کسی کو قانون کی حکمرانی کمزور کرنے نہیں دینگے،جسٹس اطہر من اللہ، نیوی سیلنگ کلب سیل کرنے کا حکم امتناع برقرار

September 20, 2020

اسلام آباد(جنگ رپورٹر)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان نیول فارمز میں مزید تعمیرات روکنے اورر نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کے حکم امتناع کو آئندہ سماعت تک برقرار رکھتے ہوئے چئیرمین سی ڈی اے کو حکم امتناع پر مکمل عملدرآمد کروانے کی ہدایت کی ہے اور ٹیم بھیج کر چیک کرکے آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کرنے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے سے متعلق بیان حلفی جمع کرانے کا حکم جاری کردیا ہے، چیف جسٹس، اطہرمن اللہ پر مشتمل سنگل بنچ نے ہفتہ کے روز کیس کی سماعت کی تو چئیرمین سی ڈی اے عامر علی احمد پیش ہوئے، چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ئے کہاکہ آپ کو بار بار طلب کرنا اچھا نہیں لگ رہاہے ،یہاں پر قانون کی حکمرانی ہی نہیں ہے ،عوام کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات ہیں،جب بھی وزیراعظم کے نوٹس میں کوئی معاملہ لایا گیاتو وہ حل ہوا ہے،آپ بتائیں کہ عام آدمی کے لیے بھی کوئی ہائوسنگ سکیم بنائی گئی ہے ؟تو انہوں نے کہاکہ سی ڈی اے کا سیکٹر آئی 15 ایلیٹ کا نہیں بلکہ عام آدمی کے لیے تھا، عدالت نے استفسارکیاکہ ایف آئی اے اور آئی بی جائیدادوں کے کاروبار میں کیوں ملوث ہیں ؟یہ تو مفادات کا بہت بڑاٹکرا ئوہے،یہاں عام لوگوں کے ساتھ فراڈ ہورہے ہیں، اسلام آباد کا جو بھی معاملہ اٹھائیں وہاں قانون کی خلاف ورزی نظر آئے گی،کیااسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کااراضی کے حوالے سے کوئی کردار نہیں ؟ کیا آپ نے کابینہ یا وزیر اعظم کو اس حوالے سے آگاہ کیا ہے؟آج سی ڈی اے کمزور کیوں ہے؟ ہر کوئی بڑے لوگوں کی خدمت میں لگا ہوا ہے،اگر آپ دوسروں کو پلاٹ دے سکتے ہیں تو مزدور کو کیوں نہیں دیتے؟ایسا کیوں ہے کہ کوئی ہاوسنگ سوسائٹی بنا لیتا ہے اور پھر آپ کے پاس اپلائی کرتا ہے ؟ سارا کچھ وزیراعظم کے اپنے وژن کے برعکس ہو رہا ہے،چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیاکہ کیا آپ کا کوئی اہلکار نیول فارم میں جا کر چھاپہ مار سکتا ہے؟ وزارتوں کے افراد ہی بلاواسطہ طور پریہ سوسائٹیاں چلا رہے ہیں،کیا آپ وہاں قانون پر عمل کرا سکتے ہیں؟ آپ کا کام قانون پر عمل درآمد کرانا ہے،چیئرمین سی ڈی اے نے کہاکہ یہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے،ہم نے نوٹس جاری کیے ہیں، نیول فارمز پر تفصیلی رپورٹ جمع کرا دی جائے گی،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے کتنے ذمہ دار افراد کو نوکریوں سے نکالا ہے؟تو انہوں نے کہاکہ ملازمت سے تو نہیں نکالا البتہ افسران کی معطلی کی گئی، چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ کیا آپ نے وزیر اعظم کو مفادات کے ٹکرا ئوکے حوالے سے بتایا ہے؟تو انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ابھی نہیں بتایا ہے ،آئندہ آگاہ کرنے کی کوشش کروں گا ، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے اور کچھ نہیں کرنا، چیئرمین سی ڈی اے نے کہاکہ سیلنگ کلب کی تعمیر غیرقانونی ہے اور الاٹمنٹ بے ضابطگی ہے،نیوی اور ایئرفورس کو کہہ دیا ہے کہ کوئی بھی عمارت ہو گی تو وہ سی ڈی اے کے سامنے پیش کی جائے گی، چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے وکلا اور بار ممبرز کو بھی کلب وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ہم بھی وہاں پر کوئی کلب وغیرہ نہ بنا لیں؟ جب قانون پر عملدرآمد ہی نہیں تو پھر تو یہ بھی کیا جا سکتا ہے، چیئرمین سی ڈی اے نے کہاکہ ایک ڈھانچہ بن چکا ہے تو ہمارے پاس دو آپشن ہیں، اسے گرا دیں یا ریگولرائز کر دیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اسکو ریگولرائز کر دینگے تو جو عام آدمی کا گھر بن گیاہے ،پھر اسکو کس طرح گرا سکیں گے ؟انہوں نے ریمارکس دیے کہ ملک کے آئین کی پاسداری ہی حب الوطنی ہے ،انہوں نے استفسار کیا کہ کیاسیلنگ کلب سپورٹس بورڈ کے دائرہ کار میں نہیں آتا؟ توچیئرمین سی ڈی اے نے کہاکہ سیلنگ کلب کی تعمیرات غیر قانونی ہیں ، درخواست گزارکے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نیوی پرائیویٹ ڈویلپر نہیں ہے وہ کسی طرح بھی یہ کام نہیں کر سکتی ہے ، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ نیوی کے وکیل نے توکہا ہے کہ ان کا اس پراجیکٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ یہ بڑا عجیب ہے کہ سرونگ آفیسرز اس کی ٹرسٹ ڈیڈ میں شامل ہیں، اور جو رول بنائے گئے ہیں ان کے لیٹر بھی نیول آفس سے جاری ہو رہے ہیں؟ اور اپیل بھی نیول چیف کے پاس ہوتی ہے،جس پر فاضل جج نے کہاکہ ان کو پتہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ سب نے غلط کیا ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ان کو عدالت قانون کی عمل داری کویقینی بنانے کے لئے وقت دیتی ہے ، انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگرملک میں قانون کی حکمرانی ہی نہیں ہوگی؟ تو وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے،کیا عدالت نیول ہیڈکوارٹرز کو نوٹس جاری کر دے؟ ہمیں یہ ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ کچھ ہو نہیں رہا ہے ، عدالت کسی کو قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے گی،نیول فارمزکے وکیل نے کہاکہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ہم قانون پر عمل نہیں کرنا چاہتے،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے راولپنڈی کے قبرستان میں ان شہدا کی قبریں دیکھیں جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں؟یونیفارم کی بہت عزت ہے مگر مفادات کا ٹکرائو نہیں ہونا چاہئے،انہوں نےکہا کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے غیر قانونی ہاسنگ سوسائٹیز کی تحقیقات کرائیں تو کسی نے بتایا کہ ایف آئی اے تو خود اس غیر قانونی کام میں ملوث ہے ،بعد ازاں فاضل عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کردی ۔