اقوام متحدہ کا اجلاس اور مسئلہ کشمیر

September 18, 2020

تحریر :لائق علی خان۔۔۔وٹفورڈ
اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس قریب آتے ہی کشمیر ی عوام کی نظریں اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل پر لگ جاتی ہیں کہ شاید اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل میں شامل رکن ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آواز اٹھائیں ، بھارت نے کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے نکالا جائے مگرپاکستان کے بروقت اقدام نے بھارت کے عزائم کو ناکام بنا دیا جو پاکستان کی بڑی کامیابی ہے جب کہ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں تا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے کشمیر یوں کو دہشت گردکے نام سے پکاریں گے تاکہ عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرسکیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت عالمی قوتیں مفادات کی خاطر بھارت کی گود میں بیٹھی ہوئی ہیں ،پاکستان جب بھی کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھاتا ہے، بھارت کے حکمران شملہ معاہدے کے تحت اسے دوطرفہ مسئلہ کہہ کر عالمی برادری کوگمراہ کر تے ہیں ،اگرچہ کشمیر ی مسئلہ کشمیر کے فریق نہیں مگر شملہ معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت نے یہ طے کیا تھا کہ دونوں ملک آپس میں باہمی تعلقات بحال ہونے کےبعد اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت مسئلہ کشمیر کو شملہ معاہدے کے تحت مناسب وقت پر حل کریں گے مگر بھارت نے یکطرفہ طور پر 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیرکو دو حصوں میں تقسیم کر کے شملہ معاہدے کو قانونی اور آئینی طور پر ختم کر دیا اب اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل ممبر ممالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شملہ معاہدہ کے خاتمے کے بعد اپنے فیصلے میں تبدیلی لائیں، مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا یہ دو کروڑ کشمیر ی عوام کی جان ومال ان کے مستقبل کا مسئلہ ہے ۔ اس کے ساتھ بھارت نے آرٹیکل 370اور 35اے ختم کر کے ریاست جموں کشمیر کو 15 اگست 1947 سے قبل والی پوزیشن پر لا کر کھڑا کیاہے ، اب بھارت یہ نہیں کہہ سکتا کہ شملہ معاہدہ کے تحت کشمیر دوطرفہ مسئلہ ہے۔ پاکستان پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شملہ معاہدہ کو ختم کر تےہوئے آزاد کشمیر کے پارلیمانی نظام حکومت کو ایک نمائندہ حکومت تسلیم کرانے کے لئے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے مطالبہ کرے ۔ کشمیر ی سوال کرتے ہیں اگر بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو نظر انداز کر تےہوئے ریاست کی حیثیت تبدیل کر سکتا ہے تو پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کیوں نہیں کی۔ اس پر اقوام متحدہ اور یو این سیکورٹی کونسل کا اجلاس کیوں نہیں بلایا ، بھارت کے اس فیصلے کے بعد کشمیر کی حیثیت ایک آزاد ریاست کی ہے اور نہ ہی بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے ہٹا سکتا ہے ، بھارت مسئلہ کشمیر کو یو این سیکورٹی کونسل میں خود لےکر گیا، اقوام متحدہ کی قراردادیں 5 اگست 2019 کے بعد بھی مسلمہ ہیں، بھارت کی یہ بھر پور کوشش ہوگی کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے آئوٹ آف لسٹ کرایا جائے ،کشمیر ی حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ ایک روڈ میپ دونوں ممالک کو دے کہ دونوں ملک ایک سال کے اندر مسئلہ کشمیر حل کریں۔ اقوام متحدہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت کو مشکل وقت دے۔ بصورت دیگر آزاد کشمیر کا پارلیمانی نظام حکومت جو رائے شماری کا نعمل البدل ہے ، کو ایک بااختیار ریاست تسلیم کرنے کے عملی اقدامات کیے جائیں ۔بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتا، اس کی بنیادی وجہ بھارت کشمیر میں ووٹ کی بنیاد پر کشمیر کوکھو نا نہیں چاہتا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان کے پاس مسئلہ کشمیر کا کیا حل ہے،کشمیر ی عوام کی سوئی حق خودارادیت پر اٹکی ہوئی ہے ۔ جو کہ آزاد کشمیر کے پارلیمانی نظام حکومت کے خلاف ہے، ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس سےدورہ پاکستان کے دوران مطالبہ کیا گیا کہ 5 جنوری 1948 کی قرار داد کے تحت دونوں ممالک کشمیر سے افواج نکالیں مگر اس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ، بیرون ملک کشمیر ی عوام اپنی مدد آپ کے تحت مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہے ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے لندن ،یورپ ، جنیوا، امریکہ میں کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام کشمیرہائوس قائم کیے جائیں، برطانیہ میں کشمیر ی جماعتوں کو ایک متفقہ فورم مہیا کیا جائے، مسئلہ کشمیر اس وقت اسلام آباد اور مظفر آباد کے درمیان معلق ہے، آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے 5 اگست 2020 کووزیراعظم پاکستان عمران خان سےکہا تھا کہ آزاد کشمیر گورنمنٹ کو ایک بااختیار ریاست تسلیم کیا جائے تاکہ کشمیر ی عوام اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے خودکو پیش کر سکیں، عالمی برادری ہمارا موقف سنے گی، اصل فریق کشمیری ہیں ان کی آواز سنی جائے گی ، وزارت خارجہ میں اجلاس بلایا جائے، کشمیر ی پاکستانیوں سے بڑ ھ کر پاکستانی ہیں ان پر اعتماد کیا جائے لیکن ان کی آواز کا نوٹس نہیں لیا گیا ۔ اب کشمیر کے دونوں اطراف کے جو حالات ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں ۔ کشمیر ی حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک کشمیر ی عوام کو آپس میں ملنے دیا جائے ، کنٹرول لائن کھول دی جائے ، ریاست کی مقامی حکومتوں کو آپس میں ملنے دیا جائے ،ان کی اسمبلیوں کے مشترکہ اجلاس بوقت ضرورت بلائے جائیں تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے باہمی اعتماد کی فضا بحال کرنے میں مدد مل سکے ، مسئلہ کشمیر کاحل کشمیر ی عوام پر چھوڑ دیا جائے ، ان پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط نہ کیے جائیں، اس میں کوئی شک نہیں مسئلہ پر پاکستان کی قربانیوں کو نظر اندانہیں کیا جاسکتا ہے، مگر عالمی سطح پر جو منظر نامہ بدل رہا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے، اب کشمیر یوں کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں عالمی برادری کے سامنے کیا نیا موقف پیش کرےگا۔