کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد؟

September 19, 2020

آج کے ’’آئین نو‘‘ کی سرخی کو تو خاکسار نے ہی سوالیہ بنا دیا، وگرنہ اقبال کی نظم کا یہ مصرعہ ان کے وژن اور اس کے عمل میں ڈھل جانے کی امید کا منظوم اظہار ہے۔ مصورِ پاکستان کی یہ کوئی ایک امید نہیں جس کے برعکس ہمارے اہلِ اقتدار نے اہلِ نظر سے نظریں چرا کر اپنے ہی اختیار و مرضی سے ’’ترقی کے کمالات‘‘ دکھانے کا شوق یا کوئی اور بڑی ضرورت پوری کرنے کے چکر میں بڑے بڑے قومی ڈیزاسٹر کئے۔ لاہور میں 400ارب سے 27کلو میٹر کی میٹرو ٹرین اور اس سے قبل میٹرو بس کے ’’ترقیاتی‘‘ منصوبے مسلط کرکے شہر کی کتنی اہم شاہرائوں اور علاقوں میں بھاری بھرکم ہزاروں ستونوں کا جنگل بنا کر ہمارے ثقافتی مرکز اور اس کے ماحول کا بیڑا غرق کردیا۔ بڑے میاں تو بڑے میاں ’’چھوٹے میاں‘‘ سبحان اللہ۔ یہ چھوٹے میاں کوئی شہباز شریف نہیں، وہ تو اس کاروبارِ حکمرانی میں بڑے میاں ثابت ہوئے بلکہ ان کی میٹرو ٹرین منصوبے پر تنقید کرنے والی پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت کے وزیراعلیٰ تھے جن کی پارٹی نے لاہور کے شہریوں کی جانب سے مکمل Unwanted, Undemanded, Undesigned میٹرو بس اور ٹرین کے مسلط کئے، منصوبوں پر مسلسل اور شدید تنقید اور انہیں کرپشن کا ذریعہ قرار دے کر خود بھی پشاور میں میٹرو بس چلانے کے انتہائی مضحکہ خیز متنازعہ اور اسکینڈل بن جانے والے ’’ترقیاتی پروجیکٹ‘‘ کو تین سال کی عوامی آہ و بکا کے بعد بمشکل مسلط کیا، اب کیا تو چلتی بسوں میں آگ لگنے کے واقعات ہو رہے ہیں، جو بہت معنی خیز ہے، اس پر قابو پانے کے لئے اب چینی آٹو ماہرین پشاور میں سر کھپائی کر رہے ہیں۔ ہمارے کتنے ہی حکمرانوں نے سات عشروں کی ملکی تعمیر کی تاریخ میں اقبال کی شاعری کے کتنے ہی خوابوں کو چکنا چور کیا اور بابائے قوم حضرت قائداعظم کے کتنے ہی عزائم، امیدوں اور یقین ہائے اتحاد و تنظیم کو تار تار کیا۔ تاہم ناکامیوں کے اسی پسِ منظر میں ہمارا دامن کامیابیوں سے بالکل خالی بھی نہیں لیکن ہم بڑی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے ڈیزاسٹر کرنے کی ماہر قوم ہیں۔ اگر ’’تازہ بستیوں‘‘ کے علامہ کے خواب کو ہی لے لیں، کراچی سے دارالحکومت کی متنازعہ منتقلی ایک طرف، اسلام آباد جیسا حسین شہر اور صدر مقام اسی (خواب) کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے، لیکن اب ہم اسے بھی بےتکا پھیلانے اور بنا بنایا سنبھالنے میں ایک نئے ڈیزاسٹر کے مرتکب نہیں ہو رہے؟۔ اسلام آباد کی کیپٹل مینجمنٹ ماحولیات اور کلچر اور بےڈھنگی اربنائزیشن سب میں تشویش نمایاں ہے جو اب میڈیا کی خبریں بھی بن رہا ہے۔

اسی پس منظر میں دو ہفتے قبل راوی کے اس پار توسیع شہر بارے مجوزہ نئے لاہور کی کوئی پرانی فائل نکال کر لاہوری وزیراعظم صاحب نے راوی ریور ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کا فیتہ کاٹ کر فائل کو برسوں بعد دوبارہ پائپ لائن میں ڈالا ہے۔ اب ان سے نئے شہر یا توسیع کے زیرو پوائنٹ پر ان کے قابلِ تحسین ویژن، ملک گیر شجرکاری کا تڑکا لگانے کے لئے پودا لگوا کر پیغام دیا ہے کہ توسیع یا جڑواں شہر جو بھی ہے، ہوگا ہرا بھرا۔ رقبے اور اخراجات کے جو بھاری بھرکم اعداد وشمار آئے ہیں، بتائے گئے، اس سے لاہور کو مزید پھیلائے جانے کی فکر میں مزید اضافہ ہو گیا ہے لیکن یہ فکر فقط شہر اور شہر سے باہر اس سے بخوبی شناسا اہلِ نظر کی ہی ہے، پہلے ہی ایسے کسی ڈیزاسٹر سے پہلے ان کی آواز کاروبار حکمرانی کے نقارخانے میں طوطی کی آواز ہوتی تھی، اب سوشل میڈیا کے باوجود وہ بھی نہیں نکلتی کہ یہ اہلِ نظر یا تو خود نمک کی کان میں رہ رہ کر نمک ہو گئے یا مایوس کہ ہماری کس نے سننی ہے یا کچھ جانتے سمجھتے اب اسٹیٹس کو کی مہلک طاقت کا حصہ ہیں، سو دیکھا گیا کہ راوی ریور کے اچانک وارد ہونے والے پریشان کن منصوبے پر راوی چین ہی لکھ رہا ہے، حالانکہ یہ ایک بڑے مکالمے اور لاہور جیسے تاریخی اور ثقافتی شہر، جس کی مت پہلے ہی ترقی کے نام پر مار دی گئی ہے، کے متذکرہ پراجیکٹ پر کم از کم شہر کے صاحبانِ نظر کی آراء و مشوروں کا متقاضی تھا۔

امر واقع یہ ہے کہ گزشتہ دو اڑھائی عشروں سے لاہور کے علمی ادبی اور ثقافتی و صحافتی حلقوں میں یہ سوشل ٹاک عام ہے کہ لاہور کی مزید وسعت کو قانون سازی کرکے روک دینا چاہئے۔ اس کی اصل پہچان اور تاریخی و ثقافتی شناخت کو پہلے بڑی بےرحمی سے مسخ کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر مختلف تجاویز اور مسائل و حل بھی زیر بحث رہتے ہیں لیکن حکمرانوں اور ان کے شہر پر چھائے حواریوں کے منفی اجتماعی رویوں پر فکر مند اور پوٹینشل شہریوں کی بےبسی و بےکسی اپنی جگہ ایک پریشان کن سوال ہے۔ ضرورت عام نہیں شدید ہے کہ شہر کے صاحبان ِنظر اور اس پر باہر رہ کر بھی نظر رکھنے والے اہلِ ذوق و شوق اور ویژنریز، راوی ریور ڈویلپمنٹ کی تمام تر تفصیلات سے آگاہی، جواز و امکانات پر اپنی رائے زنی کے لئے آواز اٹھائیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)