عزت کے جنازے

September 18, 2020

اف سانحے پر سانحے، پے در پے ہوتے عصمت دری کے واقعات ۔ کہاں گئے وہ مرد کہ جنہیں عورت کی ڈھال، سائبان اور عزت کا محافظ کہا جاتا تھا ۔ ابھی کراچی کی معصوم ساڑھے چار سالہ بچی مروا کا کیس حل نہ ہوا تھا جسے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا کہ یہ سیالکوٹ موٹروے سانحہ ہوگیا نہ زمین پھٹی اور نہ ہی آسمان سر پر گرا ۔واقعی جب سب کچھ بدل گیا ہے تو عذاب کے طریقے بھی یقینا بدلے ہیں ۔ پھر ہم کہتے ہیں " کرونا " کیوں پھیل گیا ؟ یہ کیسی آفت آگئی پوری دنیا رک کیوں گئی؟ یہ کیسی بارشیں برس رہی ہیں ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا ؟ سیلاب کیوں آرہے ہیں؟ زمین کیوں کانپ رہی ہے ؟ بجلیاں کیوں گر رہی ہیں ؟ اگر ہم دیا نت داری سے سوچیں تو سچ سچ بتائیں کیا اب ہم اسی سلوک کے مستحق نہیں شاید ہم میں موجود چند نیک بندوں کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ ہم پر رحم کر رہا ہے ۔

ورنہ تو اللّٰہ کے غضب کے ایک جھٹکے میں سب کچھ ختم ہوجائے۔ عصمت دری کی متواتر وارداتیں پچھلے کئی سالوں سے سننے میں آرہی ہیں " زینب کیس" سے پہلے بھی یہ سب ہوتا تھا لیکن زینب کیس کو میڈیا پر بھرپور کوریج ملنے کے بعد یہ امید ہو گئی تھی کہ شاید اب اس طرح کے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی لیکن نہیں بھئی۔درندگی کے واقعات بڑھتے چلے گئے ۔

واقعات تو نہ جانے کتنے ہوتے ہوں گے جو کبھی اپنی عزت کی خاطر دبا لیے جاتے ہیں تو کبھی اس مجرم کو بچانے کی خاطر جو عموماً سگا رشتے دار ہوتا ہے لیکن پھر بھی میڈیا پر ہر مہینے ایک دو خبریں آتی رہتی ہیں اور لوگ منہ پھاڑ کر سنتے ہیں دو چار چچ چچ کی آوازیں نکالتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں خود خواتین بھی کوئی خاطر خواہ مہم لانے میں ناکام رہی ہیں ۔ہر سال ایک " عورت مارچ " ہو جاتا ہے، جس سے لوگ مزے لیتے ہیں ۔

عورت عجیب وغریب نعروں کے ساتھ باہر نکل رہی ہے اس سے بھی مردوں کی ٹھرک کی تسکین ہوتی ہے اسی لئے میں عورت مارچ کے ان عجیب و غریب بینرز اور پلے کارڈز کے خلاف ہوں ایک آدھ بات سے اختلاف کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ انہی باتوں کو اور انہی حقوق کو بہت اچھے انداز میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے ،کیوں کہ عورت کو یہ حقوق چاہئیں اورانہیں اسے حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی ۔ ہاں تو بات ہورہی تھی عصمت دری کے واقعات کی ۔

سیالکوٹ موٹر وے پر درندگی کا ایک انسانیت سوز واقعہ پیش آیا ،جس میں ایک ماں کو اغوا کرکے اس کے معصوم بچوں کے سامنے درندگی کا نشا نہ بنایا گیا ۔ دل دکھ سے لبریز تھا کہ سی سی پی او عمر شیخ کا بیان سامنے آگیا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ خاتون کو اتنی رات کو موٹر وے پر سفر نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا اور گھر سے نکلتے وقت پیٹرول بھی چیک کرنا چاہیے تھا شاید انہوں نے یہ بھی کہا کہ خاتون مرد کے بغیر سفر کر رہی تھیں اس لئے انہیں یہ سب احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کر نا چاہئیں تھیں ۔ مشورے تو صحیح ہیں اور مفت بھی ہیں لیکن یہ وقت نہیں کہ ایسی باتیں کی جائیں یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی کو زخم لگا ہے اور آپ اس پر نمک چھڑک رہے ہیں ۔’’ سر ‘‘ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ’’ جب یہ سب ہورہا تھا تو آپ اور آپ کے عملے کو کیا کرنا چاہئے تھا ؟ آپ کو یہ کون بتائے گا ‘‘ پہلے مجرموں کو پکڑیں خاتون سے ہمدردی کریں ایسے اقدامات کریں کہ آیندہ کسی کے ساتھ ایسا نہ ہو اور اس کے بعد احتیاطی تدابیر بتائیں کہ موٹروے پر سفر کرنے والی خواتین کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔

ان کی باتوں سے تو وہ چوکیدار یاد آگیا جو آوازاور اللہ جانے وہ کیا حالات اور مجبوریاں تھیں کہ ایک اکیلی عورت رات کے ساڑھے بارہ بجے گھر سے معصوم بچوں کو لیکر نکلی تھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خاتون فرانس سے پاکستان آئی تھیں اور ان کے شوہر ابھی فرانس میں ہی ہیں شاید ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے انہیں اندازہ نہیں ہوگا کہ پاکستان میں اکیلی عورت کا سفر کرنا کس قدر خطرناک ہے۔ انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ یہاں تو گھر کے سامنے والی دکان سے بسکٹ لینے جانے والی چار سالہ بچی کو دیکھ کر بھی بھیڑیے اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتے ۔

ہر انسانیت سوز واقعے کے بعد عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ، کسی نے کہا کہ ’’ دیکھا اسلام اسی لئے تو غیر محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں دیتا‘‘ اس کہنے والے سے پوچھا جائے کہ ‘‘کیا اسلام اکیلی عورت کو دیکھ کر بھیڑیا بننے کی اجازت دیتا ہے؟’’کہیں عورت کے لباس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ‘‘ جب ایسا لباس پہنیں گی تو یہ تو ہوگا‘‘ افسوس صد افسوس یہ یاد رہتا ہےکہ عورت کیسا لباس پہنے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام مرد کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا لباس واقعی ایسا ہونا چاہئے کہ اس کا جسم ڈھکا ہوا ہو، تاکہ مردوں کی شہوت نہ جاگ جائے لیکن پھر قبر میں کفن میں لپٹی عورت کا کیا قصور ہے کہ جنسی درندے قبر میں سے عورت کی لاش نکال کر اس کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ایک بہت اچھا شعر پڑھا تھا کہ حریص آنکھیں حیا کی دیوی کو نوچتی ہیں

کسی کی بیٹی اگر جواں ہے بلائے جاں ہے !!!

لیکن اب تو یہ شعر بھی غلط ثابت ہورہا ہے ۔ اب تو جنسی درندے بیٹیوں کے جوان ہونے کا انتظار بھی نہیں کرتے ۔رنگ برنگی تتلیوں جیسی معصوم بچیاں ایسی کیا حرکتیں کررہی ہیں کہ جس سے ان جانوروں کو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہورہا ہے اور بچیوں پر ہی کیا موقوف ان درندوں کے ہاتھ سے تو معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات کہ قوم لوط کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ایسی خبریں بھی سننے کو ملیں کہ اگر ان نفسیاتی مریضوں کو اپنی ہوس کی آگ مٹانے کو کوئی انسان نہ مل سکا تو انہوں نے جانوروں کو بھی نہیں بخشا۔ لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور انگلیاں کانپ جاتی ہیں کہ پچھلے دنوں ایک بلی سے اپنی ہوس پوری کرتے کچھ ٹین ایج لڑکے پکڑے گئے تھے۔اف ایک بار پھر استغفر اللہ۔

خدارا اب تو حکومت جاگ جائے، نہایت سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے ، سزائے موت کے قانون سے کم پر یہ واقعات نہیں رکیں گے ۔ سزائے موت اور وہ بھی سب کے سامنے تاکہ دوسرے درندوں کو عبرت حاصل ہو۔ چیف جسٹس صاحب سوموٹو کا وقت یہی ہے پلیز ایکشن لیں ۔ خواتین اٹھیں اور انصاف کے لئے اپنی آواز اٹھائیں اس سے پہلے کہ ہماری بہنوں، بیٹیوں کا اکیلے نکلنا مشکل ہوجائے۔

’’یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے

کھڑے رہو گے کہاں تک تماش بینوں میںــ‘‘