پاکستان کی پہلی مکمل کلر فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘

September 16, 2020

اس عنوان میں ایسی پاکستانی فلموں کے بارے میں بات کریں گے، جنہیں کسی نہ کسی حوالے سے اولین قرار دیا گیا ہے۔ کسی فن کار کی پہلی فلم، کسی پس پردہ فن کار کے کیریئر کی اولین فلم، کوئی ایسی فلم جس میں کچھ نیا تجربہ پہلی بار کیا گیا، باکس آفس بزنس پر پہلی بار نمایاں کام یابی حاصل کرنے والی فلمیں! ان تمام اولین باتوں کی حامل فلموں پر مشتمل اس سلسلے کو کلاسیک سنیما کا عنوان دیا گیا ہے۔ پاکستان میں کلر فلم کا تجربہ سب سے پہلے فلم ساز کیو ایم زمان نے 1961ء میں اپنی ذاتی فلم ’’گل بکائولی‘‘ میں کیا۔

اس طلسماتی کاسٹیوم فلم میں پہلی بار چند گانے رنگین فلمائے گئے۔ اسی سال معروف نغمہ نگار فیاض ہاشمی کی ہدایت میں بننے والی فلم ’’ہم ایک ہیں‘‘ میں چند گانے کلر بنائے گئے۔ یہ پاکستانی رنگین سنیما کے ابتدائی دور کا ذکر ہے۔ 1962ء میں ایورنیو پکچرز کی سپرہٹ نغماتی، رومانی کاسٹیوم فلم ’’عذرا‘‘ میں بھی رنگین گانوں کا تجربہ کیا گیا۔ 1963ء میں اداکار درپن نے اپنی ذاتی فلم ’’تانگے والا‘‘ میں چند رنگین گانے شامل کیے۔ 1964ء میں سابق مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے،وہاں فلم ساز و ہدایت کار ظہیر ریحان نے پہلی مکمل رنگین فلم ’’سنگم‘‘ بنائی۔ اس فلم کو اس وقت کی پہلی پاکستانی کلر فلم کا اعزاز حاصل ہوا، لیکن بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ اعزاز فلم ساز کیو ایم زمان کی فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ کو حاصل ہوا۔ یہ ہی وہ پہلے فلم ساز تھے،جنہوں نے پہلی بار کلر فلم پاکستان میں متعارف کروائی تھی، جس کا تذکرہ ابتدا میں کیا گیا۔

پہلی کلر فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ ایسٹمین کلر میں فلمائی گئی تھی۔ کہانی بھارتی فلم ’’پروفیسر‘‘ سے لی گئی تھی۔ شمی کپور والا کردار اداکار کمال نے عمدہ انداز میں کیا تھا۔ اس فلم میں اداکارہ زینت بیگم نے ایک ایسی قدامت پسند خاتون کا کردار ادا کیا، جو اپنی مشرقی تہذیب کی علم بردار تھی، جب کہ اس کی بیٹی اور بھانجی موڈرن تہذیب کی آئینہ دار تھیں۔ بوڑھی خاتون اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ایسے پروفیسر کی تلاش میں تھیں، جو انہیں مشرقی تہذیب کی افادیت اور آداب سکھائے۔

اداکار کمال جو زینت بیگم کی بیٹی رانی کو چاہتا ہے، اسے اپنانے کے لیے وہ بوڑھے پروفیسر کا روپ بنا کر اس گھر میں لڑکیوں کو تعلیم دینے پر رکھ لیا جاتا ہے۔ اسی دوران زینت بیگم کو اس بوڑھے پروفیسر سے ہمدردی ہوجاتی ہے، جو بعد میں محبت کا رنگ لے لیتی ہے۔ یہ ایک مکمل مزاحیہ، کمرشل موضوع تھا، جسے فلم بینوں نے بے حد پسند کیا۔ فلم کا میوزک بھی اپنے دور میں سپرہٹ ہوا۔ موسیقار تصدق حسین نے خُوب صورت گانے کمپوز کیے۔ فلم کا ایک گانا موسیقار صلح الدین نے کمپوز کیا، جس کے بول تھے’’ جیا گائے تارا را رم

گوری ناچے چھم چھم چھم‘‘

فلم کا سپرہٹ نغمہ ثابت ہوا، جس کی مقبولیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ اس مشہور نغمے کو بنجمین سسٹرز نے 80ء کی دہائی میں نئے انداز سے گا کر جو شہرت پائی، اس سے سب ہی واقف ہیں۔ اس فلم میں اداکار کمال نے کامیڈی کردار میں عمدہ اداکاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا۔ بہ یک وقت جوانی اور بوڑھے پروفیسر کے روپ میں ان کی بے ساختہ اداکاری دیکھنے کے قابل تھی، جب کہ اداکارہ رانی نے ہیروئن کے کردار کو خوب نبھایا۔ زینت بیگم جو دنیا کے ہر مرد کو بے وقوف سمجھتی تھیں اور ایک دن خود بے وقوف بن گئیں۔ یہ فلم اسکرین اینڈ سائونڈ اسٹوڈیو لاوہر میں بنائی گئی، جس کی کلر پروسیسنگ فلم ساز کیو ایم زمان نے خود اپنی زیرنگرانی کرائی۔

اس فلم کے کلر پرنٹ ایورگرین لیبارٹری لاہور میں تیار کیے گئے۔ فلم کی کاسٹ میں رانی، کمال، ناصرہ، روشن، ساقی، مایا دیوی، ظہور شاہ اور زینت بیگم شامل تھیں۔ فلم ساز ادارہ زمان آرٹ پروڈکشن، فلم ساز کیو ایم زمان، ہدایت کار وزیر علی، عکاسی نظام ناخدا، کیمرہ مین نصیر کھٹیال، موسیقار تصدق حسین، مصلح الدین، نغمہ نگار مشیر کاظمی، تنویر نقوی، تدوین خورشید امجد، ڈانس اے عزیز نے ڈائریکٹ کیے تھے۔ یہ فلم جمعہ 20؍نومبر 1964ء کو کراچی کے مرکزی سنیما جوبلی میں ریلیز ہوئی۔

اپنے مین تھیٹر پر فلم 11؍ہفتے بڑی کام یابی سے چلتی رہی، دیگر سنیمائوں کے ہفتے ملا کر اسے 24؍ہفتے چلنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ لاہور میں یہ فلم 4؍دسمبر 1964ء کو ریجنٹ سنیما پر ریلیز ہوئی۔ کام یابی کےساتھ دو ماہ تک اس کی نمائش جاری رہی۔ اس مزاحیہ، ڈرامائی، نغماتی فلم کو پورے پاکستان میں بہت اچھا رسپانس ملا۔