قائد اعظم نے قدرت اللّٰہ شہاب کوکیوں ٹوکاتھا؟

September 11, 2020

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کو 72 برس بیت گئے

شہاب نامہ کے خالق قدرت اللّٰہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں قائداعظم سے پہلی ملاقات کا واقعہ تحریر کیا ہے جس میں وہ ایک خفیہ دستاویز کے ساتھ قائداعظم کی خدمت میں پہنچے تو قائد اعظم نے مدعا سننے کے بعد دوبارہ ایسا کرنے سے منع کردیا۔

شہاب نامہ میں مصنف نے اہم شخصیات کی اس طرح تصویر کشی کی ہے کہ چھوٹے سے واقعے یا وقوعے سے قاری کردار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔

شہاب نامہ میں مصنف نے قائداعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کر کے ان تک پہنچاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتیں، قائد اعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آجاتی ہے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ یہ اپریل 1947 کی بات ہے کہ جب ہندوستان کی بساط سیاست پر مسلمانوں کے خلاف چالیں چلی جارہی تھیں، ایسے میں اُن کے ہاتھ خفیہ دستاویز لگی جس میں مسلمان افسران کو غیر قانونی طور پر عہدوں سے تبدیلی کا حکم دیا گیا تھا، اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہوم، فنانس اور پریس ڈپارٹمنٹ میں ہندو افسران کو بھرتی کیا جائے۔

قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’یہ حکم نامہ یا سرکلر پڑھ کر شدید دھچکا لگا، اور دل میں عجیب سی کشمکش ہوتی رہی، تاہم جلد ہی قائداعظم سے ملاقات کی نیت سے دہلی کے سفر پر روانہ ہوگیا۔‘

انہوں نے لکھا کہ قائد اعظم کے پرائیوٹ سیکرٹری کے- ایچ خورشید سے منت سماجت کرنے کے بعد بڑی مشکل سے دو روز بعد قائداعظم تک رسائی حاصل کی، وہ اپنے کمرے میں کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’قائداعظم نے فارغ ہوکر ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا کہ کیا بات ہے؟

قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’قائد کے سوال پر ایک ہی سانس میں مَیں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں قدرت اللّٰہ شہاب ہوں اور اس وقت اڑیسہ میں ڈپٹی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ہوں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے کانگریس کا سرکلر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا وہ بڑے سکون سے پڑھتے رہے یہاں تک کہ ان کے جذبات میں ذرا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔‘

قائد اعظم سرکلر پڑھ کر فارغ ہوئے تو قدرت اللّٰہ شہاب کو سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا کہا، اور پوچھا کہ یہ تم نے کہاں سے حاصل کی؟ جواباً میں نے تمام روداد سنائی جس پر قائداعظم نے کہا،

This is a breach of trust

ویل ویل ،تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، یہ اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس خفیہ دستاویز کی ہر کاپی پر نمبر درج ہے، تمہیں اس حرکت کے کیا نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں کیا تم اس سب کے لیے تیار ہو؟

جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جی سر میں اس کے لیے تیار ہوں‘

آخر میں انہوں نے جانے کی اجازت دی اور شفقت بھرے لہجے میں کہا کہ ’بوائے دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘

قدرت اللّٰہ شہاب کون ہیں؟

پاکستان کے نامور بیورو کریٹ اورادیب قدرت اللّٰہ شہاب 26 فروری1917 کومتحدہ ہندوستان کے علاقے گلگت میں پیدا ہوئے تھے، ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم -اے انگلش کیا اور 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔

ابتداء میں شہاب صاحب نے بہاراوراڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہوگئے۔ آزادی کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل ہوئے۔

بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھراسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے، پاکستان میں جنرل یحیی خان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔

انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ ان کی اس خدمت کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو ان کی فلسطینی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خدمت تھی۔

شہاب صاحب ایک بہت عمدہ نثر نگار اور ادیب بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور ان کی خود نوشتہ سوانح حیات “شہاب نامہ“ قابل ذکر ہیں۔

کچھ شہاب نامہ کے بارے میں:

شہاب نامہ مسلمانان برصغیرکی تحریک آزادی کے پس منظر، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔

شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللّٰہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ،

میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظر آئے

شہاب نامہ ایک تاریخی دستاویز ہونے کے ساتھ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے ، کسی بھی پاکستانی بیوروکریٹ کی یاداشتوں پرمبنی یہ مشہور ترین تصنیف ہے۔