امریکیوں کو اپنے آئندہ انتخابات نہیں،پورے مشرقِ وسطیٰ کا سوچنا چاہیے،روس

September 23, 2020

ماسکو (این این آئی )روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ امریکیوں کو صرف اپنے آیندہ انتخابات ہی کا نہیں سوچنا چاہیے بلکہ انھیں پورے مشرقِ اوسط کے مستقبل کا سوچنا چاہیے۔انھوں نے یہ بات عرب ٹی وی سے بات چیت میں کہی ،انھوں نے کہاکہ مجھے امید ہے اور امریکی یہ بات سمجھیں گے کہ انھیں نہ صرف اپنے آیندہ ڈیڑھ ایک ماہ میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں سوچنا چاہیے بلکہ انھیں اس خطے کے مستقبل کا بھی کچھ سوچنا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کے سب سے اہم خطوں میں سے ایک ہے۔انھوں نے شام میں معلق کرد باغیوں سے متعلق امریکا کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ تو شامی عرب جمہوریہ کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے اتحادی ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔انھوں نے کہا کہ حال ہی میں ایک امریکی کمپنی کو اپنے مقاصد کے لیے تیل نکالنے کی غرض سے لانے کے فیصلے پر خطے کے بہت سے ممالک چوکنا ہوگئے ہیں۔ یہ اقدام کرتے وقت اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2254 کیتقاضوں کے مطابق شامی عرب جمہوریہ کی علاقائی سالمیت کے احترام کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔وزیرخارجہ لاروف نے حال ہی میں لیبیا میں جامع جنگ بندی کے لیے روس اور ترکی کے درمیان حال ہی میں طے پانے والی مفاہمت کے بارے میں بھی گفتگو کی ۔ان کا کہنا تھا کہ بعض ممالک یہ نہیں چاہتے کہ لیبیا میں جاری بحران اس طرح ختم ہوجس طرح لیبی عوام چاہتے ہیں۔یہ ممالک اب بھی جغرافیائی سیاسی کھیلوں میں لیبیا کا کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ تمام مخلص ، بین الاقوامی ،یورپی اور علاقائی کھلاڑی برلن کانفرنس میں طے شدہ متفقہ ایجنڈے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔انھوں نے ایران کے خلاف امریکا کی جوہری سمجھوتے کی عدم پاسداری کے الزام میں دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نفاذ کے لیے کوششوں کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ایران کے خلاف اسلحہ کی پابندی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں امریکیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ بہت سی مزاحیہ چیزوں کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہیں۔میں تو صرف ایک ہی بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ امریکی جب تسلسل سے یہ بات کہتے ہیں کہ وہ آج بھی اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے تحت ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے کا حصہ ہیں تو پھر میں انھیں یہی باور کراسکتا ہوں کہ انھیں خود امریکی انتظامیہ کی پے درپے کڑیوں کا احترام کرنا چاہیے۔