بھوک بیماری اورحق

September 23, 2020

حرف و حکایت…ظفرتنویر
شکایتیں، گلے، شکوے اور اعتراضات تو اسی دن شروع ہوگئے تھے جب تحریک انصاف نے حکومت کی باگ سنبھالی تھی پہلے پہل حکومت کے بننے اور انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگانے لگے یہ بھی کہا گیا کہ یہ منتخب نہیں بلکہ نامزد حکومت ہے،اسے کسی اور کہ اشارہ پر اقتدار دیا گیا ہے لوگوں نے یہ باتیں ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دیں پھر کچھ ہلکے پھلکے بحران بھی آئے جو اپوزیشن نے نہیں خود حکومت نے اپنی غلطیوں سے اپنے لئے کھڑے کئے تھے آٹا، چینی، بجلی، پیٹرول اور سب سے بڑھ کر بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے ملک بھر میں بے چینی، پیٹرول اور سب سے بڑھ کر بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے ملک بھر میں بے چینی، اضطراب اور غم وغصہ کی ایک لہر دوڑا دی لیکن ملک کی اپوزیشن کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اسے کیا کرنا ہے ہمارے ملک کی اس اپوزیشن میں ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شامل ہیں جو کئی کئی برس تک پاکستان پر حکومت کرتی رہیں یہی نہیں اقتدار کے ساتھ ساتھ باری باری ملک کی حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرتی رہیں لیکن آج ان کی طرف دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہ تو حکومت کو عوام کی تکلیف کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو عوام کی کوئی فکر ہے اور یوں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی نااہلی نے عوام کو ایک ایسے اندھے کوئیں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے وہ خود تو نکل نہیں سکتے اور اپوزیشن ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں باہر نکالنے سے بدک رہی ہے ایک طرف یہ صورت ہے اور دوسری طرف اے پی سی کے اجلاس میں ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک نیا اتحاد بنایا جارہا ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ سب کچھ بھی کسی اور مقصد کیلئے کیا جارہا ہے اور یہ امید رکھی جارہی ہے کہ شاہد ’’بادشاہ گروں‘‘ کی نظر ان پر بھی پڑ جائے، اجلاس سے دوسروں کے علاوہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی خطاب کیا ان کی تقریر اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو کی تقریر سمیت سبھی تقاریر میں وہی پرانی باتیں دھرائی گئیں البتہ جنوری میں حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا عندیہ بھی دیا گیا، سبھی باتیں ہوئی ہوں گی لیکن ان باتوں کا نہ تو کوئی ذکر کیا گیا اور نہ ہی ان مسائل کا حل بتایا گیا جنہوں نے عوام کو گھیر رکھا ہے پاکستان کے عوام کا اصل مسئلہ بھوک، بیماری، غربت اور ایسی مفلسی ہے جس111111 نے اسے زندہ لاش بنا دیا ہے، میاں نوازشریف اور بلاول بھٹو سمیت اے پی سی کے بعض لیڈروں نے زندگی میں کبھی غربت دیکھی ہے اور نہ ہی مفلسی نے کبھی ان کے دروازے پر دستک دی ہے ان لیڈروں میں سے بعض تو منہ میں چاندی کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے اور بعض ایسے ہیں جن کی ’’محنت متبرکہ‘‘ نے ان کیلئے ملک میں اور ملک سے باہر دولت کے انبار لگا دیئے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کو ہمیشہ سیکنڈ کلاس شہری ہی سمجھا گیا ہے جب کس کا دل چاہتا ہے عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرلیا جاتا ہے کبھی اسلام کے نام پر کبھی احتساب کے نام پر کبھی انصاف کے نام پر اور کبھی مساوات کے نام پر یہ وہ گھمن گھیری ہے جس نے لوگوں کے ذہن مائوف کردیئے ہیں جس کا جو دل چاہتا ہے اپنی مرضی کا سبق پڑھانے لگ جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب پاکستان کے تھکے ہارے لوگ حکومتی اور اپوزیشن کی غلط بیانیوں دھوکہ دھیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنا وہ حق واپس چھیننے کی کوشش کریں گے جو کوئی دوسرا برسوں سے استعمال کرنا آرہا ہے۔