ریفرنڈم کروالیں!

September 17, 2020

تونسہ، دو بچوں کی ماں سے بچوں کے سامنے ریپ، حافظ آباد، 6افراد کی خاتون سے اجتماعی زیادتی، پنڈدادنخان، 3افراد کی لڑکی سے زیادتی، جہلم، امام مسجد کی 6سالہ بچی سے زیادتی، لاہور، 9سالہ بچے سے دکاندار کی زیادتی، ستیانہ چک 33گ ب، 10سالہ بچے سے زیادتی، سمندری چک 487گ ب، 7سالہ بچے سے زیادتی، فیصل آباد، 19سالہ لڑکی کو نشہ آور مشروب پلاکر زیادتی، گوجرانوالہ، سوتیلے باپ کی بیٹی سے زیادتی، تاندلیانوالہ، 4سالہ بچی اور 15سالہ لڑکی سے زیادتی کی کوشش،سانگلا ہل، 8سالہ بچے سے زیادتی کی کوشش، 7سالہ بچے سے زیادتی، 9سالہ بچے سے زیادتی، 8سالہ بچے سے زیادتی، یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک صوبے پنجاب کی ایک دن کی کارگزاری،جی ہاں یہ سب ایکدن میں ہوا۔

کوئی شک ہو تو 3دن پہلے 14ستمبر کا روزنامہ جنگ پڑھ لیں، ابھی میں کراچی میں ذہنی، جسمانی معذور خاتون سے اجتماعی زیادتی، اسلام آباد، ترنول میں 3بچوں کی ماں کو زیادتی کے بعد قتل، ڈجکوٹ کے نواحی گاؤں کے میلے سے دوخواجہ سراؤں کواغواکر کے زیادتی کرنے کی بات نہیں کررہا۔

سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، آزادکشمیر کی تفصیل پھر سہی، میں یہاں 14ستمبر کے ہی روزنامہ جنگ میں شائع ان خبروں پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ راولپنڈی میں 3لڑکیوں سمیت 4اغواء، راولپنڈی، اسلام آباد میں لٹ مار کی 13وارداتیں، چوری کی 15وارداتیں، مری میں ہوٹل والوں کا سیاح فیملی پر تشدد، حاملہ عورت کو ٹھڈوں، مکوں، تھپڑوں سے مارا، حکومتی خاتون ایم پی اے کے خاوند کی ریڈ زون اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج کو پھینٹی، جج صاحب کی جوابی فائرنگ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کایہ کہنا، کتنی بار کہہ چکے کہ اسلام آباد میں لاقانونیت کا راج۔

یہ سب چھوڑیں، فوکس جنسی زیادتیوں پر رکھیں، ایک دن میں یہ سب کچھ، ابھی بھی کوئی شک یہ بیمار، ابنارمل معاشرہ نہیں، مگر حیرت یہ، ابھی اس گلے سڑے نظام کے بہت سارے وکیل، کئی خواتین وحضرات فرما رہے، جب آئین وقانون موجود،تب سرِعام پھانسی، نامرد بنانے کی سزا کیوں، مطلب ان سب کے مطابق زیادتی کے شکارسب بچے، بچیوں،ان کے والدین، رشہ داروں کو اکٹھا کریں، انہیں ہنس ہنس کر (جیسے قومی اسمبلی میں ہنسا جارہاتھا) سمجھایا جائے، میرے پیارو، اس ملک کا ایک آئین ہے، جس میں ریپسٹ کا ایک وقارہے۔

اس ملک کا ایک قانون ہے جس میں ریپ سزا کی شرح 3سے چار فیصد، مطلب ریپ کے 100،ملزموں میں سےصرف 3یا چار کو سزا ہوتی ہے ، میرے پیارو اس ملک کا ایک نظام انصاف بھی ہے جو کبھی کسی غریب کو بروقت انصاف نہیں دے سکا، اس ملک کی پولیس بھی ہے جس سے کبھی کوئی خیر کی توقع نہیں، میرے پیارو، ریپ کراؤ، سفارش یا رشوت دے کر ایف آئی آر درج کراؤ، پھر زمین بیچ کر ملزم گرفتار کراؤ، گھر بیچ کر مقدمہ لڑو، پولیس چتر چالاکیاں، کمزور تفتیش بھگتو،صلح کیلئے دباؤپڑے، دھمکیاں ملیں صبر کرو،، گواہ مکر جائیں، فیصلہ خلاف آجائے، آرام سکون سے بیٹھ جاؤ، روزجینے، روزمرنے کیلئے۔

کوئی نہ سوچے اگر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، اگر پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ،اگر ہم ریاست مدینہ کے داعی تو زنا،جنسی زیادتی کے حوالے سے جو کچھ قرآن مجید میں موجود، جو کچھ ختم المرسلین حضرت محمدؐ نے ریاست مدینہ میں سزائیں دیں، وہی لاگوکر لیں، اگر پاکستان جمہوری ملک توجمہورکی خواہش جان لیں، ریفرنڈم کروالیں کہ کیا ریپ کی سزا سرِعام پھانسی، نامردکر دینا رکھی جائے یا جواس وقت قانون ہے اسے ہی جاری رکھا جائے، ابھی بھی وقت، قانون سازی کریں، اصلاحات لائیں، ریپ مجرموں کو ہنگامی بنیادوں پر پکڑا جائے۔

انکی علیحدہ عدالتیں ہوں، روزانہ کی بنیادپر سماعت ہو، ایک یا 3ماہ کے اندر سرعام پھانسی یا نامرد کرنے کی سزا، آپ نے 73سال ہومیوپیتھک نظام انصاف میں گزار لئے،اب 5سال یہ کر کے دیکھ لیں، انسان نما درند وں کے ہوش ٹھکانے نہ آگئے تو کہیے گا، اندازہ کریں، زینب کامجرم آٹھویں جنسی زیادتی پر پکڑا گیا،اگر میڈیا دباؤ نہ ہوتا،یہ کیس روٹین میں چلتا، اس نے آٹھویں بار بھی چھوٹ جانا تھا،سانحہ موٹروے کا ملزم عابد،13وارداتیں، کئی بار ریپ کیا، چھوٹ گیا، ملزم شفقت 11وارداتیں، چھوٹ گیا۔

یہاں یہ بھی یادرہے، افغانستان، ایران، مصر، شمالی کوریااور چین میں جنسی زیادتی کی سزا موت، چیک جمہوریہ میں 1966سے، انڈونیشیاء میں 2016سے اور یوکرائن میں 2019سے جنسی زیادتی کے مجرم کی سزا اسے نامرد کردینا، مقررہ وقت میں سرعام پھانسی یا نامرد کرنا یہ فور ی طور پر کرنے کی ضرورت، لانگ ٹرم کیا کرنا، بقول استادِ محترم حسن نثار ہم بڑے فخریہ کہیں۔

ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل، ہم فخریہ اپنی یوتھ کے تذکرے کریں،اب مہنگائی، بے روزگاری، فرسٹریشن، سفوکیشن، بے انصافی اور غصہ اسی یوتھ کو اثاثے سے لائیلٹی میں ڈھال رہا، بالکل ایسے ہی جیسے کل تک اسٹیل مل، پی آئی اے،ریلوے ہمارے اثاثے تھے، آج بوجھ بن چکے،بے کار، فارغ، دماغ شیطان کی ورکشاپ، اوپرسے آوارگی، اوپر سے ان پڑھ، نیم پڑھی جوانی دیوانی، اوپر سے کتھارسس نہ گرومنگ، اوپر سے جرائم کے بے تحاشا مواقع، اوپر سے سزا کے بغیر معاشرہ۔

لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے انسان سازی، کردار سازی کی طرف توجہ دیں، باقی کل سی سی پی او کے بیان پر رونا رویا جارہا تھا، اب اس میں اپنی پارلیمنٹ بھی شامل ہوگئی، سانحہ موٹروے پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں ایسے ٹھٹھے مذاق ہوئے کہ خواتین پارلیمنٹرین شیم شیم کے نعرے لگانے پر مجبور ہوگئیں۔

کیا کریں زینب پریس کانفرنس کے دوران مذاق، سانحہ اے پی ایس لائیوپریس کانفرنس میں مذاق، سانحہ موٹروے بحث میں طنزومزاح، یقین مانیے اب تو ان خودساختہ بڑوں کی کسی ماہر نفسیات سے ذہنی کونسلنگ کرانے کو دل چاہے، انہیں یہ بتانے کو دل چاہے اگر سیاسی، پوائنٹ اسکورنگ ہی کرنی تو شوق سے کریں، لیکن کم ازکم دکھ، صدمے کے موقع پر دکھ، صدمے کی اداکاری ہی کرلیں، یوں زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں۔