سید مسعود الحسن تابش دہلوی

September 20, 2020

؎تھپیڑے وقت کے کتنے سبق آموز ہوتے ہیں.....زمانہ بھی تو کارِ سیلیٔ استاد کرتا ہے۔ اس سدا بہار شعر اور ایسے دیگر بہت سے اشعار کے خالق سیّد مسعود الحسن تابشؔ دہلوی ،سیّد ثناءالحسن کے بیٹے، مولوی عنایت اللہ کے پوتے اور مولوی ذکاءاللہ کے نواسے تھے۔ اُن کے پردادا نظام الدین نظامی شعروادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ معروف تذکرہ نگار، نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ سے نظام الدین نظامی ؔکے قریبی مراسم تھے۔

تابشؔ دہلوی کے نانا مولوی عنایت اللہ اور پرنانا مولوی ذکاء اللہ دارالترجمہ حیدر آباددکن کی معروف شخصیات میں سے تھے۔ تابشؔ دہلوی کی دوسری شریکِ حیات رشتے کے اعتبارسے غالب کی بھانجی لگتی تھیں۔ یوں تابشؔ کے دَدھیال، ننھیال اور سسرال کا اردو شعروادب سےگہرا تعلق رہا اور اُن کی سخن وَری میں ان تینوں کے خونِ جگر، فکرِ رسا اور اندازِ بیاں کی آمیزش ہوگئی۔ 9نومبر1911ء ،دہلی کی مردم خیز زمین میں سیّدمسعود الحسن نے سیّدثناء الحسن کے گھر آنکھ کھولی اور جمعرات 23ستمبر 2004ء کو 93برس کی عُمر میںکراچی میں وفات پائی۔ قرآن مجید اور عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم دہلی ہی سے حاصل کی۔ بارہ برس کی عُمر میں انہیں مولوی عنایت اللہ کے پاس حیدر آباد دکن بھیجا گیا۔

23 مارچ 1999ء صدر محمد رفیق تارڑ ، تابش دہلوی کو تمغہ امتیاز سے نواز رہے ہیں

وہاں ایک معروف اسکول ’’دارالعلوم‘‘ میں آٹھویں جماعت میں داخلہ ملا۔ نویں اور دسویں جماعت کی تعلیم دہلی کے ایک ہائی اسکول سے حاصل کی۔میٹرک کے بعد ناموافق گھریلو حالات کے باعث تعلیمی سلسلہ قدرے جمود کا شکار ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 17ستمبر 1949ء کو ہجرت کرکے پاکستان آئے اور جامعہ کراچی سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ تابش ؔ دہلوی نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی 28سال کی عُمر میں1939ء میں عرب سرائے (دہلی) کے ایک سیّد گھرانے میں انجام پائی، لیکن پانچ سال بعد ہی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ دوسری شادی 1946ء میں نواب طالع یار خان کی پوتی اور نواب افضل یار خان کی صاحب زادی سے کی۔

ڈاکٹر اسلم فرخی نے تابش ؔ دہلوی کا خاکہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے،’’لمبا قد، بڑی بڑی روشن آنکھیں، ستواں ناک، چوڑی پیشانی، مُسکراتا کتابی چہرہ، چال ڈھال میں وقار، جامہ زیب لباس، غیر معمولی نفاست،کپڑے عارفِ کامل کے دل کی طرح بے داغ،کوئی سلوٹ، نہ شکن۔ممتاز افسانہ نگار،صادق الخیری مرحوم کہا کرتے، ’’تابش! کیا تم کپڑے پہننے کے بعد استری کرواتے ہو؟‘‘ تابش ؔ دہلوی، غزل کا اوّلین شعر میٹرک سے قبل کہہ چکے تھے اور ابتدا میں اُن کا تخلّص مسعود تھا۔

ڈاکٹر انور سدید نے اپنے ایک مضمون میں لکھا،’’تابش نے غزل کا پہلا شعر 1924ء میں کہا۔ اُس وقت اُن کی عمر 13برس اور تخلّص مسعود تھا۔‘‘ اُن کی پہلی نظم’’دلّی‘‘1930ء میں معروف ادبی ماہنامے ’’ساقی‘‘ میں شایع ہوئی۔ اس ماہنامے کے ایڈیٹر معروف ادیب، شاہد احمد دہلوی تھے۔ یوں انہوںنے 19 برس کی عمر میں پہلی نظم اور22 برس کی عمر میں پہلی غزل کہی۔ تابشؔ دہلوی کی پہلی مطبوعہ نظم پڑھ کرمیر ناصر علی مرحوم نے ماہنامہ ’’ساقی‘‘ کے ایڈیٹر، شاہد احمد دہلوی سے کہا کہ ’’اِن شاء اللہ یہ بچّہ ایک بڑا شاعر بنے گا۔‘‘ تابش دہلوی زبان و بیان دونوں میں دہلی کی مستند اور ٹکسالی زبان کے مظہر تھے اور شاعری میں تمام لسانی محاسن کا خیال رکھتے۔

وہ سنِ بلوغت سے قبل ہی اردو زبان و لہجے سے آشنا ہوچکے تھے کہ اُن کے لسانی شعور کو ارتقا و تہذیب سے آشنا و آراستہ کرنے میں اُن کی والدہ کا بڑا کردار اتھا۔ وہ فصاحت و بلاغت سے آشنا، ادبی مزاج و معلومات رکھنے والی خاتون تھیں، جنہیںہزاروں اشعار ازبر تھے۔ ضرب الامثال، محاورے، فارسی کے فقرے ان کے نوکِ زبان پر ہوتے۔ ان ہی کی سخت تربیت کے زیرِ اثر تابش زبان کی صحت اور طریقِ استعمال کے سلسلے میں خاصے سخت گیر واقع ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی نے لکھا، ’’تابش صاحب زبان کی صحت سے متعلق نہایت سخت گیر اور روایت پرست ہیں۔وہ اُن دو تین آدمیوں میں سے ہیں، جنہیں میں ’’دلّی کا لہجہ‘‘ قراردیتا ہوں۔‘‘

تابش ؔدہلوی نے 1941ء میں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کی۔ ممتاز ادیب، براڈکاسٹر، پطرس بخاری نے اُن کا آڈیشن لیا۔ 1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا، تو وہ بھی شعبۂ خبر کے ساتھ لاہور منتقل ہوگئے۔1947ء سے 1950ء تک لاہور ریڈیو اسٹیشن کے شعبۂ خبر سے خبریں پڑھتے رہے۔1951ء میں جب ریڈیو اسٹیشن بندر روڈ، کراچی منتقل ہوا، تو لاہور سے ریڈیو پاکستان کا شعبۂ خبر بھی کراچی منتقل کردیا گیا اور یوں تابش ؔ بھی کراچی کے ہورہے۔ یعنی 1941ء سے 1963ء تک اورقبلِ ازیں آل انڈیا ریڈیو سے، تو یوں مسلسل 23 سال خبریں پڑھتے رہے۔ 1938ء کے بعد انہوں نے مشاعرہ پڑھنا شروع کیا۔ اس سے قبل مشاعروں میں محض سامع بن کر اساتذۂ فن کے فنی اظہار و بیان کے انداز و اسالیب کا بغور مشاہدہ کرتے، سیکھتے اور سنتے رہے۔

مشاعروں کی جو تفصیل انہوں نے بیان کی ہے، اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تابش نے ان مشاعروں کو ایک عام سامع کے طور پر نہیں، بلکہ ایک تہذیبی و ادبی روایت کے سچّے پکّے عاشق و شائق کے طور پر سماعت کیا۔ فانی ؔ بدایونی، جگرؔ مراد آبادی، جوشؔ ملیح آبادی اور نظمؔ طباطبائی جیسے اساتذئہ فن کے اعزاز میں منعقد کیے جانے والے مشاعروں میں تابشؔنے سراپا گوش بن کر شرکت کی۔

انہیں فانیؔ بدیوانی، ہوشؔ بلگرامی، نظمؔ طباطبائی، مولوی عنایت اللہ، مرزا ہادی رسواؔ، مرزا فرحت اللہ بیگ، مرزا یاس یگانہؔ اور حیرتؔ بدایونی جیسی قدر آور شعری شخصیات اور ماہرینِ فن کو بلاواسطہ دیکھنے، سننے اور سمجھنے کے مواقع نصیب ہوئے اور وہ ان کی صحبتوں سے کس قدر فیض یاب ہوئے، اس بات کا اندازہ ان کی یادداشتوں پرمشتمل نثری کتاب ’’دید باز دید‘‘ میں شامل خاکوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ حیدر آباد دکن میں قیام کے دوران تابشؔ، فانیؔ بدایونی کے بہت قریب رہے۔ان میں استاد، شاگرد کا رشتہ روز بروز مستحکم ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا معمول بن گیا۔

تابش خود لکھتے ہیں، ’’جس دن مَیں نہ جاتا، وہ خود میرے یہاں تشریف لے آتے۔‘‘ تابشؔ پر ادب کی جن قدر آور اور مستند شخصیات کا اثر نظر آتا ہے، ان میں میر تقی میرؔ، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ، جگر مراد آبادی، جوشؔ ملیح آبادی، یاس یگانہؔ اور فانیؔ بدایونی کے نام شامل ہیں۔ مگر فانیؔ اور تابش کے درمیان چوں کہ زمانی و مکانی فاصلے مفقود تھے، اس لیے سب سے زیادہ اثرات فانیؔ بدایونی سے قبول کیے۔ ڈاکٹر انور سدید نے اپنے ایک مضمون ’’پاکستان میں اردو غزل کے عناصرِ اربعہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’پاکستان میں اردو غزل کے عناصرِ اربعہ میں تابش دہلوی کا شمار اس لیے ضروری ہے کہ انہوں نے اپنا بچپن اردو غزل کے قدیم دیاروں میں گزارا اور عنفوانِ شباب میں جدید غزل کے قرینے میں آئے۔‘‘ قیامِ پاکستان سے قبل آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کے دوران چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، فیض احمد فیض، مولانا حامد علی خاں، مختار صدیقی، خلیل الرحمٰن اور ضیاجالندھری جیسے شعراء سے قربت رہی۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی کے توسّط سے اُن کی شناسائی میرا جی اور ن۔م۔ راشد جیسے جدید اور مشہور فن کاروں سے بھی ہوئی۔ مِیراؔ جی کے توسّط سے تابشؔ اردو کے کئی بڑے ادیبوں سے مراسم ہوگئے اوراُن کے ساتھ مل بیٹھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

تابش ؔدہلوی نے نظم، حمد، نعت، ملّی نغمے، قصیدے، مرثیے، ہائیکو وغیرہ پر اچھی خاصی طبع آزمائی کی، لیکن اُن کے یہاں غزلیات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے پیشِ نظر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اُن کا بنیادی میلان غزل کی جانب رہا۔ تاہم، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اُن کا میدانِ فن محض غزل ہے۔ اُن کی نعتیں، نظمیں اور نثرنگاری اس بات کی کھلی گواہی ہیں کہ وہ نعت، منقبت، نظم اور نثر لکھنے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ غزل کو انہوں نے شاعری کی اعلیٰ ترین صنف قرار دیتے ہوئے لکھا، ’’صرف غزل ہی میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی غرض ان تمام شعبہ ہائے حیات کو جن کا تعلق انسان اور کائنات کے رشتوں سے ہے،اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے اور پھر ان سے پیدا ہونے والے جذبات اور احساسات کو لبِ اظہار بخشتی ہے۔

موجودہ اردو غزل کی ترقی کو کسی ایک تحریک، مکتبۂ خیال یا کسی ایک شخصیت سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ترقی میں دلّی یا لکھنؤ ہی کے مکتبہ شاعری کا ہاتھ نہیں، بلکہ ہر وہ خطّہ زمین جہاں اردو کا راج ہے، شامل ہے۔‘‘ ایک غزل گو کا کمال یہ ہے کہ وہ قلبی واردات و احساسات اور سیلِ فکرو احساس کو فنی تہذیب و طہارت کے ساتھ ایسا اظہار دے کہ الفاظ کے انتخاب وبندش اور مضمون و ادائی میں کہیں بھی سفلی جذبات کو راہ نہ ملے۔ یہ فن بہت سنجیدہ ریاضت کا تقاضا کرتاہے۔بقول ناصر کاظمی؎ کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ.....یہ قافیہ پیمائی ذرا کرکے تو دیکھو۔ تو تابش ہر حال میں اس پرمعیار پر با آسانی اور بخوبی پورے اترے۔ بقول تابش؎ شعر میرے کیوں نہ پہلو دار ہوں تابش .....کہ میں ہم وطن ہوں میرزا کا، معتقد ہوں میرؔ کا۔اسی لیے ڈاکٹر انور سدید نے لکھا ’’اِس وقت تابش دہلوی واحد شاعر ہیں، جن کی غزل میں دو زمانوں کا ایسا امتزاج اور قدیم و جدید کا ایسا ادغام ہے، جو فطری انداز میں عمل میں آیا ہے اور جس کی ابتدا لاشعور کے تخلیقی سرچشموں سے ہوتی ہے۔‘‘ تابش کے تین خوب صورت مجموعہ غزلیات کے علاوہ مجموعہ نظم، حمد، نعت، سلام، مرثیہ اور کلیاتِ نظم و نثر اور یادداشتوں، ادبی مضامین کے مجموعے بھی سامنے آئے۔ متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازے گئے۔

روایت و جدّت کے حَسین امتزاج کا یہ شاعر اور نثر لکھنے میں یدِ طولیٰ رکھنے والا 23ستمبر 2004 ءکو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔تاہم، ان کے کلام کی تازگی اور ندرت آج بھی برقرار ہے۔

تابش دہلوی کے چند خُوب صُورت اشعار .....

؎تقدّس جب نہ ہو، رشتوں کا باقی..... تو پھر نا آشنا کیا ، آشنا کیا؟؎اس خاک و خوں میں اہلِ کراچی کا درد مند.....شاعر، ادیب کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں۔؎کیا تھا خلد میں ابلیس نے آدم کو گم راہ..... اب آدم زاد کو گم راہ آدم زاد کرتا ہے۔؎موج و گرداب کی سیاست میں.....نا خدا ناخدا سے ڈرتا ہے۔؎طریقے ظلم کے صیّاد نے سارے بدل ڈالے.....جو طائر اُڑ نہیں سکتا، اُسے آزاد کرتا ہے۔؎کسی کے مرمریں پیکر میں ڈھل کر.....کوئی حسرت نکلنا چاہتی ہے۔؎اس زمانے کی دوستی تابش.....آگے حدِ ادب ہے،کیا کہیے۔

(مضمون نگار، نوجوان مصنّف اور شاعر ہیں۔ حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد نے ان کی کتاب ’’تابش دہلوی، شخصیت اور فن ‘‘شایع کی ہے۔)