بنگلا دیش کی عدالتی تاریخ کا مختصر خاکہ

September 20, 2020

پاکستان میں انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان رسّہ کشی کی تاریخ خاصی پرانی ہے، مگر لگتا ہے کہ اب بنگلا دیش بھی اِسی راستے پر چل پڑا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنگلا دیش کے چیف جسٹس، سریندر کمال سہنا کے استعفے کی اطلاع سامنے آئی۔ گوکہ اِس بارے میں انتظامیہ اور عدلیہ دونوں نے زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں، پھر بھی اِس اعلان کے پیچھے بہت کچھ پوشیدہ ہے۔ سریندر کمال سہنا بنگلا دیش کے پہلے ہندو چیف جسٹس تھے، جنہوں نے جنوری 2015ء میں اپنے عُہدے کا حلف اُٹھایا ۔اُنہوں نے تین سال کے دَوران کچھ اہم فیصلے صادر کیے، لیکن اِس پر بات کرنے سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ بنگلا دیش میں عدلیہ کیا کچھ کرتی رہی ہے؟ بنگلا دیش پچاس سالہ تاریخ میں بائیس چیف جسٹس دیکھ چُکا ہے، یعنی ہر چیف جسٹس کی اوسط مدّت دو سال سے کچھ زیادہ رہی۔

اِس کے مقابلے میں پاکستان کی تہتّر سالہ تاریخ میں ستائیس چیف جسٹس ہوئے ہیں، یعنی ہر چیف جسٹس کی مدّت اوسطاً تین سال سے کچھ کم رہی ، لیکن تفصیل دیکھیں، تو ان 27 میں سے 7 چیف جسٹس صاحبان 45 برس عُہدے پر رہے۔چیف جسٹس، محمّد حلیم تقریباً نو برس تک جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کام کرتے رہے، جب کہ جسٹس کارنیلئس آٹھ سال جنرل ایّوب خان کے ساتھ رہے۔ اِسی طرح جسٹس حمود الرحمان 1968 ء سے 1975 ء تک تقریباً سات سال جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے ادوار میں چیف جسٹس رہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک چیف جسٹس رہنے والے جسٹس محمّد حلیم ہوں یا جسٹس کارنیلئس اور جسٹس حمود الرّحمان، کسی نے بھی حاکمِ وقت کو للکارنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور ماسوائے اِکّا دُکّا فیصلوں کے، جو نسبتاً بہتر تھے، مجموعی طور پر سب حاکمانِ وقت کی مرضی و منشا کے مطابق چلتے رہے۔

مثلاً جب جنرل ایوب خان آئین اور جمہوریت کا دھجیاں بکھیر رہے تھے، اُس وقت جسٹس کارنیلئس خاموش رہے۔ جب فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا، تب بھی چیف جسٹس چُپ ہی رہے۔اِسی طرح بنگلا دیش کے پہلے چیف جسٹس ابو صائم سے لے کر اب تک عدالتِ عظمیٰ سیاست میں شامل رہی ہے اور اس نے شاید ہی کبھی کوئی دلیرانہ اور قانونی طور پر غیر جانب دارانہ کردار ادا کیا ہو۔

1972 ء سے1975 ء کے درمیان چیف جسٹس ابو صائم نے شیخ مجیب الرّحمان کی بڑھتی اقتدار پرستی اور آمرانہ روش کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور اُنہیں جمہوریت برباد کرنے کی کُھلی چُھٹّی دیے رکھی۔حتیٰ کہ اگست 1975ء میں مجیب الرّحمان اور اُن کے تقریباً پورے خاندان کے قتل کے بعد بھی جسٹس ابو صائم اپنے عُہدے سے چِپکے رہے۔ اُنہوں نے فوجی بغاوت کے خلاف کوئی فیصلہ دینے کی بجائے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عُہدہ قبول کرلیا اور پھر نومبر 1975 ء میں فوج کے اشارے پر صدر کا عُہدہ بھی سنبھال لیا۔ یوں غالباً وہ پہلے حاضر سروس چیف جسٹس تھے، جو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بنے۔

ابو صائم ایک سال تک چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہنے کے بعد نومبر1976 ء میں عُہدے سے سبک دوش ہوئے، مگر صدر کے عُہدے پر براجمان رہے۔بعدازاں، اپریل1977 ء میں جنرل ضیاء الرحمان کے حق میں صدر کے عُہدے سے دست بردار ہوئے۔ جسٹس ابو صائم کا پورا دَور بنگلا دیشی آئین کی توڑ مروڑ کا دَور تھا، مگر چیف جسٹس کو اپنے نئے عُہدوں سے زیادہ دِل چسپی تھی۔ مجیب الرّحمان نے اپنے تین سالہ دَورِ اقتدار میں کم از کم تین ایسی بڑی آئینی ترامیم کیں، جنہوں نے بنگلا دیش کے پہلے آئین کا تقریباً جنازہ نکال دیا۔ ان ترامیم میں سب سے تباہ کن جنوری1975 ء کی ترمیم تھی، جس کے ذریعے حزبِ مخالف کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ مجیب الرّحمان نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر ایک جماعتی نظام اور صدارتی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی پر بھی شدید قدغنیں لگائیں، مگر چیف جسٹس ابو صائم خاموش بیٹھے رہے۔

مجیب کے قتل کے بعد 1975 ء سے 1979ء تک فوجی حکومت نے کئی ایسے احکام جاری کیے، جو آئین کے منافی تھے، مگر عدلیہ کے کان پر جُوں تک نہ رینگی۔ بنگلا دیش کے دوسرے چیف جسٹس، سیّد محمود حسین نومبر 1975ء سے جنوری1978 ء تک فوجی حکومت کے احکامات پر سرِ تسلیمِ خم کیے بیٹھے رہے۔ تیسرے چیف جسٹس، کمال الدّین حسین کا دَور آیا، تو وہ بھی 1978 ء سے 1982 ء تک یہی کچھ کرتے رہے۔ اُنہوں نے نہ صرف جنرل ضیاء الرحمان کی فوجی آمریت کو تسلیم کیا، بلکہ جنرل ضیاء کے قتل کے بعد نئے حکم رانوں کے بھی معاون رہے۔جنرل ضیاء الرحمان نے بنگلا دیشی آئین کی سیکولر بنیادیں اُکھاڑ کر اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی، بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کرتے رہے۔ ایک طرح سے یہ دونوں فوجی آمر ایک دوسرے سے سیکھ رہے تھے۔1979 ء میں جنرل ضیاء الرحمان نے اپنے مارشل لاء احکام کو آئینی تحفّظ دینے کے لیے زبردستی پانچویں آئینی ترمیم مسلّط کی، مگر عدالتِ عظمیٰ کسی فوجی آمر کو للکارنے پر تیار نہ تھی۔

پھر 1982 ء میں بنگلا دیش کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک چیف جسٹس رہنے والے جسٹس فضل قادری حلف اُٹھا کر ایک اور فوجی آمر جنرل ارشاد کے ساتھ کھڑے ہوئے۔یہ وہ وقت تھا، جب پاکستان میں چیف جسٹس، محمّد حلیم تقریباً نو سال عدلیہ کی قیادت کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کے شانہ بشانہ جمہوریت کا قلع قمع ہوتے دیکھتے رہے تھے۔ بنگلا دیش میں جسٹس فضل قادری اور پاکستان میں جسٹس محمّد حلیم فوجی آمروں کو تحفّظ فراہم کرتے رہے۔ جب 1986 ء میں جنرل ارشاد نے بنگلا دیشی آئین میں چَھٹی ترمیم مسلّط کرکے اپنے مارشل احکام کو آئینی تحفّظ دینے کا اعلان کیا، تو چیف جسٹس خاموش تماشائی بنے رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں آٹھویں آئینی ترمیم لائی گئی تھی۔

بنگلا دیش میں 2010 ء کے بعد عدلیہ نے کچھ اچھے فیصلے دیے، جن سے پچھلے دس برس میں سیاسی ماحول اور سماجی رویّے تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے تو جسٹس تفضل اسلام نے،جو صرف ڈیڑھ ماہ چیف جسٹس رہے، جنرل ضیاء الرحمان کی نافذ کردہ پانچویں آئینی ترمیم کو تیس سال بعد اُکھاڑ پھینکا۔ جسٹس تفصل نے شیخ مجیب کے قاتلوں کو دی جانے والی سزائیں بھی برقرار رکھیں۔ اس طرح عوامی لیگ کی حکومت نے 1996 ء سے چلا آنے والا وہ نظام بھی ختم کردیا، جس کے تحت انتخابات کے لیے نگراں حکومت بنائی جاتی تھی۔

جسٹس سہنا کے استعفے کی کہانی کا آغاز ستمبر 2014 ء میں ہوا، جب حکمران جماعت نے 16 ویں آئینی ترمیم متعارف کروائی، جس کے تحت پارلیمنٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر ججز کو برخاست کرسکتی ہے۔ مئی2016 ء میں ایک خصوصی ہائی کورٹ بینچ نے اس ترمیم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔جنوری 2017ء میں حکومت نے اِس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا، مگر جسٹس سہنا کی قیادت میں سات رُکنی بینچ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، جس پر وزیرِ اعظم، حسینہ واجد غصّے میں آگئیں اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلا دیشی پارلیمان نے ستمبر 2017 ء میں عدلیہ کا فیصلہ منسوخ کرنے کی قرارداد منظور کی۔ اس کے بعد اکتوبر2017ء میں جسٹس سہنا ایک مہینے کی رخصت پر آسٹریلیا چلے گئے اور جسٹس عبدالوہاب میاں نے قائم مقام چیف جسٹس کا عُہدہ سنبھالا۔اس کے چند دن بعد ہی نئے چیف جسٹس نے رنگ بدلا اور جسٹس سہنا کے خلاف ایک چارج شیٹ جاری کردی، جس کے مطابق وہ خورد بُرد اور غبن میں ملوّث تھے۔ علاوہ ازیں، اُن پر کچھ اخلاقی الزامات بھی لگائے گئے۔

اطلاعات کے مطابق، بنگلا دیش کے صدر، عبدالحامد نے چار ججز کو دستاویزی ثبوت فراہم کیے تھے۔ جسٹس سہنا کو ویسے بھی جنوری2018 ء میں ریٹائر ہوجانا تھا، شاید اِسی لیے اُنہوں نے مقدمہ لڑنے کی بجائے صدر کو استعفا بھیج دیا۔ یہ تقریباً ویسے ہی حالات تھے، جن میں پاکستان کے تیرہویں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف 1997 ء میں اُن کے برادر ججز نے ایکشن لے کر برطرف کردیا تھا۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی کی قیادت میں دس رُکنی بینچ نے جسٹس اجمل میاں کو نیا چیف جسٹس مقرّر کیا تھا۔جولائی2019 ء میں بنگلا دیش کے انسدادِ بدعنوانی کمیشن نے سابق چیف جسٹس سہنا کو 2016 ء میں چار کروڑ ٹکے کی بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا، جسے کینیڈا میں مقیم جسٹس سہنا نے مسترد کردیا۔

مختصر یہ کہ بنگلا دیش کی عدالتی تاریخ پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، جہاں فوجی بغاوتوں کو عدلیہ نے تحفّظ فراہم کیا اور سویلین حکومتوں کے خلاف فیصلے دیے، مگر پاکستان میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دَور سے انتظامیہ کے خلاف جانے کے جس رُجحان نے فروغ پایا ہے، وہ بنگلا دیش میں نیا ہے۔ ایسے میں صحیح اور غلط فیصلہ خاصا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ نہ تو انتظامیہ معصوم ہوتی ہے اور پھر خود عدلیہ بھی عام طور پر غیر جانب داری اور شفّافیت کا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔