زندگی کی گود سے (قسط نمبر 5)

September 13, 2020

مسافر نے سلام کا جواب دیا اور بھکشو سے پوچھا ’’اگرآپ برُا نہ مانیں، تو کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ ’’یقیناً‘‘ بھکشو نے خوش گوار مُسکراہٹ سےجواب دیا۔ ’’مَیں پہاڑ پر واقع بستی سے وادی میں آباد بستی کو جارہا ہوں۔ مَیں جانناچاہتا ہوں کہ وادی والی بستی کے لوگ کیسے ہیں؟‘‘بھکشو نے جواباً اُس سے سوال کیا’’ آپ کا پہاڑ والی بستی کے لوگوں کا تجربہ کیسا رہا؟‘‘مسافر جھنجھلا کر بولا ’’وہاں بہت برُے لوگ رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے وہ بستی چھوڑکربہت خُوشی ہوئی ہے۔ جب میں وہاں گیا تھا تو مجھے بہت سرد مہری کا سامنا رہا۔ مسلسل ایک اجنبیت کا احساس میرے ساتھ رہا۔ وہاں کے لوگ اجنبیوں سے بے مروّتی برتتے ہیں۔ درحقیقت وہ بستی رہنے کے لائق ہی نہیں۔

آپ یہ بتایے کہ وادی والی بستی کے لوگ کیسے ہیں؟‘‘ بھکشو نےسنجیدگی سے جواب دیا’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وادی والی بستی میں بھی آپ کا تجربہ کچھ ایسا ہی رہے گا۔‘‘یہ سُن کر مسافر نے مایوسی اور اُداسی سے اپنا سرجُھکا لیا اورآگے چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد اُس راہ سے ایک اور مسافر کا گزر ہوا۔ اُس نے بھکشو کے سلام کا جواب دیا اور اس سے وہی سوال پوچھا ’’مَیں وادی والی بستی میں جارہا ہوں، وہاں کے لوگ کیسے ہیں؟‘‘بھکشو نے پوچھا’’پہلے آپ بتائیے کہ آپ کدھر سے آرہے ہیں؟‘‘ دوسرے مسافر نے جواب دیا’’ مَیں پہاڑ والی بستی سے آرہا ہوں۔‘‘’’وہاں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟‘‘ بھکشو نےاشتیاق سے پوچھا۔ ’’پہاڑ والی بستی میں میرا تجربہ شان دار رہا۔ کاش! مَیں وہاں چند روز اور رہ پاتا۔ وہاں کے لوگ اتنے مہربان ہیں کہ انھوں نے مجھے اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔

وہاں کے بزرگوں نے مجھے بہت مفید نصیحتیں کیں اورلوگوں نے بہت محبّت دی۔ اس بستی کی مہربانی کا احساس مجھے ساری زندگی رہے گا۔ اب آپ بتائیں، وادی والی بستی کے لوگ کیسے ہیں؟‘‘بھکشو مُسکرایا اور بولا ’’مجھے اُمید ہے کہ وادی والی بستی میں بھی آپ کا تجربہ خاصا خوش گوار رہے گا، ویسا ہی جیسا پہاڑوالی بستی میں رہا۔‘‘دوسرا مسافر مُسکرایا اور یہ کہہ کر اپنے رَستے پر چل دیا ’’دن بخیر اور بہت شکریہ۔‘‘ بے شک، ایک ہی بستی کے دو مختلف مسافروں کے تجربات مختلف ہوسکتے ہیں مگریہ علامتی حکایت اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ عموماً خوش نگاہ لوگ ہرقسم کے حالات سےاچھے پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔

مثبت زاویۂ نگاہ کے حوالے سے ایک اور واقعہ ہے۔ کئی برس پہلے جوتے بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے دوسیلز مین افریقا بھیجے۔ ان کی ذمّےداری تھی کہ وہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر اپنی اپنی رپورٹ بھیجیں کہ وہاں کمپنی کے کاروبار میں کام یابی کےکیا امکانات ہیں۔ انھوں نے وہاں کے بازاروں کا دورہ کیا اور اپنی اپنی رائے بھیجی۔ پہلے سیلز مین نے لکھا’’مجھے اِس منڈی میں کوئی اُمید نظر نہیں آتی کیوں کہ یہاں کوئی جوتے نہیں پہنتا‘‘ دوسرے سیلز مین نے لکھا’’مجھے اِس منڈی میں کاروبار کی بےحد گنجایش نظر آتی ہے کیوں کہ یہاں کوئی جوتے نہیں پہنتا‘‘یہ چھوٹی سی حکایت ایک ہی نمونے کو مثبت اور منفی زاویۂ نظر سے دیکھنے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ جان ڈی راک فیلر امریکی ارب پتی تھا۔

اُسے امریکی تاریخ کا رئیس ترین شخص تصوّر کیا جاتا ہے(موجودہ دور میں اُس کی دولت418ارب ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان کا سالانہ بجٹ44 ارب ڈالر اور بِل گیٹس کی کُل دولت102ارب ڈالر ہے) وہ 1839میں پیدا ہوکر1937میں فوت ہوا۔ اس زندگی میں اس نے امریکا پر ناقابلِ فراموش نقوش چھوڑے۔ ایک منصوبے میں اس کا حصّے دار ایڈورڈ بیڈ فورڈ تھا۔ اُس منصوبے میں ایڈورڈ نے ایک غلط فیصلہ کردیا، جس کی وجہ سے اُنھیں اُس دَور میں کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ راک فیلر با آسانی بیڈ فورڈ پر تنقید کرسکتا تھا اور اسے موردِ الزام ٹھیرا سکتا تھا، مگر اُسے معلوم تھا کہ بیڈ فورڈ نے نیک نیّتی سے دست یاب معلومات کی روشنی میں بہترین فیصلہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس نے دل کھول کر بیڈ فورڈ کی تعریف کی اور اُسے کہا ’’ہم اپنے سرمائے کا ساٹھ فی صد بچانے میں کام یاب ہوگئے ہیں‘‘ کام یاب منتظمین اور فیصلہ ساز عموماً کوئی بھی ردِعمل جذباتی اور سطحی طور پر نہیں دیتے۔ راست فہمی اور مثبت فکر کے حوالے سے ایڈیسن کا ایک برجستہ جملہ شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔

جب اُس کی وہ لیبارٹری جہاں اُس نے بیش قیمت ایجادات کیں اور جہاں مستقبل کی ایجادات کا سامان بھی موجود تھا، جل کر راکھ ہوگئی تو بجائے اس کے کہ وہ غم سے نڈھال ہوجاتا، وہ بولا ’’خدا کاشُکر ہےکہ میری تمام غلطیاں راکھ ہوگئیں۔ اب ہم نئےسرے سےتازہ دَم ہوکرکام شروع کرسکیں گے۔‘‘مثبت نظر میں رحم دلی کا عنصر شامل کرنے کی ایک سچّی کہانی ہے۔ شکاگو کے ایک ہوٹل میں ایک پختہ عُمر شخص اور ایک لڑکے نے ایک کمرا کرائے پر لیا۔ ہوٹل کے ریسیپشن والوں نے دیکھا کہ وہ شخص بہت سنجیدہ مزاج کا تھا اور لڑکے کا رنگ بھی پریشانی سے پیلا پڑ رہا تھا۔ کمرے میں چیک اِن کرنے کے کچھ دیر بعد وہ رات کے کھانے کے لیے ہوٹل کے ریستوران میں آئے۔ وہاں بھی وہ شخص حزن آمیز سنجیدگی سے کھانا کھاتا رہا اور لڑکے نے کھانے میں خاص دل چسپی نہ لی۔ کھانا کھانے کے بعد لڑکا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ پختہ عُمر شخص استقبالیہ کاؤنٹر پر آیا اور منیجر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ استقبالیے پر بیٹھے عملۂ مہمان داری میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا اُسے کوئی تکلیف یا شکایت ہے؟ اُس نے نفی میں جواب دیا اور منیجر سے ملنے کی درخواست کی۔

جب منیجر آیا تو اُس نے کہا کہ وہ منیجر سے علیحدگی میں کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ منیجر اُسے اپنے دفتر لے گیا۔ اُس نے منیجر کو بتایا کہ اُس کا چودہ سالہ بیٹا بہت بیمار ہے۔ شاید اُس بیماری کا انجام موت پر ہو۔ وہ اور اُس کا بیٹا حدر درجہ غم گین تھے۔انھوں نے تبدیلی کی خاطر ایک رات ہوٹل میں بسر کرنے کا پروگرام بنایا۔ اُس نے بتایا کہ اُس رات اُس کا بیٹا اپنا سَرخود شیو کرلے گا، بجائے اس کے کہ بیماری اوراس کے علاج سے اس کے بال گِر جائیں۔ وہ اپنے بچّے سے اظہارِ یک جہتی کے لیے خود بھی اپناسر آج شیو کرےگا۔ اُس کی اتنی درخواست تھی کہ جب وہ دونوں اگلی صبح شیوشدہ سَروں کے ساتھ ناشتے کے لیے آئیں تو وہاں کا اسٹاف ان سےیوں تہذیب سے پیش آئے، جیسے ان کی ہیئت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس نازک موقعے پر کسی بھی اسٹاف ممبر کی چھوٹی سی نامناسب حرکت بچّے کا دل توڑ دے گی۔

منیجر نے اس شخص کو یقین دلایا کہ سب کچھ اس کے حسب ِ خواہش ہی ہوگا۔ اگلی صبح باپ اور بیٹا ناشتے کے لیے ہوٹل کے ریستوران میں داخل ہوئے۔ وہاں ہوٹل کے اسٹاف کے چار افراد مہمانوں کی خدمت پر مامور تھے۔ یہ دیکھ کر باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ ان چاروں ویٹرز نےان سےاظہارِ یک جہتی کی خاطر اپنے سَر شیو کیے ہوئے تھے۔ اپنے مخاطب یا دوسرے لوگوں کا زاویۂ نظر سمجھنے سے وسعتِ خیال پیدا ہوتی ہے، مزاج میں غصّے کی جگہ تحمّل آتا ہے، خود درستی ہوتی ہے اور انسان میں یہ خوبی پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے خیال، نظریے اور سرگرمی کو وسعت دے سکتا ہے۔

خودنموئی(سیلف ڈیویلپمنٹ)کےماہرین کے مطابق کسی شخص کو کوئی کام کرنے پر آمادہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُس کے اپنے اندر وہ کام کرنے کی خواہش پیدا ہوجائے۔ اُس کے اندر یہ خواہش پیدا کرنے کے لیے پہلے اُس کا زاویۂ نظر یا مزاج سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک طالب علم کو ہمہ وقت نصیحت کرنا کہ وہ محنت سے پڑھے، اُس میں پڑھنے کا جذبہ پیدا نہ کرے گی، تاوقتیکہ اُس کے اپنے اندر پڑھنے کی خواہش بیدار ہوجائے، ایک کمپنی اپنے کارکنان میں ماحول، مقابلے اور انعام وغیرہ سے کام کرنے کا جذبہ جوان کر سکتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ ایسا کیا کیا جائے، جس سے ان میں خواہش پیدا ہو۔ ایک ڈاکٹر اپنے ادارے کے لیےبہترین ایکس رے مشینیں خریدنا چاہتا تھا، وہ مختلف کمپنیوں کے سیلز مینوں سے تنگ آیا ہوا تھا، جو دن رات اپنی مشینیں اُسے بیچنے کی کوششیں کر رہے تھے۔

ایک سیلز مین نے اُسے مودب انداز میں خط لکھا’’ہماری فیکٹری نے حال ہی میں ایکس رے مشینیں بنانے کی ایک لائن قائم کی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ بہترین نہیں ہیں۔ ہم انھیں بہتر سے بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کے حد درجہ شکر گزار ہوں گے، اگرآپ کچھ وقت نکال کر اُنھیں دیکھ لیں اور ہماری راہ نمائی فرما دیں کہ ہم اُنھیں بہترین کس طرح بناسکتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم اُنھیں طب کے شعبے کی بہترین مشینیں بنادیں۔ ہم آپ کی مصروفیت سے آگاہ ہیں، اس لیے آپ کے متعیّن کردہ وقت پر گاڑی اور ڈرائیور آپ کے دروازے پر موجود ہوں گے۔‘‘ اُس ڈاکٹر کو کسی بڑے مینو فیکچرنگ ادارے نے اتنی اہمیت نہیں دی تھی۔ اُسے اس میں عزت و اعزاز کا احساس ہوا۔ وہ فیکٹری گیا، وہاں بنی ایکس رے مشینوں کو دیکھا۔ جیسے جیسے وہ انھیں دیکھتا جاتا تھا، اُس پراُن کی خوبیاں کُھلتی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ اس نے اُن مشینوں کو، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اُس کا اپنا انفرادی فیصلہ ہے، خریدنے کا عندیہ دے دیا۔‘‘ کسی کو حسبِ خواہش اپنے رستے پر لے آنے کی فلسفیانہ روایت کا اہم ترین نام بابائے فلسفہ ’’سقراط‘‘ کا تھا۔ پستہ قامت، توندیلا، دَبی ناک اور باہر نکلی آنکھوں والا سقراط غیر متاثر کُن شخصیت کا مالک تھا۔ البتہ ایسا بلا کا ذہین اور غیر معمولی انسان تھاکہ اس کا شاگرد، افلاطون اس کے پیر دھو کر ان میں چپل پہناتا تھا۔

وہ اپنے شاگردوں اور لوگوں سے طویل مکالمے کرتا تھا اور مکالموں کو ردّوقائل سے وہاں لےآتا تھا، جہاں اس کا مخاطب وہی کہتا تھا، جو سقراط چاہتا تھا۔ سقراط صرف سوال کرتا تھا اور سوال کے جواب کے دوران ہی مخاطب اپنی دلائل کی کم زوری سمجھ جاتا تھا۔ ایک طرح سے یہ تطہیر کا عمل ہوتا تھا، اِس سے مباحثہ جیتنا مقصود نہ ہوتا تھا بلکہ سچ تک پہنچناہوتا تھا۔ یوں مخاطب کے سامنے وہ لاعِلم بَن جاتا تھا، اس میں کوئی مَکر نہ ہوتا بلکہ مخاطب کاذہن جانچنا اورخیالات پڑھنا ہوتا تھا۔ اُس نے خُود سے تیس یا غالباً چالیس برس کم عُمر عورت سے شادی کی تھی۔ اُس کی بیوی بد مزاج تھی، لیکن اُس کا مثبت زاویۂ نظر اس بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُس نے اپنی بدمزاج بیوی سے نباہ کو ایک نعمت کے طور پر جانا اور کہا’’وہ لوگ جو عُمدہ گھڑسوار بننا چاہتے ہیں، اپنے لیے نرم خُو اور تابع دار گھوڑے منتخب نہیں کرتے بلکہ باغی، تیزطرار، اَتھرا گھوڑایہ سمجھتےہوئے منتخب کرتے ہیں کہ اگروہ اس کے ساتھ گزارہ کرسکےتو باقیوں کو باآسانی قابوکرلیں گے۔ میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مَیں انسانیت سے تعلق استوار کرنا چاہتا ہوں، مجھے یہ (میری بیوی) مل گئی۔ اگر مَیں اس کے ساتھ نباہ کرگیاتو مجھے باقی انسانیت کےساتھ گزارہ کرنے میں کوئی دقّت نہ ہوگی۔‘‘ ایک اچھے مثبت نظر والے مرد کی طرح، وہ اپنی بیوی کو اپنے مطابق ڈھالنے کے بجائے اپنے آپ کو بہتر کرنے میں لگا رہتا تھا۔

ایک مرتبہ وہ اپنے گھر کے دروازے سے ٹیک لگا کر باہر کے رُخ بیٹھا ہوا تھا، گھر میں اُس کی بیوی چیخ چلا رہی تھی، وہ خاموشی سے سُن رہا تھا، یک دَم دروازہ کُھلا اور اُس کی بیوی نے پیشاب دان اُس پر اُلٹ دیا، تو وہ بولا’’بادلوں کے گرجنے اوربجلی کے کڑکنے کے بعد بارش ہی آتی ہے۔‘‘ اُسے زہر کا پیالا پی کر مرجانے کی سزا دی گئی۔ جب اُسے کہا گیا کہ اُسے ناانصافی سے مارا جارہاہےتو وہ بولا’’اس سے بھی برُا ہوتا، اگر مجھے انصاف کے بعد موت کی سزا ملتی۔‘‘سقراط جیسے جینئس کو اپنے اندر سے ایک آواز آیاکرتی تھی، جو اُس کی راہ نمائی کرتی تھی، جب اُسے عدالت میں پیش کیا گیا تو اُس آواز نے اُسے عدالت کو للکارنے سےنہ روکا۔ سقراط کا خیال تھا کہ اُس آوازکی غالباً منشایہی تھی کہ وہ زہر کا پیالا پی کر تاریخ میں امر ہوجائے۔ کسی کو اپنے نقطۂ نظر پر نہ صرف قائل کرنے بلکہ اُس کے حق میں جذبہ پیدا کرنے کے فلسفیانہ انداز کا بانی سقراط تھا۔

عبادت ایک بہت اہم جزوِ زندگی ہے۔ یہ انسان میں تحمّل، سُکون، صبر، شکر اور ٹھنڈا میٹھا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ مذہبی نوعیت کی ہو سکتی ہے، جنتر منتراور مراقبے کی صُورت ہوسکتی ہے یا تپسّیا کی شکل میں۔ جدید زمانے میں مذاہب سےبیگانے لوگ بھی مراقبے اور دیگر ذرائع سے استفادہ کرتے ہیں۔ دل وجان سے عبادت کرنے والے لوگ بہت پرُسکون، ٹھنڈےمیٹھےلوگ ہوتے ہیں، جن کی فقط قربت ہی سُکون آور ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کُڑھنے، تڑپنے اوراپنی ہی آگ میں جلنے والے لوگوں کی عبادتوں میں یقینا کہیں کوئی کمی رہ گئی ہوتی ہے۔ اللہ بےنیاز ہے اور انسان اللہ کاپَرتو۔ جو آدمی بغیر طمع ولالچ کے، بےنیاز ہو کر صرف اللہ کی خوش نودی کے لیے عبادت کرے گا، وہ یقیناً روشنی پالے گا۔ معروف ادیب، اے حمید نہ تو عالمِ دین تھے اور نہ ہی بظاہر شرعی احکام پر عمل پیرا مسلمان۔

مگر ان کے اندر وہ ٹھیراؤ ضرور تھا جو فکروتدبّر سے آتا ہے۔ گرمیوں میں ایک دوپہر میں اُن سے ملنے گیا تو آسمان پر گھنے بادل چھائے ہوئے تھے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے درختوں کی شاخیں جُھوم رہی تھیں۔ وہ اُس روز خوش گوار موڈ میں تھے۔ ہم باہر کرسیاں ڈال کربیٹھ گئے اور وہ منتظر نظروں سے بادلوں کو دیکھنے لگے۔ ہرسُوہلکا سُرمئی اندھیرا اُبھرا ہوا تھا۔ بادلوں میں بجلی کی بے آواز کوند لشکارا مارجاتی تھی۔ ایسا موسم تھا، جو روح کو طراوت دیتا ہے۔ نہ جانے کس لہر میں تھے کہ خودکلامی کے سے انداز میں بولے۔ ’’مذہب کتنی رومانٹک چیز ہے۔ مَیں بھی بہت رومانٹک ہوں۔ پیغمبروں کو دیکھو، پہاڑوں پر چڑھے، ٹھنڈے غاروں میں قیام کیا، روشنی پانے کے لیے اور گیان دھیان کیا۔

اس میں اَسرار کی ایک لطیف دُھند ہے، مٹھاس اور نرمی ہے۔ گوتم بدھ جنگل میں تپسّیا کرتا ہے اور ایک درخت، بودھ گیا کے درخت تلے نروان پاتا ہے۔ مذہبی آدمی سخت مزاج تو ہو ہی نہیں سکتا۔ مذہب تو انسان کو دھیما اور رومانٹک بناتا ہے۔ قدرت کی گود میں بیٹھ کر تپسّیا کرنے سے آپ کے اندر ایک درد اور رواداری پیدا ہوتی ہے۔ گوتم کو جب گیان ہوا تو اُس نے کُل جہاں پر رحم کی نظر ڈالی۔ وہ جان گیا کہ سب مجبورو لاچار ہیں، کچھ حالات کے اور کچھ اپنی فطرت کے۔ سبھی محبّت، شفقت اور رحم کے مستحق ہیں۔‘‘ اس کے بعد پیغمبروں، ولیوں، جوگیوں کے قصّے سنائے۔ اشعار اُن کی زبان پر یوں اُتر رہے تھے جیسے سیاہ گلابوں پر شبنم اُترتی ہے۔ (جاری ہے)