دونوں جانب کی خُوب صُورتی کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں جانے کہاں کہاں اُڑائے پِھرتے تھے۔ ماحول ایک خوش کُن اور لطیف سے سنّاٹے میں ڈوبا ہوا متوجّہ کرتا تھا۔ کہیں کچّا راستہ باغات یا کسی جنگل میں اُتررہا تھا۔ ایک جوڑا، ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے گھاٹی میں اُترتا نظرآیا۔

فضا میں ایک مانوس سی خوشبو تیر رہی تھی، جس میں گہری گہری سانس لینا اچھا لگ رہا تھا۔ پرندوں کے غول، نیلے آسمان کی وسعتوں میں اُڑتے پھرتے منظر کے حُسن میں اضافہ کررہے تھے۔ نالیوں میں بہتا پانی سنگ ریزوں سے ٹکراتا خاموشی سے بہتا چلا جارہا تھا۔ دفعتاً ایک ایسا منظر ہماری بصارتوں سے ٹکرایا کہ میں نے فی الفور ٹیکسی ڈرائیورکو ٹیکسی روکنے کو کہا۔ سامنے موڑ تھا اور نیچے غرناطہ بکھرا ہوا تھا۔ اتنا دل موہ لینے والا نظارہ۔ ٹیکسی رُکتے ہی خُوب جی بھر کے تصویریں بنائیں۔ کچھ آگے جاکر ایک جانب مُڑتے ہوئے ڈرائیور نے بتایا، ’’Sacromonte اس طرف ہے اور Al-Baicin اِس سے ذرا پَرے۔‘‘ بس دونوں جگہوں پر طائرانہ سی نگاہ ڈالنے والی ہی بات تھی۔ دونوں جگہوں کے بارے میں اب تک صرف پڑھا ہی تھا کہ البیازین دراصل قدیم عرب بستی تھی اور یہاں عرب مسلمان آباد تھے۔

یہ بستی عرب تہذیب و ثقافت کا گڑھ تھی۔ مگر یہ Sacromonte کون ہیں؟جب کتاب کھولی، تو معلوم ہوا کہ وادی Valparaiso عین الحمرا کے سامنے واقع ہے۔ دریائے دارو (Darro) کے دونوں کناروں پر آباد یہ بستی، غرناطہ میں اُس وقت آباد ہوئی، جب عیسائیوں نے یہ علاقے مسلمانوں سے چھین لیے تھے۔ اسے بالعموم جپسی کوارٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کوارٹرز میں رہنے والوں کے بارے میں روایت ہے کہ یہ پہلے غاروں میں رہا کرتے تھے اور وقت کے ساتھ معاشرت کی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ غار بعدازاں کوارٹرز میں تبدیل ہوگئے۔

سولہویں صدی میں سیاہ فام، خانہ بدوشوں کی ایک معقول تعداد الحمرا کی مخالف سمت کے مختلف پہاڑوں میں آباد ہوتی چلی گئی۔ یہ بڑے آرٹسٹک لوگ تھے، جنہوں نے رقص، پینٹنگ اور کھانوں میں نئے رنگ، نئے انداز اور نئے ذائقے روشناس کروائے۔ آج یہ قوم ایک حسین اور تابندہ روایت کی حامل ہے، جو سیّاحوں کے لیے حد درجہ تفریح کا باعث بنی ہوئی ہے۔ غرناطہ کی پہاڑیوں پر رات ہوتے ہی جپسیوں اور خانہ بدوشوں کی وہ غاریں جھلملا اٹھتی ہیں، جو کبھی اُن کی رہائش گاہیں تھیں اور اب آمدنی کے ذرائع ہیں۔اِن غاروں میں عجائب گھر بنا کر تاریخی اور مقدس اشیاء محفوظ کی گئی ہیں۔ ڈرائیور کی مہربانی کہ وہ ہمیں کشادہ گلیوں سے گزارتا، قدیم مورش تہذیب کی نمائندہ مسجد کے عین سامنے لے آیا تھا،جو زمانوں سے ہمارے خوابوں میں بسی تھی۔

اُس وقت دن کا ایک بج رہا تھا۔ سیاہ آہنی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ لبوں پر دعائیں تھیں۔ گھوم پھرکر جائزہ لینے کے بعد درختوں سے گِھرے خُوب صُورت فوارے سے آگے دیوار کے ساتھ جاکھڑے ہوئے۔ اُسی لمحے اذان کی آواز گونجی، تو وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ مسجد کے وضوخانے سمیت اِرد گرد کی تمام تر بیرونی تزئین و آرائش میںنیلا سنگِ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔ وضو کے بعد اندر داخل ہوئے، تو ایک رُوح پرور منظر ہمارا منتظر تھا۔ حددرجہ خُوب صُورت اور پُرکشش محراب و منبر اپنی نوعیت میں منفرد لگے۔ یہاں گہری عبودیت کے ساتھ نماز اداکرنے کے بعد فوارے والے حصّے میں چلے گئے، جہاں دھوپ میں بیٹھ کر نیلے آسمان کا پُرہیبت پھیلاؤ، اِرد گرد ہریالی کا حُسن، عمارتوں کے چہروں مُہروں پر سجی سفیدی، راستوں کا ٹیڑھا پن سب دل لُبھاتا تھا۔

قریب ہی واقع، پلازا سان نکولس کے کشادہ ٹیرس پر بیٹھ کر موروں کے اِس شاہ کار محل کی برجیوں، میناروں کو چمکتے سونے جیسی دھوپ میں دیکھنا بہت بھلا محسوس ہوا۔ اوپر والے کی احسان مندی تو ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ بھلا جو جگہ بل کلنٹن کی یادوں میں کھلبلی مچاتی رہی، اوروہ امریکا کا صدر بن جانے کے بعد بھی دیکھنے کے لیے آیا کہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں یہاں آیا اور بہت متاثر ہوا تھا، ہمیں بھی اچھی لگنی چاہیے تھی۔ اب سچّی بات ہے ہمیںبھی اچھی ضرور لگی، مگر شاعرانہ تخیّل کا سہارا لوں، تو کہنا پڑے گا کہ سارا منظر کسی شاہ کار پینٹنگ کی طرح لگتا تھا کہ جسے دیکھتے جائو، مگر دل نہ بھرے۔ حسین اور دل موہ لینے والا تو سب ہی کچھ تھا، مگر پس منظر میں جو دُکھ اور کرب تھا، اس کا احساس تو اِس دل ہی کو تھا کہ چرچ تو پہلے مسجد تھی، جہاں کبھی سجدہ کیا جاتا تھا اور درختوں سے سجا یہ کشادہ سا پلازا کبھی Alcazaba Kadima کا قلعہ تھا، جس کا صرف ٹوٹا پُھوٹا نشان ہی رہ گیا ہے، باقی سب صفایا ہوگیا۔

دراصلAlcazabaکے ساتھ بھی تو بڑی تلخ سی یاد وابستہ ہے کہ جب غرناطہ کا سقوط ہوا، تو پہلا کام تو گھنٹی کا نصب کرنا تھا، جو رومن کیتھولک عقیدے کے مطابق اُن کے ایمان کا حصّہ ہے۔ ’’لاویلا‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ 2جنوری(1492ء)گھنٹی کے بجنے اور غرناطہ واپس لینے کے دن کے طور ہی پر منایا جاتا ہے۔

میری تو خواہش تھی کہ کچھ دیر البیازین کے گلی کوچوں میں بھی اُتر کر گھوما پھرا جائے۔ جتنا دیکھ سکتے ہیں، دیکھ لیں۔ ہوسکے تو یہیں کہیںکھانا وانا بھی کھالیں، مگر سیما مُصر تھی کہ ’’چار بج رہے ہیں، واپس چلو۔ کھانا کہیں اور کھالیتے ہیں۔‘‘ مہرالنساء نے رائے دی، ’’وہیں ہم سائے والے ریسٹورنٹ ہی میں کھائیں گے۔‘‘ اب جب ایک بندہ ایسی بے تابی و شتابی پر اُتر آئے، تو سرِتسلیم خم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ بھاگم بھاگ جب ہوم گرینیڈا میں داخل ہوئے، تو دفتر میں نکولس اور مسٹر سیلوا ڈور کے بجائے دو نئے چہرے نظر آئے۔ ’’کہاں ہیں وہ دونوں؟‘‘ انداز کچھ ایسا تھا، جیسے ہمارے خادم ہوں۔ ’’دیکھو سیما! تمہارے چہرے پر دوڑتی لالی تمہاری آواز کی جھنجلاہٹ اور تمہارے ہر انداز سے ٹپکتا اضطراب بتا رہا ہے کہ تمہارا بلڈ پریشر شُوٹ کررہا ہے۔ خدا کے لیے خود کو نارمل کرو۔ ہم پردیس میں ہیں۔ یاد رکھو، ہمیں جو اللہ دکھا رہا ہے، اُس کی عنایت اور جو نہیں دکھائے گا، اس میں بھی اس کی کوئی مصلحت ہے۔ آؤ کھانے کے لیے چلیں۔‘‘ ہم نے بہت دھیرج سے سیما کو سمجھایا۔ (جاری ہے)