کراچی کیوں ڈوبا؟

September 13, 2020

27 اگست 2020ء، شام کے چھے بجے ہیں۔ دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر موجود شہرِ قائد کی اہم تجارتی شاہ راہ اور پاکستان کی وال اسٹریٹ، آئی آئی چندریگر روڈ پر کھڑے ہیں، مگر آج اِس پر گاڑیوں کی نہ ختم ہونے والی قطار کا نام ونشان تک نہیں اور ہو بھی کیسے…؟؟ اِس پر تو گاڑیوں کی بجائے کشتیاں چل رہی ہیں۔ وہ دیکھیں…ایک کشتی میں کچھ افراد بیٹھے نظر آ رہے ہیں، جن میں خواتین بھی ہیں۔ ہائے کیسی بے بسی ہے! گَھر جانے کی نیّت سے نکلے تھے، مگر گِھر جانے کے خوف سے دوبارہ دفتر پلٹ آئے۔ شہر سے مسلسل ہول ناک خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

مُلک کا سب سے بڑا شہر بارش کے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ شہر کے ساتوں انڈر پاسز چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بدل گئے اور تمام چھوٹی بڑی سڑکیں نہر کا رُوپ دھار گئی ہیں، جن میں گاڑیاں اور عوام غوطے کھا رہے ہیں۔ طارق روڈ پر موٹر سائیکلز پانی کے ریلے میں بہہ رہی ہیں، اُدھر صدر اور ایم اے جناح روڈ پر تو عجیب ہی نظارہ ہے۔ محرّم کے جلوس کے لیے لگائے گئے مَنوں وزنی کنٹینرز کے پانی میں تیرنے کی فوٹیج پر سب انگشت بدنداں ہیں۔کلفٹن انڈر پاس کے اطراف بھی کشتیاں چل پڑی ہیں۔جگہ جگہ بسز، وینز، رکشے، کاریں اور موٹر سائیکلز جام کھڑے ہیں، کسی کو کوئی جلدی نہیں، پانی نے اُن کے انجن ٹھنڈے کردئیے ہیں۔

کہیں کہیں گاڑی کو دھکّا لگا کر آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جو ایسا نہ کرپائے، وہ پانی میں ڈوبی گاڑی وہیں چھوڑ کر چلتے بنے کہ جان ہے، تو جہان ہے۔ جن علاقوں میں ہفتوں پانی نہیں آتا تھا، آج وہاں کے گھر گھر میں پانی پہنچ گیا۔گھروں کا سامان، جس میں بچّیوں کا جہیز تک شامل ہے، گلیوں میں بہہ رہا ہے۔گٹر، نالے اُبل پڑے ہیں اور یہ بدبودار پانی رہائشی علاقوں، کاروباری مراکز، سرکاری و نجی دفاتر یہاں تک کہ مساجد ومدارس میں بھی گھٹنوں گھٹنوں کھڑا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ کئی مساجد میں تو نمازیں تک ادا نہ کی جاسکیں۔لوگ صبح دفاتر کے لیے گھروں سے نکلے تھے، مگر اب جو جہاں ہے، قید ہے، محصور ہے، مجبور وبے بس ہے۔

محصور بھی ایسے کہ بجلی غائب ہے اور موبائل فونز کے سگنل بھی ڈراپ ہوچُکے ہیں۔ کچھ خبر نہیں، طوفانی بارش اُن کے گھروں، محلّوں پر کیا قیامت ڈھا رہی ہے؟ اور دوسری طرف، گھر والوں کو بھی علم نہیں کہ دفتر جانے والوں پر کیا بِیت رہی ہے؟ خواتین ملازمین سب سے زیادہ پریشان ہیں۔کوئی قیامت سی قیامت ہے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں(اللہ کرے، آخری موقع ضرور ہو) کہ کراچی کے شہریوں کو بارش نے یوں گھیرا ہو۔

پُرانے قصّے کہانیاں بہت ہیں، مگر تازہ بات کرلیتے ہیں۔ رواں برس جولائی کے آخری ہفتے میں کراچی پر مون سون کی گھٹائیں چھائیں، تو شہری خوشی سے نہال ہوگئے کہ شدید گرمی نے اُن کی’’ بس‘‘ کردی تھی، مگر جب بادل برسے، تو’’ دِل کے ارماں بارشوں میں بہہ گئے‘‘۔ جس بارش کے لیے دُعائیں کیں، جس کا مہینوں انتظار رہا، نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھتی رہیں، جب برسی، تو عوام پر افتاد بن کر ٹوٹی۔جولائی سے شروع ہونے والی اِس تباہی کا سلسلہ اگست میں بھی جاری رہا اور بارش نے آخری وار(تادمِ تحریر) 27 اگست کو کیا۔

نالے شہہ سُرخیوں میں آئے

کراچی میں 38 بڑے اور 514 چھوٹے نالے ہیں، جو نکاسیٔ آب کے لیے بہت حد تک کافی ہیں، لیکن بدانتظامی کو کوسیں یا صاحبانِ اقتدار کی بے حسی پر سَر پیٹیں کہ یہ سیکڑوں نالے بھی شہر کو ڈوبنے سے نہ بچا پائے۔جولائی میں ہونے والی بارش نے شہر کے نشیبی علاقے اور اہم شاہ راہیں ڈبوئیں، تو نالوں کا ایشو ایک بار پھر پوری شدّت سے سامنے آیا۔ میڈیا نے دِکھایا کہ کس طرح ان قدرتی آبی گزر گاہوں اور نالوں پر تجاوازت قائم کرکے شہر کو ڈبونے کا سامان کیا گیا۔ان نالوں کی صفائی کے نام پر تقریباً ہر سال مہم چلائی جاتی ہے اور اس مَد میں بھاری فنڈز بھی جاری کیے جاتے ہیں، مگر عملاً صُورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں آتی۔

اِس بار بھی بارش ہوئی، تو کچرے سے بَھرے نالوں کی گنجائش جلد ہی جواب دے گئی اور پانی کنارے توڑ کر قریبی آبادیوں میں داخل ہوگیا۔یعنی جو نالے پانی کی نکاس کے لیے ہیں، اُنھوں نے ہی بستیاں اُجاڑ ڈالیں۔ اِن حالات میں عدالتِ عظمیٰ اور پھر وفاقی حکومت نے نوٹس لیتے ہوئے این ڈی ایم اے کو ان نالوں کی صفائی کا ٹاسک دیا ، جس نے ہنگامی بنیادوں پر شہر کے تین بڑے نالوں سے ٹنوں کچرا نکالا، جب کہ کچھ نالوں کی صفائی صوبائی حکومت نے بھی کی۔بہرحال، اِس اقدام کا یہ فائدہ ہوا کہ بعد میں آنے والی بارشوں کے دَوران ان تینوں بڑے نالوں کی پہلے کی نسبت بہتر کارکردگی رہی، مگر باقی سیکڑوں نالے اُن کا ساتھ نہ دے سکے، جس کی وجہ سے سیوریج کا پورا نظام بیٹھ گیا۔

بارشوں کے علاوہ عام دنوں میں بھی نکاسیٔ آب کے لیے ان نالوں کا کردار بے حد اہم ہے، اِسی لیے ان پر فوکس بھی زیادہ کیا جاتا ہے۔ تاہم، شہری حلقوں اور ماہرین کے مطابق ان نالوں کے حوالے سے تین اہم نکات ہیں، جن پر عمل درآمد کے بغیر انھیں کارآمد نہیں بنایا جاسکتا۔

(1) نالوں کی بڑے پیمانے پر صفائی بےحد ضروری ہے۔ اِس مقصد کے لیے چند روزہ نہیں، بلکہ ایک بڑی اور منظّم مہم چلانی ہوگی، جس میں وفاقی اور صوبائی ادارے مل کر نالوں کو آخری سطح تک کچرے سے صاف کردیں۔

(2) صفائی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان نالوں میں آیندہ کچرا نہ پھینکا جائے۔ ابھی تک تو یہی ہوتا رہا ہے کہ شہر سے اُٹھائے جانے والے کچرے کی بڑی مقدار ان ہی ندی، نالوں میں پھینک دی جاتی ہے، جس سے وہ دوبارہ کچرے سے بھر جاتے ہیں۔اِس ضمن میں جہاں بلدیاتی سطح پر کچرے کو مقرّرہ مقامات پر ٹھکانے لگانے کی پابندی ضروری ہے، وہیں عام افراد کو بھی نالوں میں کچرا پھینکنے سے روکنے کے لیے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانا ہوگا۔

(3) پھر یہ کہ ندی نالوں پر تجاوزات بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جہاں اس وجہ سے نالے سُکڑے ہیں، وہیں کئی مقامات پر ان کا نام ونشان تک مِٹا دیا گیا ہے۔ نالوں پر کئی کئی منزلہ رہائشی اور کاروباری عمارتیں قائم ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری دفاتر تک ان پر تعمیر کیے گئے ہیں۔گو کہ تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشنز ہوتے رہتے ہیں، مگر اُن سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوپاتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ عام طور پر آپریشنز محض دِکھاوا ہوتے ہیں اور اگر کبھی کوئی سنجیدہ کارروائی کی کوشش کی بھی گئی، تو سیاسی مفادات آڑے آگئے۔ ایسے میں ایک غیر جانب دارانہ اور منصفانہ آپریشن کیا جانا ضروری ہے تاکہ ندی نالے اپنی اصل شکل میں بحال ہو سکیں۔اِس ضمن میں اہم خبر یہ ہے کہ 2 ستمبر سے نالوں پر قائم تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اُمید ہے، اس بار کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دَم لیا جائے گا۔

کچّی بستیاں، بے ہنگم آبادیاں

کراچی کی آبادی کتنی ہے؟ اِس پر اختلاف موجود ہے، لیکن اس بات سے سب متفّق ہیں کہ آبادی خواہ جتنی بھی ہو، بڑے بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ شہر میں نئی نئی غیر قانونی آبادیاں قائم ہو رہی ہیں اور یہ کہانی صرف مضافات کی نہیں، بلکہ پوش آبادیوں کے اطراف بھی دھڑلّے سے کچّی کالونیاں بن رہی ہیں۔ان آبادیوں میں پختہ گلیاں ہیں اور نہ ہی سیوریج کا کوئی مناسب نظام۔ گندا پانی گلیوں میں کھڑا رہتا ہے، جسے ختم کرنے کے لیے تیز دھوپ کا انتظار کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہلکی سی بارش بھی ان بستیوں میں سیلاب کی صُورت اختیار کر جاتی ہے۔ دوسری طرف قانونی طور پر تعمیر ہونے والی عمارتیں ہیں، جن میں سیوریج کا نظام تو مناسب ہوتا ہے، مگر آگے گٹر کی گنجائش اِتنی نہیں ہوتی کہ وہ ان عمارتوں سے آنے والے پانی کو خود میں سمو سکے۔ شہر میں نئی نئی عمارتیں تو بن رہی ہیں، مگر اس نسبت سے گٹر لائنز نہیں ڈالی جا رہیں، جس کی وجہ سے گٹر اوور فلو جاتے ہیں۔ ماہرین اور شہری حلقے کہتے ہیں کہ کراچی کو مزید گنجان بنانے کی بجائے اطراف میں نئے شہر بسائے جائیں، خاص طور پر نیشنل ہائی وے اور سُپر ہائی وے پر اِس مقصد کے لیے خاصی زمین دست یاب ہے۔

اِس ضمن میں وزیرِ اعلیٰ، سندھ مُراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ’’منصوبہ بندی کے بغیر بڑی تعمیرات کراچی کی بدحالی کا سبب ہیں۔ شہر میں بغیر منصوبہ بندی کمرشل تعمیرات کی گئیں اور رہائشی علاقوں کو کمرشل کرنے سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔ کراچی کو ماڈرن سٹی بنانے کے لیے کم ازکم 10؍ ارب ڈالرز درکار ہیں، جو وفاق کے پاس ہیں اور نہ ہی صوبے کے پاس۔‘‘ماہرین کے مطابق، وزیرِ اعلیٰ کی اِن باتوں میں خاصا وزن ہے، مگر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی تو نہیں بیٹھا جاسکتا۔

پاکستان کا سب سے بڑا گاؤں

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے کراچی کی صُورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ریمارکس دئیے’’ کراچی کو گوٹھ بنا دیا گیا ہے۔ پورا شہر غلاظت اور گٹر کے پانی سے بھرا ہوا ہے۔ مچھر، مکھیوں اور جراثیم کا ازدحام ہے، لوگ پتھروں پر چل کر آتے، جاتے ہیں۔‘‘بارش سے پہلے بھی شہر کی گلیاں خوش بُو سے نہیں مہکا کرتی تھیں، مگر حالیہ بارشوں نے تو شہر کو واقعی کسی گاؤں میں بدل دیا ہے۔ شہر بھر میں انفرا اسٹرکچر بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسی سڑک بچی ہو، جس پر جگہ جگہ گڑھے نہ پڑے ہوں۔ مرکزی شاہ راہیں تک کئی کئی فِٹ دھنس گئیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بُری طرح متاثر ہو ئی۔

کئی مقامات دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ یہاں کبھی سڑک نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ دوسری طرف، کچرے کے ڈھیر ہیں، جن سے اُٹھنے والی سڑاند نے گھروں سے باہر نکلنا مشکل کردیا ہے اور رہی سہی کسر گٹر کے بدبو دار پانی نے پوری کردی۔شہر میں کسی بھی طرف نکل جائیے، گٹر کا پانی راہ روک لے گا۔بارشوں نے نکاسیٔ آب کا پورا انفرا اسٹرکچر تہہ وبالا کردیا۔کچّی آبادیوں اور پس ماندہ علاقوں میں تو پہلے بھی سڑکیں ہی گٹر کا کام دیتی تھیں، مگر بارشوں کے بعد تو پوش آبادیوں کی گلیوں میں بھی جگہ جگہ پتھر رکھے ملتے ہیں، جن پر چل کر ہی گھر اور دفتر پہنچا جا سکتا ہے۔

تاجر رہنماؤں نے آرمی چیف کو دورۂ کراچی کے دَوران ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے متعلق آگاہ کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ’’ پہلے سے قائم انفرااسٹرکچر کو بارشوں نے بالکل ہی تباہ کردیا، سات انڈسٹریل زونز کی گلیوں کا یہ حال ہے کہ وہاں کوئی جیپ بھی نہیں چل سکتی۔‘‘ تاجروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ 2600ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے شہر کو انفرااسٹرکچر، اچھا ماحول اور کاروبار میں آسانیاں دی جائیں، تو تاجر 4000ہزار ارب روپے ٹیکس بھی دے سکتے ہیں۔‘‘

دو بوندیں گِری نہیں، بجلی گئی

معلوم نہیں، بارش اور بجلی میں ایسا کیا بیر ہے کہ ایک آتی ہے، تو دوسری چلی جاتی ہے۔ یا پھر یہ بھی اُسی روایتی غفلت اور لاپروائی کا نتیجہ ہے، جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ اِس بار بھی عوام کو بارشوں کے ساتھ بجلی سے محرومی کا عذاب بھی سہنا پڑا۔ذرا سی بارش کے بعد پہلی بریکنگ نیوز یہی رہی کہ’’ شہر میں اِتنے سو فیڈر ٹرپ کرگئے۔‘‘اس صُورتِ حال نے’’ مَرے کو ماریں شاہ مدار‘‘ کے مِصداق شہریوں کی اذیّت میں مزید اضافہ کیا۔

بارش تھمنے کے بعد بھی گھنٹوں بجلی بحال نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے موٹریں بھی کام نہ کرسکیں اور پینے کے پانی کے بھی لالے پڑ گئے۔ اسی کے باعث موبائل فون سروس بھی متاثر رہی، جس کے سبب شہریوں کو رابطے میں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کی عدم بحالی کی کیا کیفیت رہی، اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈیفینس جیسی پوش آبادی کے بعض علاقوں میں 142 گھنٹوں بعد بجلی بحال ہوئی۔

اِس ضمن میں کے الیکٹرک کا وہی روایتی موقف رہا کہ’’بارش نے تنصیبات کو متاثر کیا ہے، ٹیمز روانہ کردی گئی ہیں، جلد بجلی بحال کردی جائے گی۔‘‘ ترجمان کی جانب سے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں یہ بھی کہا گیا’’ کچھ مقامات پر حفاظتی طور پر بجلی بند کی گئی، کیوں کہ سیلابی صُورتِ حال کے دَوران بجلی بحال کرنا خطرناک ہوسکتا ہے اور نکاسیٔ آب کے مناسب اقدامات کے بغیر بجلی بحال نہیں کی جاسکتی۔‘‘کراچی میں بجلی کا نظام شہریوں کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں۔ عام دنوں میں بھی گھنٹوں غیر علانیہ لوڈشیڈنگ رہتی ہے، جب کہ بارشوں میں تو بجلی کسی قسمت والے ہی کے حصّے میں آتی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے ایک مقدمے میں ریمارکس دئیے کہ’’ کراچی کے شہری کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں،جو شہر کے ساتھ بہت بُرا سلوک کررہی ہے۔ کے الیکٹرک عوام کو بجلی اور حکومت کو پیسے نہیں دیتی،2015 ء سے کے الیکٹرک نے ایک روپیا حکومت کو نہیں دیا۔ حکومت تو کے الیکٹرک کی کلرک اور منشی بنی ہوئی ہے۔‘‘

بلدیاتی ادارے، اختیارات اور ذمّے داریوں میں توازن

30 اگست کو بلدیاتی ادارے اپنی چار سالہ مدّت پوری کرکے تحلیل ہوگئے۔ میئر کراچی، وسیم اختر اِس پورے عرصے کے دَوران اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہے اور اپنی آخری پریس کانفرنس میں تو باقاعدہ رو بھی پڑے، مگر اُن کا یہ رونا بھی کام نہ آیا۔ شہریوں کی یہی رائے سامنے آئی کہ’’ اگر اُن کے پاس اختیارات نہیں تھے، تو وہ چار برس تک اقتدار سے کیوں چمٹے رہے؟‘‘ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے بھی ایک موقعے پر اُن کی کارکردگی کو خاصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا’’ مئیر نے تو ایک نالی تک نہیں بنائی۔‘‘ بہرحال، اِس ضمن میں یہ بحث بھی سامنے آئی کہ اگر اِتنے بڑے شہر کے مئیر کے پاس گلیوں اور نالوں سے کچرا اُٹھانے کا اختیار ہے، نہ وہ نکاسی آب یا فراہمیٔ آب کا انفرا اسٹرکچر تعمیر کر سکتا ہے، تو پھر شہر کے بنیادی بلدیاتی مسائل کیسے حل ہو سکیں گے؟

وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد مُراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ’’ کے ایم سی کے پاس وسائل کی کمی ہے۔‘‘تاہم، سندھ حکومت کے ترجمان، مرتضیٰ وہاب کا اِس حوالے سے موقف ہے کہ’’ضرورت سے زاید اسٹاف کے ایم سی، ڈی ایم سی کے فنڈز میں شارٹ فال کی بڑی وجہ ہے۔ 2006ء،2007ء میں ساڑھے 5 ہزار افراد واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں بھرتی کیے گئے۔ لوکل گورنمنٹ کا ادارہ اِتنا طاقت وَر تھا کہ کسی نے اس کا احتساب تک نہیں کیا۔‘‘سابق ناظم کراچی، مصطفیٰ کمال بھی اس بات سے متفّق ہیں کہ شہری حکومت کے پاس اختیارات اور وسائل کی کمی ہے۔

اُن کے مطابق’’ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو خودمختاری ملنا خوش آئند تھا، لیکن وہ خودمختاری وزیرِ اعلیٰ آفس میں آکر’’ پارک‘‘ ہو گئی۔‘‘عوام کہتے ہیں کہ اب کراچی تھک چُکا ہے اور وہ مرحلہ آ گیا ہے، جب تمام اسٹیک ہولڈرز اور ریاستی ادارے سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض شہر کی بہتری کی بنیاد پر فیصلے کریں۔شہری حکومت کے اختیارات، ذمّے داریوں اور احتساب کا کوئی ایسا نظام وضع کیا جانا ضروری ہے، جس سے کراچی حقیقی معنوں میں’’ روشنیوں کا شہر‘‘ بن سکے۔

ایک ہی لہر میںبہہ گئے امیر وغریب

ماضی کی بارشیں عام طور پر شہر کے پس ماندہ علاقوں ہی کو ڈبوتی تھیں یا پھر زیادہ سے زیادہ اہم شاہ راہیں اُن کی لپیٹ میں آجاتیں، مگر اِس بار بارش نے امیر، غریب میں کوئی تفریق نہیں کی۔ پس ماندہ تصوّر کیے جانے والے علاقے تو حسبِ معمول دریا بنے ہی، لیکن ڈیفینس، کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس، دھوراجی کالونی، کارساز اور گلشنِ اقبال جیسی جدید آبادیاں بھی بارش اور گٹر کے پانی میں ڈوبی رہیں۔

اِس بار شہریوں نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ پوش علاقوں کے باسی بھی پانی کے نکاس اور بجلی کی بحالی کے لیے احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔دراصل کراچی کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ کس علاقے کو صاف ستھرا رکھنا کس کی ذمّے داری ہے؟ شہر کا ایک بڑا حصّہ بلدیہ کے پاس ہے، تو بہت سے علاقے کنٹونمنٹ بورڈز اور مختلف اتھارٹیز کے پاس ہیں، جو شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختلف مَد میں ٹھیک ٹھاک ٹیکسز بھی وصول کرتے ہیں، مگر اِس کے باوجود اِس سال بارشوں میں ان کی کارکردگی کا بھانڈا پھوٹ گیا، یہاں تک کہ بات اب عدالت تک جا پہنچی ہے۔

ڈیم تو بھر گیا، پانی بھی ملے گا؟

بُری خبروں کے بیچ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ بارشوں سے حب ڈیم مکمل طور پر بھر گیا۔رپورٹس کے مطابق، 1980 ء کے بعد یہ آٹھواں موقع ہے، جب ڈیم اس طرح بَھرا ہے۔ایسا آخری بار 13 سال قبل2007 ء میں ہوا تھا۔ حب ڈیم میں 6لاکھ، 47 ہزار ایکٹر فِٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈیم کے موجودہ ذخیرۂ آب سے کراچی کو تین سال تک پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس ڈیم سے 67.3 فی صد پانی کراچی اور 33.7فی صد بلوچستان کو ملتا آتا ہے۔

کراچی کے ایک بڑے علاقے کو اِسی ڈیم کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ باقی علاقوں تک دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔شہر میں جہاں نکاسیٔ آب ایک بڑا ایشو ہے، وہیں پینے کے پانی کی عدم فراہمی بھی شہریوں کے لیے سوہانِ روح بن ہوئی ہے۔ اچھی خاصی آبادیوں میں بھی شہری ہاتھوں میں پانی کے کین اُٹھائے نظر آتے ہیں۔ اِس صُورتِ حال کا بنیادی سبب آبادی میں اضافہ اور پانی میں کمی بتائی جاتی ہے، لیکن متعلقہ اداروں کی بدانتظامی اور کرپشن کو بھی نظرانداز کرنا آسان نہیں۔ شہری اِس ضمن میں ٹینکر مافیا کی طرف بھی انگلیاں اُٹھاتے ہیں۔

فوج ،عوام اور حکومت کے ساتھ

پاک فوج مصیبت کی گھڑی میں ایک بار پھر کراچی کے شہریوں کے لیے مسیحا بن کر آئی۔ فوج ہی کے ایک ادارے نے شہر کے تین نالوں سے ٹنوں کچرا نکالا، تو فوجی جوانوں نے برستی بارش کے دَوران سڑکوں اور گھروں میں پھنسے افراد کو ریسکیو آپریشن کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ صرف یہی نہیں، اُنھوں نے کئی علاقوں میں متاثرین تک کھانا بھی پہنچایا۔

وفاقی حکومت نے پہلے مرحلے میں30 جولائی کو سِول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی تھیں، جس پر پاک فوج نے فوری طور پر فلڈ ایمرجینسی کنٹرول سینٹر قائم کرکے 36 مقامات سے بارش کا پانی نکالا۔اس کے بعد ہونے والی بارشوں میں بھی فوجی جوان سِول انتظامیہ کی مدد کرتے رہے۔دوسری طرف، رینجرز نے بھی بارش کی تباہ کاریوں کے دوران عوام کی ہر ممکن مدد کی۔

بعدازاں، یکم ستمبر کو آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ دو روز کے لیے کراچی آئے، جس کے دَوران اُنھوں نے متاثرہ علاقوں کا فضائی معاینہ کرنے کے ساتھ کئی اجلاسوں میں شرکت اور وفود سے ملاقاتیں کیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اِس موقعے پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ پاک فوج ضرورت کے وقت قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔کوئی شہر ایسی قدرتی آفت کا مقابلہ نہیں کرسکتا، مسئلہ وسائل کا نہیں، ترجیحات کا ہے۔

مستقبل میں ایسی آفات سے بچنے کے لیے شہری انتظامیہ ترجیحات کا تعیّن کرے۔ فوج، وفاقی اور صوبائی حکومت کے منصوبوں کو سپورٹ کرے گی۔‘‘تاجر رہنماؤں نے آرمی چیف کو کراچی کے انفرااسٹرکچر کی زبوں حالی سے آگاہ کیا، جس پر اُنھیں صُورتِ حال میں بہتری کی یقین دہانی کروائی گئی۔مُلک کے سب سے بڑے شہر کے مسائل کے حل میں پاک فوج کی دل چسپی، عملی طور پر حصّہ لینے اور حکومتی منصوبوں کی سپورٹ سے اُمید بندھی ہے کہ اِس بار محض لیپاپوتی سے کام نہیں لیا جائے گا، بلکہ مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات دیکھنے کو ملیں گے۔

الزامی سیاست کے بیچ خوش گوار ہوا کے جھونکے

وفاقی اور سندھ حکومت میں اوّل روز سے کھینچاتانی جاری ہے اور بارش کے دَوران بھی الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا۔تاہم ڈوبے کراچی کے لیے یہ خبر کسی خوش خبری سے کم نہیں تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے کراچی کے بڑے مسائل کے حل پر اتفاق کیاہے اور اس کے لیے ایک رابطہ کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے، جس میں وزیرِ اعلیٰ سندھ، وزیرِ بلدیات ناصر حسین شاہ، وزیرِ تعلیم سعید غنی، وفاقی وزراء اسد عُمر، علی زیدی اور امین الحق شامل ہیں۔

یہ کمیٹی فراہمیٔ آب، نکاسیٔ آب، کچرے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرے گی۔بعض قوم پرست حلقوں نے اس کمیٹی کی تشکیل کو صوبائی خود مختاری میں مداخلت اور اٹھارویں ترمیم میں دئیے گئے اختیارات سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا، تاہم عمومی طور پر شہریوں نے مسائل حل کرنے کی اس کوشش کا خیرمقدم کیا۔

سوشل میڈیا پر کراچی ہی کراچی

فیصل آباد کی جگتیں اور لاہوریوں کی زندہ دلی مشہور ہے، مگر اِس بار کراچی والے بھی پیچھے نہیں رہے۔اُنھوں نے اپنے غصّے اور ناراضی کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا، جس کے دوران سخت جملوں کے ساتھ پُرلطف انداز میں حکم رانوں کو طنز کے نشتر بھی چبھوئے۔یہ جملہ تو خُوب شئیر ہوا’’ کراچی نالوں کی صفائی سے نہیں، نااہلوں کی صفائی سے بہتر ہوگا۔‘‘یہ جملہ بھی عوام کی ترجمانی کرتا نظر آیا’’مؤرخ لکھے گا، کراچی والوں کی آدھی زندگی کے الیکٹرک کو کوستے گزر گئی۔‘‘

نیز،’’کراچی والے سمندر کی سیر کے لیے جاتے تھے، اِس بار خود سمندر اُن سے ملنے آگیا‘‘ اور’’ کراچی کو مدد چاہیے تھی، آپ نے بجلی کے نرخ بڑھا دئیے، بھائی! طوفان آیا تھا، بارش میں خزانے نہیں نکلے تھے‘‘ جیسے جملے بھی خاصے مقبول ہوئے۔ شہری آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے کراچی بچانے کی اپیلیں کرتے رہے، جو سیاسی قائدین کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ آخر عوام اُن سے مایوس کیوں ہوئے؟

نئے صوبے کی باتیں پھر تازہ

بارش کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے’’ کراچی لاوارث ہے‘‘، ’’اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے حکم رانوں کو شہر کی کوئی فکر نہیں‘‘، ’’ کراچی کو الگ صوبہ بنانے ہی سے مسئلہ حل ہوگا‘‘، جیسے بحث مباحثے کا دروازہ ایک بار پھر کُھل گیا۔ چوں کہ صوبے کی مخصوص لسانی حیثیت کے وجہ سے یہ ہمیشہ سے ایک حسّاس موضوع رہا ہے، اِسی لیے اِس بار بھی یہ بحث نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔

پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ کراچی کو اون نہیں کرتی اور اس کے مسائل کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیتی۔ اِس بار اِس الزام کی شدّت ماضی کی نسبت کچھ زیادہ رہی۔لہٰذا پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی ہی سے اس الزام کا جواب دے سکتی ہے، جس کا شہریوں کو شدّت سے انتظار ہے۔

عدلیہ کی سب پر نظر

عدالتِ عظمیٰ، افتخار چوہدری کے دَور سے کراچی کے مسائل کے حل میں دل چسپی لے رہی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار اور موجودہ چیف جسٹس، گلزار احمد کے دَور میں بھی عدلیہ نے شہر پر خاص طور پر فوکس کیا ہے۔ امن وامان سے متعلق کیس ہو، تجاوزات کا معاملہ یا پھر غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کی بات، عدلیہ نے عوام سے متعلق مسائل کا نوٹس لیا ہے۔ عدلیہ ہی کی کوششوں سے شہر میں بہت سی تجاوزات کا خاتمہ ہوا، اگر صوبائی اور شہری حکومت چاہتی تو اِس فیصلے پر زیادہ بہتر طور پر عمل کروا سکتی تھی، جس سے شکایات بھی پیدا نہ ہوتیں۔

اِسی طرح عدلیہ نے سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق احکامات دئیے۔ پچھلے دنوں شہر کے تین بڑے نالے بھی عدالت ہی کے حکم پر صاف کیے گئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان،جسٹس گلزار احمد کراچی کی صورتِ حال پر دل گرفتہ نظر آئے۔ اُنھوں نے ایک موقعے پر ریمارکس دیے کہ’’ ریاست کی لائف لائن، کراچی کو’’ مافیا‘‘ چلا رہی ہے۔

یہ تو صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ نالوں کی صفائی کے لیے وفاق کو آنا پڑا۔ یہ کیسا طرزِ حکم رانی ہے کہ صوبے کے لوگوں کا خیال ہی نہیں ؟ بس ہیلی کاپٹر پر دو چکر لگا کر آکر بیٹھ جائیں گے۔ شہر تباہ ہوگیا، کراچی میں مال بنایا جا رہا ہے، جس میں پوری حکومتی مشینری ملوّث ہے۔ اداروں میں بھی ہم آہنگی نہیں، نصف کراچی پانی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔خواہ مخواہ کہا جاتا ہے کراچی مُلکی معیشت کا 70 فی صد دیتا ہے، کراچی کے پاس دینے کے لیے اب کچھ نہیں رہا۔ کراچی کے لیے اربوں روپے جاری ہوتے ہیں، لیکن خرچ کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

بارش کے بعد امدادی کام

بارش کے دَوران حکومتی مشینری کسی نہ کسی حد تک نظر آئی۔ وزیرِ اعلیٰ اور وزراء بھی شہر کے مختلف علاقوں کے دورے کرتے رہے۔ مگر بارشیں تھمنے کے بعد سب ایسے غائب ہوئے جیسے’’یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا‘‘ لیکن یہ آرام تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

جگہ جگہ پانی کھڑا ہے، گٹر اُبل رہے ہیں، سڑکوں کے کنارے پڑے کچرے سے بدبو کے بھبھکے اُٹھ رہے ہیں، سڑکوں پر گڑھے پڑے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے خلقِ خدا شدید ٹریفک جام میں پھنسی ہے، مگر کہیں بھی امدادی کام نظر نہیں آرہا۔لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گٹر، گلیاں صاف کروا رہے ہیں۔

شہری ڈیم

پنجاب حکومت نے پچھلے دنوں زیرِ زمین ایک ٹینک تعمیر کیا، جو 14 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ اسے بارش کے دِنوں میں بھرا جائے گا اور بعدازاں پانی دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ تجربہ حالیہ بارش میں کام یاب رہا۔

کراچی میں فائیو اسٹار چورنگی سے سرجانی تک، شاہ راہِ فیصل کے بعض حصّے، شاہین کمپلیکس، طارق روڈ سمیت شہر کے کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں درمیانے درجے کی بارش میں بھی گھٹنوں پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان علاقوں میں ایسے مقامات بھی موجود ہیں، جہاں باآسانی زیرِزمین ٹینک بنائے جاسکتے ہیں، جن میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے۔ لہٰذا کراچی میں بھی پنجاب اور دنیا کے دیگر ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر سیلابی صورتِ حال سے بچا جاسکتا ہے۔

حل کیا ہے…؟؟

ماہرین اور شہری حلقوں کے مطابق کراچی کو بارشوں کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔

چودھویں کا چاند……

آخر کراچی کی شاہ راہوں اور گلی محلّوں میں بارش کے بعد بھی گھنٹوں پانی کیوں کھڑا رہا؟ اِس سوال کے جواب کی تلاش میں ماہرین سرجوڑے بیٹھے ہیں۔ طرح طرح کے تجزیے، تبصرے، بحث مباحثے ہو رہے ہیں تاکہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جاسکے، مگر سندھ کے وزیر آب پاشی نے ساری مشکلات حل کردیں اور ایک چٹکی میں نہ صرف پانی جمع ہونے کی اصل وجہ بتا دی، بلکہ مستقبل کے لیے حل بھی تجویز کردیا۔

جی ہاں، صوبائی وزیر انور سیال نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ’’ سندھ حکومت نے تو بارشوں کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے مکمل تیاریاں کر رکھی تھیں، مگر جس روز طوفانی بارش ہوئی، وہ چاند کی چودھویں رات تھی، جس کے سبب پانی سمندر میں نہیں گیا۔‘‘