کراچی کی تباہی سے کسی نے سبق سیکھا؟؟

September 20, 2020

رواں برس کراچی میں ہونے والی تباہ کُن بارشوں نے1977ء کا سیلاب یاد دلا دیا، جس کے دَوران شہر کئی روز تک پانی میں ڈوبا رہا۔30 جون 1977ء کو کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں207 ملی میٹر یا 8 انچ بارش ہوئی، جس کے سبب بپھرا پانی ملیر اور لیاری ندی کے ساتھ ساتھ شہر بھر کے نالوں سے آبادیوں میں داخل ہوگیا۔اُن بارشوں اور سیلاب نے350 افراد کی زندگیوں کا چراغ گُل کیا۔ عوام سمجھتے ہیں کہ قدرتی آفات اپنی جگہ، لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں میں حکومتوں کی نااہلی اور کوتاہیوں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، جسے وہ’’ MAN MADE CATASTROPHES‘‘کا نام دیتے ہیں۔ چناں چہ 1977ء کی سیلابی بارشوں سے ہونے والی تباہی پر بھی عوام اور میڈیا نے کُھل کر حکومت پر تنقید کی۔ کراچی کے ایک موقر اخبار نے جلی سُرخیوں میں لکھا’’ کراچی کی یہ بارشیں ذوالفقار علی بھٹّو کو لے ڈوبیں‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔

ان تباہ کن بارشوں کے چند ہی روز بعد جنرل ضیاء الحق نے بھٹّو حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ ایک اور تجزیہ نگار نے لکھا’’ قدرتی آفات نے ہمیشہ حکومتوں کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا، کیوں کہ لوگ قدرتی آفات کے ہاتھوں اِتنا نہیں مرتے، جتنا کہ حکومتوں کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی سے۔‘‘ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ 1970ء میں مشرقی پاکستان میں آنے والا سیلاب بھی اُس کی پاکستان سے علیٰحدگی کا ایک اہم سبب بنا، کیوں کہ 5 لاکھ افراد کی ہلاکت اور85 فی صد حصّہ متاثر ہونے پر مشرقی پاکستان کے عوام مرکزی حکومت کے خلاف ہوگئے تھے۔ اگرچہ حالیہ بارشوں میں چاروں صوبوں کی دیہی اور شہری آبادیاں متاثر ہوئیں، لیکن دو کروڑ سے زاید آبادی پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا، دنیا کا ساتواں اور نیویارک سے تین گنا بڑا شہر، کراچی مقامی اور بین الاقوامی خبروں کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔

یہاں بارشوں کا 100 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ درجنوں افراد جاں بحق، جب کہ شہری املاک کو اربوں کا نقصان پہنچا۔ ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے مون سون کی ہوائیں خلیجِ بنگال اور بحیرۂ عرب کی فضاؤں میں طوفانی سسٹم کی شکل اختیار کرنے کے بعد سب سے پہلے اسی شہر کا رُخ کرتی ہیں۔ تاہم، مون سون کی یہ ستم ظریفیاں یہاں پہلی بار دیکھنے میں نہیں آئیں۔ 1977ء، 2009ء اور 2010ء میں بھی اہلِ کراچی نے قیامت کے سے مناظر دیکھے تھے۔البتہ یہ اور بات ہے کہ اِس شہر پر برسوں سے حکم رانی کرنے والوں نے مون سون کی تباہ کاریوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور 2020ء میں بھی صاحبانِ اقتدار اور اپوزیشن جماعتوں کا یہی رویّہ دیکھنے میں آیا۔ ایک طرف بارش اپنے تیور دِکھا رہی تھی، تو دوسری طرف، حکم ران اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا محاذ کھولے بیٹھے تھے۔

کئی روز کے انتظار کے بعد وزیرِ اعظم، عمران خان کراچی پہنچے اور وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ پریس کانفرنس میں شہر کی تعمیر وترقّی کے لیے 1300 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا، مگر ابھی اس اعلان کی گونج ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ پیکیج میں حصّے داری پر وفاق اور سندھ میں بیان بازی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے دھواں دار پریس کانفرنسز کی گئیں، جن میں سب ہی کاغذات لہراتے رہے،جب کہ حیران و پریشان عوام ان کے چہرے تک رہے ہیں کہ کیا یہی لوگ کراچی کو ترقّی کی راہ پر ڈالیں گے؟

کراچی کے مسائل ایک ایسے اُلجھے دھاگے کی مانند ہیں، جس کا سِرا کسی کے ہاتھ نہیں آرہا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زمانے میں’’ عروس البلاد‘‘ اور’’ روشنیوں کا شہر‘‘ کہلانے والا شہر اب ٹینکر مافیا، کچرا مافیا، بھتّہ مافیا، لینڈ مافیا، تجاوزات مافیا، گینگز اور نہ جانے کن کن کی لپیٹ میں ہے۔ تاہم، اِتنے گھائو لگنے کے باوجود کراچی نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رنگ ونسل، مذہب، زبان، ذات برادری کا امتیاز کیے بغیر پاکستان کے ہر صوبے سے روزی روٹی کمانے والوں کو خوش آمدید کہا۔ یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت جس شہر کی آبادی صرف ساڑھے چار لاکھ تھی، 1951ء میں 10لاکھ اور پھر ہر سال80 فی صدکے حساب سے بڑھتی رہی۔

آج کراچی 1947ء کے مقابلے میں 60 گُنا بڑھ چُکا ہے اور آبادی تین کروڑ کو چُھو رہی ہے۔ اس وقت یہ ڈیڑھ سو ممالک سے زیادہ آبادی رکھنے والا شہر ہے اور ایک اندازے کے مطابق، ہر ماہ 45 ہزار سے زائد افراد قسمت آزمائی کے لیے کراچی کا رُخ کرتے ہیں۔ اسے مختلف ثقافتوں، قومیتوں، تہذیبوں کی ابلتی ہوئی کیتلی (MELTING POT) بھی کہا جاتا ہے۔ مُلک بھر سے آنے والوں کو اپنے اندر سمونے کے لیے کراچی کو ایک مؤثر، جدید ترین انفراسٹرکچر، جدید ماسٹر پلان، ٹائون پلاننگ اور مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت تھی، لیکن گزشتہ نصف صدی سے حکومت کرنے والی جماعتوں نے عوام کے مسائل پر توجّہ دینے کی بجائے صرف ذاتی سیاسی مفادات اور مال پانی بنانے ہی پر توجّہ دی، جس کے نتیجے میں یہ’’ لاوارث شہر‘‘ دنیا بھر میں’’ مسائلستان‘‘ بن کر اُبھرا۔ نالوں پر تجاوازت کی بھرمار، جابجا غلاظت اور کچرے کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بدترین ٹریفک جام، اذیّت ناک لوڈشیڈنگ اور پینے کے پانی کی کمی نے عروس البلاد کا ایسا حلیہ بگاڑا کہ معاملات میں بہتری کے لیے سپریم کورٹ تک کو بار بار مداخلت کرنا پڑی۔ عدالتِ عظمیٰ نے این ڈی ایم اے کو نالے صاف کرنے، وزیرِ اعظم کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور مقامی حکّام کو تجاوزات کا صفایا کرنے کا حکم جاری کیا، کیوں کہ سندھ حکومت یہ مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچُکی تھی۔

عوامی تاثر بھی یہی ہے کہ اربن سیلاب کا فضائی جائزہ لینے اور کراچی کو آفت زدہ علاقہ قرار دینے کے علاوہ صوبائی حکومت کی کارکردگی صرف دعوئوں اور وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکم ران جماعتیں کراچی کی تعمیر و بہتری کے لیے منظّم ترقیّاتی منصوبے شروع کرتیں، مگر سب ہی نے اسے نظرانداز کیا۔ اس کے ساحل پر موجود سیلابوں کے خلاف قدرتی حفاظتی حصار، جنہیں مینگروز کہا جاتا ہے، ختم کر دیا گیا۔ دوسری طرف، ملیر ندی (جس کا دہانہ آدھا رہ گیا ہے) اور دیگر ندی نالوں پر تجاوزات کے سبب بارشوں کے پانی کے نکاس کے راستے محدود یا مسدود ہو چُکے ہیں،یہی وجہ ہے کہ پانی پوری طرح سمندر میں نہیں گر پاتا۔

پھر افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ جب کبھی کسی ایشو پر شور مچتا ہے، تو نمائشی اقدامات کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس صُورتِ حال کی بنیاد پر ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ’’ایسے نمائشی اقدامات سے ممکن ہے، اشرافیہ اور لینڈ مافیا کو فائدہ ہو، لیکن جب ندی نالوں کا گلا گھونٹیں گے، تو مون سون میں یہ امیر اور غریب کی تفریق کیے بغیر سب کو لے ڈوبیں گے۔‘‘ غالباً انہی حالات کے پیشِ نظر عالمی بینک نے اپنی 2018ء کی رپورٹ میں کہا تھا کہ’’ کراچی کو ٹھیک کرنے کے لیے 10برس کا عرصہ اور کم از کم 10ارب ڈالرز درکار ہیں۔‘‘

کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشوں نے اس شہر پر حکومت کرنے والوں کی کارکردگی کی قلعی کھولی، تو سب ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے لگے۔ حتیٰ کہ کراچی کے 38 بڑے اور500 چھوٹے نالوں کی صفائی کے معاملے پر بھی لفظی گولا باری شروع ہوئی، جو ابھی تک جاری ہے۔ کراچی کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس شہر کی دیکھ بھال کے لیے 40,30 سے زاید محکمے پورے لائو لشکر کے ساتھ موجود ہیں، لیکن ان میں یونٹی آف کمانڈ (UNITY OF COMMAND) یا مرکزیت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے ہر ادارہ شتر بے مہار کی طرح کام کررہا ہے۔

دوسرے الفاظ میں کراچی کے دعوے دار تو بہت ہیں، لیکن وارث کوئی نہیں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا ریونیو، بمبئی کے55 ارب روپے کے مقابلے میں صرف ڈیڑھ ارب اکٹھا ہوتا ہے اور سابق میئر وسیم اختر کے بقول، ملازمین کو تن خواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ کراچی پر آفرین ہے کہ اختیارات کی جنگ اور مسائل کی دلدل میں پھنسے ہونے کے باوجود مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصّہ 114 بلین ڈالرز ہے۔ یہ وفاق کو 65 فی صد اور سندھ کو 95 فی صد ریونیو دیتا ہے۔

کمائو پوت ہونے کے باوجود کراچی کا پہلا ماسٹر پلان 1977ء میں بنا ، پھر 2004ء میں ایک بار پھر ماسٹر پلان بنایا گیا، لیکن منظور نہ ہوسکا۔ اِس وقت کراچی کو جہاں ایک نئے اور جدید ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، وہیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی ایک دوسرے کو کوسنے دینے کی بجائے ذاتی، گروہی اور سیاسی مفادات بالائے طاق رکھ کر کراچی کی کھوئی رونقیں واپس لانے کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ گزشتہ 60,50 برسوں میں 4000 مربع کلومیٹر پر محیط کراچی نے بہت دُکھ اُٹھائے ہیں اور اس کا انچ انچ زخم خوردہ ہے۔ اب بھی اگر بڑے آپریشن کی بجائے صرف اوپر اوپر ہی سے اس کی مرہم پٹّی کی گئی، تو آنے والی مون سون بارشیں پھر سے اس ’’میگا سٹی‘‘ کا بھرم کھول دیں گی۔

سیلابوں کے ’’میزبان‘‘ ہالینڈ ہی سے کچھ سیکھ لیں

سمندروں کے اوپر ہوا کے دبائو اور درجۂ حرارت میں کمی بیشی سے جنم والے موسمی تغیّرات دنیا کے تقریباً تمام ممالک ،بالخصوص ساحلی شہروں کو متاثر کرتے ہیں اور ان سے نپٹنے کے لیے بیش تر ترقّی یافتہ ممالک نے’’ فلڈ واٹر مینجمنٹ‘‘ کے نام سے کئی طریقے ایجاد کرلیے ہیں۔ تاہم، اِس ضمن میں پوری دنیا میں نیدر لینڈ (ہالینڈ) کو جو فوقیت حاصل ہے، وہ کسی اور کو نہیں۔ شمال مغربی یورپ میں واقع ایک کروڑ، 74 لاکھ نفوس پر مشتمل اس مُلک کا دوتہائی سطحِ سمندر سے قدرے نیچے واقع ہے، جس کے نتیجے میں یہ صدیوں سے سمندر کی طوفانی لہروں اور سیلابی پانی کی زَد میں ہے۔ ہالینڈ والوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سیلابوں کی گود میں آنکھ کھولتے ہیں اور تمام عُمر ان کے ساتھ گزارتے ہیں۔

ہالینڈ کے آئین میں درج ہے کہ حکومت اپنے عوام کی سیلابوں سے حفاظت کرے گی۔ 1287ء کےسیلاب، جس میں 50 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اُس کے بعد آنے والے سیلابوں نے ہالینڈ کو اس قدرتی آفت سے نپٹنے کے لیے ایسا سبق سِکھایا، جو اب دنیا کے لیے مثال بن چُکا ہے۔ ہالینڈ کے ماہرین نے منصوبہ بنایا کہ’’ سمندری لہروں سے لڑنا نہیں، بلکہ اُنہیں اپنا دوست بناکر ان سے مفید کام لینا ہے۔‘‘ چناں چہ آہنی حفاظتی پُشتوں کی تعمیر، سیلابی پانی کے اخراج کے لیے پمپنگ اسٹیشنز، پن چکیوں کا خود کار نظام اور واٹر مینجمنٹ کے دیگر درجنوں اقدامات کی بدولت سیلابی پانیوں کو خود سے دُور رکھنے کی بجائے اسے مختلف چینلز سے مُلک کے اندر لاکر خصوصی جگہوں پر ذخیرہ کیا گیا ہے۔

اس پانی سے فارمنگ کے علاوہ بہت سے دوسرے کام لیے جاتے ہیں۔ گویا باہمّت ماہرین نے سیلاب کی سرکش لہروں کو ایک خاص نظام میں پابند کرکے دوست بنا لیا۔ 2006 ء میں اربوں ڈالرز کے ایک پراجیکٹ ’’ڈیلٹا ورکس‘‘ کے تحت ساحلوں پر40 مختلف انفرا اسٹرکچر تعمیر کیے گئے، جن میں 9ڈیمز اور 4اسٹارم بیریئرز (Storm Barriers)بھی شامل تھے۔ کئی Spongesتعمیر کی گئیں، جو سیلاب کے بعد تفریح کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ سیلابی پانیوں کو خاص مقامات پر جمع کرکے ان کے اوپر تیرتے ڈیری فارمز بنائے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک فارم میں40 گائے اور 6ہزار مرغیاں ہوتی ہیں۔ ہالینڈ کے ماہرین نے ساحلوں کے دلدلی علاقوں کو اس طرح استعمال کیا کہ یہ سیلاب کے خلاف ایک حفاظتی دیوار بن گئے ہیں۔ واٹر مینجمنٹ کے تحت بنائی گئی مصنوعی پہاڑیاں بھی سیلاب کے خلاف ایک آہنی حصار کا کام دیتی ہیں۔

سائنس دانوں نے یہاں کے سیلابی پانی کو محفوظ کرکے جنگلات، سبزیاں اور طرح طرح کے پھول دار پودے بھی اُگائے ہیں۔ شہروں میں نکاسیٔ آب کا ایسا انتظام ہے کہ بارش میں سڑکیں دُھل جاتی ہیں اور ایک انچ پانی کھڑا نہیں ہوتا۔ نیدر لینڈ کی اس واٹر انجینئرنگ کا بنیادی مقصد سیلابی طغیانیوں کو چینلائز کرکے اسے دوست بنانا ہے۔ اُسے سیلابوں اور بارش کے پانی پر قابو پانے میں اس حد تک مہارت حاصل ہوگئی ہے کہ وہ اپنی یہ ٹیکنالوجی مختلف ممالک کو فروخت کرکے سالانہ 5ارب ڈالر کما رہا ہے۔ جب کہ ہالینڈ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اُگائے گئے خُوب صورت پُھولوں، خاص طور پر گلِ لالہ کی برآمد میں دنیا بھر میں سرِفہرست ہے۔