یادداشت کی کمزوری، صرف عُمر کا تقاضا نہیں

September 20, 2020

ہر سال21ستمبر کوبین الاقوامی تنظیم، ’’الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل‘‘ کے زیرِ اہتمام’’الزائمر کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس عارضے سے متعلق ہر خاص وعام تک معلومات فراہم کرنا ہے، تاکہ مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پایا جاسکے۔ امسال اس یوم کا تھیم ہے، ’’آئیے !الزائمرکے متعلق بات کریں‘‘۔ واضح رہے کہ یہ تھیم عالمی ادارۂ صحت کے الزائمر سے متعلق گلوبل پلان کےتحت مقرر کیا گیا ہے۔

دراصل پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں اس مرض میں مبتلاافراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو ماہرین کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں حافظے کی کم زوری سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ ہے ۔ الزائمرڈیزیز انٹرنیشنل فیڈریشن کی حال ہی میںجاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھرمیں ہر تین میں سے دو افراد کی یادداشت کسی نہ کسی حد تک متاثرہورہی ہے اور اگریہی شرح برقرار رہی، تو2050ء تک15کروڑ2لاکھ(152ملین) افراد حافظے کی کم زوری کا شکار ہوجائیں گے،جن میںسے68فی صد کا تعلق کم آمدنی والے مُمالک سے ہوگا۔ اگر پاکستان کی بات کریں تواس مرض سے متعلق باقاعدہ طور پرتو کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں، مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً پانچ سے سات لاکھ افرادالزائمر کا شکار ہیں۔

الزائمر، جو ڈیمینشیا (نسیان)ہی کی ایک قسم ہے،ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے، جس میں یادداشت کے نظام کےخلیے بتدریج ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس کے باعث دماغ کے وہ حصّے، جن کا تعلق حافظے، سوجھ بوجھ اور شخصیت سازی سے ہوتا ہے، متاثر ہوجاتے ہیں۔اس مرض میں مبتلامریضوں کی نہ صرف یادداشت ختم ہونے لگتی ہے،بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی خلل واقع ہوتا ہے۔ یہ مرض زیادہ تر عُمر رسیدہ افراد ہی کو متاثر کرتا ہے۔ خاص طورپر 60سے 70برس کی عُمر کے افراد اس کی لپیٹ میں جلد آجاتے ہیں۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حافظے یعنی یادداشت کی کم زوری کو بڑھاپے کی علامت سمجھا جاتا ہے،جس کے باعث اسےبہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، حالاں کہ یہ ایک دماغی مرض ہے،نہ کہ بڑھاپے کی بیماری۔

جہاں تک الزائمر کی وجوہ کا تعلق ہے، تو، اس ضمن میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے ، لیکن تاحال مرض میں مبتلا ہونے کی درست وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔تاہم،اب تک جو تحقیقات ہوئی ہیں،اُن کے مطابق وٹامن بی 12کی کمی، ذیابطیس، فالج، نیند کی کمی، نیند آور، اینٹی ڈیپریسنٹ اور سردرد کی ادویہ اور صحت مندانہ سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث یہ بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔علاوہ ازیں، نوجوانوں میں دیر سے سونا، جاگنا، متوازن غذا استعمال نہ کرنا اور جسمانی و ذہنی سرگرمیوں سے دُوری حافظے کی کم زوری کا سبب بن سکتی ہے، تو بعض کیسز میں مستقل افسردگی ،مایوسی، تنہائی اور ذہنی تناؤ کے نتیجے میں بھی قوّتِ یادداشت جلد متاثر ہوجاتی ہے۔

اسی طرح بُلند فشارِ خون بھی الزائمر کا باعث بن سکتا ہے، کیوں کہ مستقل خون کا دباؤ بڑھے رہنے کے باعث خون دماغ کی رگوں میں جم جاتا ہے، جس کے باعث دماغ اپنے افعال درست طور پر انجام نہیں دے پاتا، تونتیجتاً یادداشت کم زور ہوجاتی ہے،جب کہ بے خوابی کی شکایت، صُبح اُٹھ کر سَر درد ہونا، بوجھل پَن محسوس ہونا، سوتے میں سانس پُھولنا، خرّاٹے لینا بھی قوّتِ یادداشت کی کم زوری کی واضح علامات اور وجوہ ہوسکتی ہیں۔واضح رہے کہ جو افراد زیادہ سوچ بچار، دماغ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور باقاعدہ ورزش کو معمولات میں شامل رکھتے ہیں، ان میں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر پائے جاتے ہیں۔

الزائمر کی ابتدائی علامات میں شخصیت میں تبدیلی، یادداشت میں کمی اور روزمرّہ امور انجام دینے میں دشواری محسوس ہونا شامل ہیں۔ جب علامات کی شدّت میں اضافہ ہونے کی صُورت میں مریض اپنی ذاتی صفائی ستھرائی، کھاناپینا حتیٰ کہ روز مرّہ معمولات بھی بھولنے لگتاہے ۔کہیں آنے جانے کے راستے، حتیٰ کہ اپنے گھر کا پتا تک یا دنہیں رہتا۔ حافظے میں اس قدر کمی واقع ہوجاتی ہے کہ قریبی رشتے داروں کے چہرے اور نام تک یاد نہیں رہتے۔اس صُورت میں مریض کا بہت زیادہ خیال رکھا جائے۔ علاوہ ازیں، چڑچڑاپن، ڈیپریشن اور ماحول سے بے زاری یا لاتعلقی جیسی علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

نیز،کئی امور مثلاً تحریر اور ڈرائینگ وغیرہ میں دشواری پیش آنے لگتی ہے۔یاد رہے، الزائمر میں مبتلا فرد کے معمولاتِ زندگی، مزاج اور رویّے میں ابتداً چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،لیکن اگر اُن پر بروقت توجّہ نہ دی جائے، تو یہ نہ صرف بڑھنے لگتی ہیں، بلکہ الزائمر کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ۔ہمارے مُلک میںچوں کہ 60سال سے زائد عُمر کے تقریباً10فی صد افراد حافظے کی کم زوری کا شکار ہیں، تو ابتدا ہی میں مرض کی تشخیص بہت ضروری ہے۔ اگرچہ الزائمرسے مکمل طور پر چھٹکارا ممکن نہیں، لیکن بروقت تشخیص اس مرض کی پیچیدگیوں اوربڑھنے کی رفتار کم کرسکتی ہے۔ مرض کی تشخیص کے لیے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی ، پیٹ اسکین کے علاوہ مریض اور اہلِ خانہ سے معلومات حاصل کی جاتی ہے۔

نیز، ایسی مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کا استعمال مریضوں کے لیے روزمرّہ زندگی کے معاملات آسان کر دیتا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کوئی دوا ہرگز استعمال نہ کی جائے۔ اس کے علاوہ سماجی سرگرمیاں بھی مریض کی ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔الزائمر سے متاثرہ مریض چوں کہ نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، لہٰذا ان کے نفسیاتی مسائل کا علاج بھی ہونا چاہیے، تاکہ انھیں ایک کارآمد زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

ڈیپریشن بڑھتی ہوئی عُمر کے افراد میں سب سے بڑی نفسیاتی بیماری کے طور پر سامنے آیا ہے۔اگر کوئی فرد ڈیپریش کا شکار ہو، تو بہتر یہی ہے کہ جدید ادویہ اور ماحول کی تبدیلی کے ذریعے علاج کروالیا جائے،تاکہ متاثرہ افراد کو اہلِ خانہ اور معاشرے پر بوجھ بننے سے بچایا جا سکے۔ مشاہدے میں ہے کہ ڈیمینشیا کے مریض،خاص طور پر عُمر رسیدہ والدین بعض اوقات بہت زیادہ تکلیف دہ رویّے کا مظاہرہ کرتے ہیں ،مگر اس معاملےمیں ان کی دیکھ بھال کرنے والے افرادکوبہت صبرو استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ایسے مریضوں کو صُبح کے اوقات میں تازہ ہوا اور بدلتے موسموں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کر کے ان کی ذہنی حالت میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔مرض سے محفوظ رہنے کے لیے متوازن غذا استعمال کی جائے،خاص طور پر سبزیوں اور سلاد کا زیادہ استعمال کریں، ورزش کو اپنا معمول بنالیں، تمباکونوشی سے اجتناب برتیں، دماغی نشوونما کے لیے مطالعہ اور ایسی سرگرمیاں اپنائی جائیں، جن سے دماغ متحرک رہے۔

ہمارے یہاں زیادہ تر افراد کی طبّی سہولتوں تک آسان اور بروقت رسائی ممکن نہیں، اس لیے علاج سے قبل آگاہی کی ضرورت و اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ڈیمینشیا میں مبتلا افراد اس حوالے سے زیادہ مشکل صُورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں کہ ان کی ابتدائی علامات کو نہ صرف بڑھاپے کی نشانی سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے،بلکہ طبّی دیکھ بھال کی جانب بھی توجّہ نہیں دی جاتی،لہٰذا ا جن افراد میں مذکورہ بالا علامات پائی جائیں،اُنہیں ان کے حال پر چھوڑنے کی بجائےفوری معالج سے رجوع کیا جائے۔ یقیناً ایسے مریضوں کی نگہداشت اہلِ خانہ اور قریبی رشتے داروں پر ایک بہت بڑی ذمّے داری ہے،لیکن حکومت اور نجی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی اس بیماری سے متعلق معلومات عام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

(مضمون نگار،لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹیسٹری، کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نیورولوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں)