سیرت النبیﷺ (قسط نمبر 4)

September 20, 2020

دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکا ،لودھراں

سَرِیّہ سیف البحر

حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی سربراہی میں 30 مہاجرین کے ایک دستے کو شام سے آنے والے قریش کے تجارتی قافلے کا پتا لگانے کے لیے بھیجا گیا۔اُس قافلے میں ابوجہل سمیت تین سو افراد تھے۔ ساحلِ سمندر پر دونوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ کی تیاری ہونے لگی، لیکن قبیلہ جہینہ کے سردار نے صلح کروا دی۔

سَرِیّہ رابغ

رسول اللہﷺ نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو مہاجرین کے60 سواروں کے ساتھ روانہ فرمایا۔رابغ کی وادی میں ابو سفیان سے سامنا ہوا، جن کے ساتھ دو سو افراد تھے۔اِس دَوران فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلائے۔ پہلا تیر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے پھینکا، جو اسلام کے لیے پھینکا گیا پہلا تیر تھا۔

سَرِیہ خزار

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی کمان میں بیس افراد پر مشتمل ایک دستہ قریش کے قافلے کا پتا لگانے کے لیے بھیجا گیا، جسے تاکید کی گئی کہ خزار سے آگے نہ بڑھے۔یہ دستہ پیدل خزار پہنچا، تو پتا چلا کہ قافلہ ایک دن پہلے ہی وہاں سے نکل چُکا ہے۔

غزوۂ ابواء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ستّر صحابہ کرامؓ کے ساتھ قریش کے ایک قافلے کا راستہ روکنے کے لیے تشریف لے گئے، تاہم آمنا سامنا نہیں ہوا۔اسی سفر کے دَوران قبیلہ بنو ضمرہ سے بھی معاہدہ ہوا، جس کا مقصد دشمن کے خلاف اکٹھا ہونا تھا۔یہ پہلی فوجی مہم تھی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔

غزوۂ بواط

آپ صلی اللہ علیہ وسلّم دو سو صحابہؓ کے ساتھ قریش کے ایک قافلے کا، جس میں امیّہ بن خلف بھی موجود تھا، راستہ روکنے کے لیے بواط تک تشریف لے گئے، لیکن کوئی جھڑپ وغیرہ نہیں ہوئی۔

غزوۂ سفوان یا بدرِ صغریٰ

ربیع الاوّل دو ہجری کو کرز بن جابر چند مشرکین کے ساتھ مدینے کی چراگاہ پر چھاپہ مار کر کچھ جانور ساتھ لے گیا۔ رسول اللہﷺ نے ستّر صحابہ کرامؓ کے ساتھ اُس کا تعاقب کیا، لیکن وہ ہاتھ نہیں آیا۔

غزوئہ ذی العشیرہ

رسول اللہﷺ جمادی الاولیٰ میں قریش کے قافلے کا راستہ روکنے کے لیے ڈیڑھ سو یا دوسو صحابہ کرامؓ کے ساتھ تشریف لے گئے، لیکن وہ قافلہ بچ نکلا۔اسی سفر میں بنو مدلج سے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔

سَرِیّہ نخلہ

رجب دو ہجری میں حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی سرکردگی میں بارہ افراد پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیا۔ آپﷺ نے امیرِ لشکر کو ایک خط دیا اور فرمایا کہ’’ دو دن کے سفر کے بعد خط دیکھیں۔‘‘جب دو دن کی مسافت کے بعد اُنہوں نے خط دیکھا، تو اُس میں لکھا تھا’’ جب تم میری یہ تحریر دیکھو، تو آگے بڑھتے جاؤ، یہاں تک کہ مکّہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں اُترو۔ وہاں قریش کے ایک قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے اس کی خبروں کا پتا لگاؤ۔‘‘ جب اُنہوں نے وہاں جا کر قافلہ دیکھا، تو وہ کشمش، چمڑے اور سامانِ تجارت سے لدا ہوا تھا۔رجب کا مہینہ اُن مہینوں میں سے تھا، جن میں جنگ حرام سمجھی جاتی تھی اور یہ رجب کا آخری دن تھا۔

مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آخر کیا کریں؟ آج رجب کا آخری دن ہے۔ اگر لڑائی کرتے ہیں، تو حرام مہینے کی بے حرمتی ہوتی ہےاور رات بھر رُک جاتے ہیں ،تو یہ لوگ حدودِ حرم میں داخل ہو جائیں گے۔ طے ہوا کہ حملہ کر دیا جائے، چناں چہ مسلمانوں نے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں ایک آدمی قتل ہوا اور دو گرفتار کر لیے گئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو واقعے کا پتا چلا، تو آپﷺ ناراض ہوئے کہ جنگ کا حکم نہیں دیا تھا۔ اُدھر قریش نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمان حرام مہینوں کی حُرمت کا خیال نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں کو رہا کر دیا اور مقتول کا خون بہا دیا۔

غزوۂ بدر

اہلِ مکّہ کی معیشت کا دارومدار تجارت پر تھا اور اُن کی سب سے زیادہ تجارت شام سے ہوتی تھی۔وہاں جانے کے لیے اُنھیں مدینے کے قریب سے گزرنا پڑتا۔ایسا ہی ایک تجارتی قافلہ شام سے واپس آرہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ 313 صحابۂ کرامؓ کے ساتھ اُسے روکنے کے لیے روانہ ہوئے۔ مسلمانوں کے لشکر میں صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے۔کفّارِ مکّہ کے تجارتی قافلے کی سربراہی ابو سفیان کے پاس تھی، جب اُنھیں علم ہوا کہ مسلمان آ رہے ہیں، تو اُنہوں نے قافلے کا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رفتار سوار دوڑایا کہ جا کر مکّے والوں کو حملے کی خبر دے۔

یہ خبر مکّہ پہنچی، تو 1300 افراد قافلے کی مدد کے لیے روانہ ہوئے، جن کے پاس ایک سو گھوڑے، چھے سو زرہیں اور بے شمار اونٹ تھے، جب کہ لشکر کا سپہ سالار ابوجہل تھا۔ تاہم تجارتی قافلہ رستہ بدل کر بچ نکلا۔جب کفّار کو قافلے کے بچ نکلنے کی خبر ملی، تو اکثریت نے واپسی کا ارادہ کیا، لیکن ابوجہل نے کہا’’ ہم تین دن بدر میں قیام کریں گے، اونٹ ذبح کریں گے اور شراب پیئں گے۔‘‘ یعنی فتح کی خوشی منا کر مکّے واپس جائیں گے۔اس پر بنو زہرہ کے تین سو افراد واپس چلے گئے۔رسول اللہﷺ باقاعدہ جنگ کی تیاری سے نہیں آئے تھے۔ مسلمانوں کا مدینے سے نکلنے کا مقصد محض قافلے کا راستہ روکنا تھا، لیکن حالات اچانک خطرناک صُورت اختیار کر گئے، تو آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے اگلے لائحہ عمل کے لیے مشورہ کیا۔حضرت ابوبکرؓ، حضرت عُمرؓ، حضرت مقدادؓ باری باری اُٹھے اور فرمایا’’ اگر آپﷺ جنگ کرنا چاہتے ہیں، تو ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں۔‘‘آپﷺ نے تینوں کی تحسین فرمائی، لیکن آپﷺ انصار کے مشورے کا انتظار کر رہے تھے، کیوں کہ بیعتِ عقبہ ثانی کی رُو سے انصار نے صرف مدینے میں آپﷺ کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔آپﷺ نے پھر فرمایا’’ لوگو! مجھے مشورہ دو‘‘ تو حضرت سعد بن معاذؓ سمجھ گئے کہ آپﷺ کے مخاطب انصار ہیں، اس پر وہ کھڑے ہوئے اور فرمایا’’ اے اللہ کے رسولﷺ! جو آپؐ کا ارادہ ہے، اس کے لیے پیش قدمی کیجیے۔ اُس ذات کی قسم، جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر آپﷺ ہمیں لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں، تو ہم کود جائیں گے، ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔‘‘ آپﷺ کو ان کی بات پر خوشی ہوئی اورپیش قدمی کا حکم جاری کر دیا۔آپﷺ نے میدانِ بدر میں لشکر ترتیب دیا اور جگہ متعیّن کر کے بتایا کہ کل فلاں سردار یہاں قتل ہوگا اور فلاں سردار یہاں قتل ہو گا۔ رسول اللہﷺ ساری رات دُعا میں مشغول رہے۔ مسلمانوں پر اللہ ربّ العزّت نے سکون و اطمینان کی نیند طاری کر دی، وہ بلا خوف سوئے رہے تاکہ صبح تازہ دَم اُٹھیں۔ اُدھر مشرکین میں اختلاف ہو گیا۔ ایک گروہ واپس جانا چاہتا تھا، لیکن ابوجہل پھر کھڑا ہوگیا اور سب کو روک لیا۔ جنگ شروع ہوئی ،تو عرب کے عام دستور کے مطابق مشرکین کے لشکر سے عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور بیٹا ولید نکلے اور مقابلے کے لیے دعوت دی۔

مسلمانوں میں سے حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ نکلے۔ حضرت علیؓ نے ولید، حضرت حمزہؓ نے شیبہ اور حضرت عبیدہؓ نے عتبہ سے مقابلہ کیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے تو اپنے مقابل کو قتل کر دیا، لیکن حضرت عبیدہؓ زخمی ہو گئے، اِتنے میں حضرت علیؓ اور حضرت حمزہؓ نے عتبہ پر حملہ کیا اور اُسے مار دیا۔اس کے بعد عام حملہ ہوا، جس میں اللہ کی نصرت فرشتوں کی صُورت نازل ہوئی اور کفّار کٹ کٹ کر گرنے لگے۔دو نوجوان معاذؓ اور معوذؓ باز کی طرح ابوجہل پر جھپٹے اور اُسے پچھاڑ دیا۔مسلمانوں نے اس جنگ میں بہادری اور جاں بازی کی مثالیں قائم کر دیں۔

مخالف لشکر میں اپنے قریبی رشتے دار بھی سامنے آئے، تو اُن سے بھی کوئی رعایت نہیں کی۔ یہ معرکہ مشرکین کی شکستِ فاش اور مسلمانوں کی فتح پر ختم ہوا۔اس میں 14 مسلمان شہید ہوئے، چھے مہاجر اور آٹھ انصار، جب کہ ستّر مشرکین مارے گئے اور ستّر ہی قید ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں عتبہ، شیبہ، امیّہ بن خلف اور ابوجہل جیسے سردار شامل تھے۔اسیرانِ جنگ کے بارے میں مشاورت ہوئی، تو مختلف آرا سامنے آئیں، لیکن حتمی رائے یہی قرار پائی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔جو فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، لیکن لکھنا پڑھنا جانتے تھے، اُنھیں کہا گیا کہ مدینے کے دس بچّوں کو لکھنا پڑھنا سِکھا دو، یہی تمہارا فدیہ ہے۔

غزوئہ بنی سلیم

مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام بہت مضبوط تھا۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قریش کے ہر تجارتی قافلے پر مسلمانوں کی نظر تھی۔ غزوۂ بدر سے واپسی ہوئی، تو رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو سلیم مدینے پر چڑھائی کے لیے فوج جمع کر رہے ہیں۔رسول اللہﷺ دو سو سواروں کے ساتھ مقابلے کے لیے پہنچے، تو وہ پانچ سو اونٹ چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

قتل کی سازش

ایک دن صفوان بن امیّہ اور عمیر بن وہب نے حطیم میں بیٹھ کر آپﷺ کے قتل کی سازش تیار کی۔ عمیر بن وہب کا بیٹا، وہب بن عمیر غزوۂ بدر میں قید ہوا تھا، چنان چہ اُس نے کہا کہ مَیں اپنا قیدی چُھڑوانے کے بہانے مدینے جاؤں گا اور آپﷺ کو نعوذ باللہ قتل کر دوں گا۔جب عمیر بن وہب مدینہ پہنچا اور آپﷺ سے سامنا ہوا، تو آپﷺ نے آنے کی وجہ پوچھی۔ اُس نے کہا’’ قیدی بیٹا چھڑوانے آیا ہوں۔‘‘ آپﷺ نے صفوان بن امیّہ کے ساتھ حطیم میں ہونے والی ساری گفتگو بتا دی، جسے سُن کر عمیر بن وہب مسلمان ہوگیا۔

غزوئہ بنی قینقاع

رسول اللہﷺ نے مدینہ آتے ہی یہود سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا، لیکن یہودیوں نے پسِ پردہ شرارتیں جاری رکھیں۔ بارہا مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازشیں کیں، لیکن مسلمان چاہتے تھے کہ خطّے کا امن برباد نہ ہو اور معاہدہ برقرار رہے۔ جب یہود کے قبیلے، بنی قینقاع کی طرف سے کُھلے عام عہد شکنی ہونے لگی، تو رسول اللہﷺ خود یہودیوں سے جنگ کے لیے تشریف لے گئے۔ جب بنو قینقاع نے مسلمانوں کو آتا دیکھا، تو قلعہ بند ہو گئے۔ مسلمانوں نے پندرہ دن تک اُن کا محاصرہ کیا۔ بالآخر اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔بعدازاں، بنو قینقاع کو جلا وطن کر دیا گیا اور وہ شام کی طرف چلے گئے۔

غزوۂ سویق

جنگِ بدر میں شکست پر ابو سفیان نے مسلمانوں کو شکست دینے تک غسل نہ کرنے کی قسم کھائی۔چناں چہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے ایک رات مدینے پر حملہ آور ہوا، کھجور کے چند درخت کاٹ کر اُنھیں آگ لگائی، ایک انصاری کو قتل کیا اور مکّہ بھاگ گیا۔رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی، تو پیچھا کیا، لیکن وہ بچ نکلا، البتہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے سامان پھینک دیا، جس میں کافی مقدار میں ستّو بھی تھا، چوں کہ عربی میں ستّو کو سویق کہتے ہیں، اسی لیے اسے ’’ غزوۂ سویق‘‘کا نام دیا گیا۔

غزوئہ ذی امر

رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو ثعلبہ اور محارب نے مدینہ منوّرہ پر حملے کے لیے کافی فوج اکٹھی کی ہے، اس پر آپﷺ ساڑھے چار سو صحابہ کرامؓ کے ساتھ اُن کی طرف روانہ ہوئے۔ جب بنو ثعلبہ کو خبر ہوئی، تو وہ پہاڑوں کی طرف منتشر ہو گئے، لیکن مسلمانوں نے پیش قدمی جاری رکھی اور وہاں ایک ماہ تک قیام کیا۔

کعب بن اشرف کا قتل

کعب بن اشرف یہودیوں کا ایک بہت شاطر اور سازشی سردار تھا۔مسلمانوں کو اذیّت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔اُس نے مشرکینِ مکّہ سے ساز باز کر رکھی تھی اور لوگوں کو اشعار کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے اُبھارتا تھا۔ مسلمان عورتوں کے خلاف بھی بے ہودہ شاعری کی۔ اُس کے قتل کے لیے چند صحابہ کرامؓ نے اپنی خدمات پیش کیں اور ایک رات اُسے قتل کر دیا۔ اس واقعے پر یہودی سمجھ گئے کہ مسلمان امن و امان کے ساتھ کھیلنے والوں کو اب طاقت سے روکنے کی ہمّت رکھتے ہیں، تو اُنہوں نے وقتی طور پر ہی سہی، مگر سُکون سے رہنے میں عافیت جانی۔

سَرِیّہ زید بن حارثہؓ

جنگِ اُحد سے پہلے یہ آخری اور بڑی فوجی مہم تھی۔ قریش کے تجارتی قافلوں کا راستہ جب بالکل غیر محفوظ ہوگیا، تو اُنھیں بےحد پریشانی ہوئی۔ اُن کا تجارتی قافلہ گرمیوں میں شام جاتا تھا، جس کے لیے اُنھوں نے قدرے طویل راستے کا انتخاب کیا، لیکن اُن کے اِس سفر کی مسلمانوں کو اطلاع ہوگئی تھی۔ آپﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں ایک سو صحابہ کرامؓ پر مشتمل لشکر روانہ فرمایا۔

قریش سفر جاری رکھے ہوئے تھے کہ مسلمانوں نے ایک مقام پر اُنھیں جالیا۔ صفوان بن امیّہ قافلہ بھگا کر لے گیا، لیکن بہت سا مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔بدر کے بعد قریش کے لیے یہ ایک اور دردناک واقعہ تھا، جس میں اُنھیں بڑے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ (جاری ہے)