جل بِن میں اور نہ تُم

September 23, 2020

پاکستان میں میٹھا پانی روز بہ روز کم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات ہم برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں،لیکن اس مسئلے کےپائے دار حل کے لیے کسی موثر یا ٹھوس انتظام کی بابت ریاست کیا کررہی ہے،بد قسمتی سے اس بارے میں کوئی کچھ خاص اشارے نہیں ملتے۔لیکن جس طرح یہ بحران بڑھ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ جلد ہی نلوں سے نکلنے والے پانی کا نظارہ صرف امیروں کو نصیب ہو۔ ایک جانب ایک مخصوص طبقے کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹینکرز کے سامنے کئی گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے باوجود پانی کی صرف ایک بالٹی ملے اور دوسری جانب امراء کے گھروں میں ڈی سیلی نیشن پلانٹس سے پانی آرہا ہو جس کے لیے وہ حجم کے لحاظ سے ادائيگی کررہے ہوں۔مستقبل کی اس ہول ناک تصویر میں بہتری لانے کے لیےاولین ذمے داری پانی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

شہروں میں آبی قلت شدید ہوتی جارہی ہے۔ شہری علاقوں میں پانی کی ناکافی فراہمی ان لوگوں کو سب سے زيادہ متاثر کرتی ہے جنہیں مسلسل روزگار میسر نہيں ہے۔ بلکہ کئی سالوں سے کراچی کی درجنوں غیررسمی آبادیوں میں یہ تصویر حقیقت کی شکل پہلے ہی اختیار کرچکی ہے۔کراچی میں رہائشیوں کو جو تھوڑا بہت پانی ملتا ہے وہ سطح کا پانی ہے۔لاہور میں زمینی پانی فراہم کیا جاتاہے۔ آب اندوخت (aquifer) کو جس رفتار سے خالی کیا جارہا ہے، اسے اس رفتار سے دوبارہ بھرا نہيں جارہا۔ اس میں سے پانچ سے ساڑھے پانچ کروڑ ایکڑ فیٹ پانی نکالا جاتا ہے، لیکن صرف چار سے ساڑھے چار کروڑ ایکڑ فیٹ پانی دوبارہ بھرا جاتا ہے۔

اس کی تصدیق ناسا کے تحت ہونے والےایک مطالعے کے ذریعے بھی ہوچکی ہے۔ محققین نے 2003ء اور 2013ء کے درمیان دنیا کے سب سے بڑے سینتیس آب اندوختوں پر تحقیق کی، جس کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ دریائے سندھ کاطاس کشیدگی کے لحاظ سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہےاور اسے دوبارہ بھرے بغیر خالی کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ، اسے ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ (World Resource Institute) کے پانی کی کشیدگی کے انڈیکس میں بھی شامل کیا گیا ہے۔

لاہور کی1.1کروڑ کی آبادی کو روزانہ 12.9 لاکھ ایکڑ فیٹ زمینی پانی فراہم کیا جاتا ہے جو دستی پمپس، موٹر پمپس اور ٹیوب ویلز کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ 1960ء میں پنجاب میں تقریباًبیس ہزارٹیوب ویلز تھے، لیکن آج، آبی ماہرین کے مطابق، ٹیوب ویلز کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ڈبلیوڈبلیوایف پاکستان کے مطابق لاہور میں زمینی پانی کی سطح میں ہر سال 2.5 سے 3 فیٹ تک کی کمی ہوتی ہے اور اب یہ شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ شہر کے مرکزی حصے میں پانی 130 فیٹ سے نیچے چلاگیا ہے اور گلبرگ کے علاقے میں تقریباً147 فیٹ نیچے چلا گیا ہے۔ اگر زیرزمین پانی کو محفوظ نہ کیا گیا اور پانی نکالنے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2025ء تک زیادہ تر علاقوں میں پانی 230 فیٹ تک نیچے جانے کی توقع ہے۔

لیکن اس مسئلے کا تعلق صرف زیر زمین پانی کی مقدار کم ہونے سے نہیں ہے بلکہ اس کی صنعتی اور گھریلو فضلے کی وجہ سے آلودہ ہونے سے بھی ہے۔آب پاشی میں قیمتی پانی بے دریغ استعمال ہوتا ہے، لیکن فائدہ بہت کم ہوتا ہے۔ہماراتقریباً پچّانوے فی صد تازہ پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں زرعی پیداوار سب سے کم ہے۔ فصلوں کو بہت زیادہ پانی دینے کے باوجود پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے۔ واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے مطابق ملک میں پانی کی فی یونٹ پیداوار0.13 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے جو پورے خطّے میں سب سے کم ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں پیداوار کی شرح 0.39 کلوگرام فی مکعب میٹر اور چین میں 0.82 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان نے اپنے آب پاشی کے علاقے کو (برطانوی سامراج کے زمانے سے) بڑھانے کا آغاز کیا، لیکن پھر وقت کے ساتھ ان قطعوں سے مزید فائدہ اٹھانے کے بجائے، زیادہ زمین کو سیراب کرنے کی کوشش کی۔مثلا کچھی کینال منصوبے کا بھی مقصد زیادہ زمین کو سیراب کرنا ہے۔چناں چہ آج زراعت کے پانی کو دیگر سماجی اور اقتصادی شعبوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا ریاست کا بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے کیوں کہ اس میں پانی کے بہتر انتظام اور سائنسی علوم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور اس سب کے لیے عزم کے علاوہ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔حالاں کہ ایسے کئی ممالک ہیں جن میں پاکستان کے مقابلے میں کم پانی ہونے کے باوجود جی ڈی پی اور معیار زندگی بہت بہتر ہیں۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کی قلت ہوتے ہوئے بھی اچھا معیار زندگی ممکن ہے۔دراصل ان ممالک میں بہتر معیار زندگی معیشت میں زراعت کا تناسب کم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ایسے کئی ممالک ہیں۔پھر مصر کی مثال لے لیں جہاںپانی کی دست یابی کا کوٹہ کم ہوتے ہوتے سالانہ بنیاد پر 666 مکعب میٹر ہوگیا ہے، یعنی تینتالیس برسوں میں ساٹھ فی صد سے زاید کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مصر میں 2016ء میں جی ڈی پی 3,685 ڈالر فی کس تھا، جبکہ پاکستان میں صرف 1,441 ڈالر تھا۔یادرہے کہ مصر کی معیشت میں زراعت کا حصہ محض دس فی صد ہے۔ اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے، لیکن وہ جدید ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل اور سیاسی عزم کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا چالیس فی صد حصےکو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے۔ ان کے شفدان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ فیسیلٹی سے سبق سیکھ سکتے ہیں ۔اس منصوبےکے ذریعے جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب کو سالانہ چودہ کروڑ مکعب میٹر پانی فراہم کرکے پچاس ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔

پانی کی قیمت

اقتصادیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کسی شئے کی رسد کم ہو جائے اور اس کی طلب بڑھ جائے تو اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔چناں چہ آج دنیا بھر میں پانی کی قیمت لگانے کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہاں اس مسئلے کا حل یہی ہے۔ وہ کہتے ہيں کہ اگر پانی کو موثر طور پر استعمال کرنا ہے تو اس کی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔پاکستان کی نمایاں ترین آبی ماہرسیمی کمال کہتی ہیں کہ پانی تک رسائی کے بنیادی حقوق اور گھریلو،ماحولیاتی، ثقافتی اور بلدیاتی استعمالات کے علاوہ، دیگر تمام استعمالات کے لیے بل بھجوا کروصولی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے زيادہ ضرورت زراعت کے شعبے میں ہے، جس میں ستّانوے فی صد تک سطح پر موجود اور زیرِ زمین پانی استعمال ہوتا ہے۔

تاہم بعض ماہرین اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شہر میں پانی کی بلنگ ہونی چاہیے ، خواہ اس کی فراہمی کہیں سے بھی ہو۔ اس سلسلےمیں ماحولیاتی وکیل اور کارکن احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ جب پانی کے بل کی بات کی جائے تو محکمہ آب پاشی کے زیر استعمال انفرااسٹرکچراور مرمت کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زرعی ٹیوب ویلز کے نرخوں پر نظرثانی اور ان میںترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیمی کمال کا خیال ہے کہ جب ہر شخص پانی کا بل ادا کرے گا تواس کا استعمال کم ہوگا،زیاں کم ہوگا، فصل اگانے کے طورطریقے تبدیل ہوں گے اور مارکیٹ ایڈجسٹ ہو جائے گی۔وہ کہتی ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کلیاتی معیشتی اقدام اور نچلی سطحوں پر شہریوں کے طور طریقے اقتصادی حقیقتوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وافر مقدار میں پانی استعمال کرنے والی فصلیں، جیسے کہ گنا، ترک کردینی چاہییں کیوں کہ چینی عالمی منڈیوں سےنسبتا سستے داموں خریدی جاسکتی ہے۔

پانی کا تحفظ

ہمارے پانی کے وسائل کی بدانتظامی کے علاوہ عالمی حِدّت کی وجہ سے بارشوں کےانداز کی تبدیلی اور ذخائر میں سرمایہ کاری ناکافی ہونے کے باعث پاکستان میں شدید سیلاب، قحط سالی اور قدرتی آفات میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔تاہم ہر سطح پر پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کرکے پانی کی قلت کے مسائل کافی حد تک حل کیے جاسکتے ہيں۔ ہم اس وقت سطح کے دست یاب پانی میں سے آٹھ فی صد سے بھی کم ذخیرہ کر رہے ہیں۔دریائی نظام کی ماحولیاتی بہاؤ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہم اضافی پانی کو بغیر استعمال کیے سمندر میں ضایع کردیتے ہيں۔

حالاں کہ ہمیں ایک دیرپا نظام آب پاشی کے قیام کے لیے تقریباً چالیس فی صد پانی ذخیرہ کرنا چاہیے۔پورا سال ہمارے دریاؤں میں پانی کی فراہمی ناہم وار رہتی ہے جس کی وجہ سے ہر سطح پر مناسب ذخیرے کی عدم فراہمی کی صورت میں پانی کے وسائل کا تسلی بخش انتظام ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس طرح دریاؤں کے نچلے حصوں میں، جہاں سال کے تین مہینے 75 سے 80 فی صد پانی دست یاب ہوتا ہے، باقی نو مہینے پانی دست یاب نہيں ہوتا،وہاں طاس کے سوکھنے کا بہانہ ختم ہوجائے گا۔پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کے اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے ڈیلٹا کا تحفظ اور سمندری پانی کے داخلے کی روک تھام ممکن ہے۔

ذخیرہ ہونے والے پانی کے بہتر انتظام اور برابری کے اصولوں کے تحت پورا سال یا حسب ضرورت خارج کیا جاسکتا ہے۔لیکن ہمارے سرکاری اداروں میں پانی کے شعبے کو بہتر بنانے کی صلاحیت محدود ہے اور انہيں ٹھیک کرنے کی متعدد کوششیں اور سرمایہ کاری ناکام رہی ہے۔چناں چہ بعض ماہرین پانی کے انتظام کے لیے نجی شعبے کی مداخلت کی حمایت کرتے اور کہتے ہيں کہ ہمیں کوئی مزید اختراعی حل نکالنا ہوگا۔ سہولتیں تقسیم کرکے غیرریاستی شعبوں کے ہاتھ میں دے کر ان مسائل کے حل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔

پانی کا شعبہ وار استعمال

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے UNDP کی 2016 میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 91.6 فی صد استعمال زرعی شعبے میں ہوتا ہے۔ شہری آبادی میں استعمال ڈھائی فی صداور صنعتوں میںتین اعشاریہ تین فی صد ہے۔ لہٰذا ہماری آئندہ کی حکمت عملی اسی کی روشنی میں ہونی چاہیے اور سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے شعبے پر سب سے زیادہ روشنی ڈالنی چاہیے۔

استعمال سے حاصل ہونے والے فواید

ملکی معیشت میں آبی وسائل کے کردار کو اگر صحیح طور پر سمجھنا ہے تو اس کے لیے عالمی بنک کی وضح کردہ اصطلاح واٹر پروڈکٹیوٹی کو دیکھنا ہوگا۔ یعنی اگر کل جی ڈی پی کو تازہ پانی کے کل استعمال سے تقسیم کر دیں تو یہ پتا چل جائے گا کہ فی ڈالر جی ڈی پی پیدا کرنے میں کتنے مکعب میٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ واٹر پروڈکٹیوٹی لگ زمبرگ کی ہے جو 1308 ڈالر فی مکعب میٹر پانی ہے۔ پاکستان صرف ایک ڈالر فی مکعب میٹر پر ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک بھارت اور ایران بالترتیب 3 اور 4 ڈالر فی مکعب میٹر پر ہیں۔

زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ملک میں آب پاشی بہت اہم شعبہ ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہی پانی ذخیرہ کرنے کا نظام بھی ہمارے پاس بڑے ڈیموں کی صورت میں موجود ہے جن میں قابل ذکر تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور دیگر بڑے چھوٹے ڈیم ہیں۔ تاہم آج سے پچاس سال قبل یہ بات یقینا قابل فخر تھی مگر جوں جوں وقت گزرا تو دو عوامل نہایت تیزی سے کام کر گئے جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔

پہلی بات جو سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نہری نظام وقت کے ساتھ بوسیدہ ہوتا چلا گیا اور ایک مسئلہ خصوصاً یہ آیا کہ کچی نہروں سے جو پانی زمین میں رستا رہا وہ ایک طرف تو پانی کے زیاں کا موجب بنتا رہا اوردوسری طرف سیم اور تھور جیسے مسائل پیدا کرتا رہا۔ ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ ڈیموں میں مٹی بھرنے سے ایک طرف تو ان کا حجم کم ہوتا چلا گیا اور دوسری طرف راک سائیکل میں بھی مداخلت ہوتی رہی، وہ یوں کہ پہاڑوں کی مٹی جو میدانی علاقوں کو زرخیز کرتی ہوئی سمندر میں جاتی ہے اور سمندری حیات کے لیے ضروری ہے، وہ ڈیموں میں رکنے لگی۔

دوسری بات جو اور بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ وقت کہ ساتھ ٹیکنالوجی جدید ہوتی گئی، لیکن ہم اب تک صدیوں پرانے نظام آب پاشی پرانحصار کیے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں آج کل کم پانی میں زیادہ زمین سیراب کرنے والے جدید ترین آب پاشی کے نظام آچکے ہیں۔جن میں ڈرپ اری گیشن اوراسپرنکلر سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کرکے80سے90 فی صد پانی بچایا جا سکتا ہے۔چناں چہ اگر ہمیں اپنے ملک کے آبی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانااور ملک کو ترقی دینی ہے تو ہمیں اپنے آبی ذخائر میں اضافہ کرناہوگا یا پھر کھیتوں میں جو بے پناہ پانی ضایع کیا جارہا ہے اس میں کمی لانا ہوگی۔یا پھر دونوں طریقوں پر غور کرنا ہوگا۔

مناسب فصلوں کا انتخاب

ایک جانب یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب ہمارے ہاں زیادہ پانی مانگنے والی فصلیں جیسےکہ گنا اور چاول وغیرہ کی کاشت بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح کپاس کی فصل جو کم پانی لیتی تھی اب اس کی کاشت میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور اس کی جگہ گنے کی کاشت بڑھ رہی ہے۔ اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فصلیں جیسے کہ سورج مکھی وغیرہ جو کم پانی میں اگ جاتی ہیں اور زیادہ منافع دیتی ہیں، ان کی کاشت بڑھانے کی ضرورت ہے۔دراصل سرکاری سطح پر ایسی پالیسی لانی چاہیے جو فصلوں کی جانب ملک کے کسانوں کی صحیح راہ نمائی کرے۔ اسی طرح آب پاشی کے جدید طریقے بھی اپنانے ہوں گے۔

قابلِ تقلید مثالیں

پاکستان میں صحرائے تھر کے بیش تر باسی تب ہی فصلیں کاشت کرتے ہیں جب بارش کے بعد پانی بنجر زمین کو سرسبز و شاداب بنا دے۔ لیکن ساٹھ سالہ کسان الله رکھیو کھوسو کو بارش کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔نگرپارکر میں کارونجھر پہاڑوں کے سائے میں کھوسو نے صحرا میں ایک باغ لگانامٹکے یا گھڑے استعمال کرکے حقیقت بنادیا ہے۔آٹھ سالوں کے بعد ، کھوسو کے پاس 400 بیری کے درخت ، 70 لیموں کے ، تین آم کے اور انار کے چار درخت ہیں۔ وہ تھرپارکر ضلعے میں اپنی سرزمین پربھنڈی ، کریلے ، پیاز ، مرچ اورٹینڈے جیسی سبزیاں اور ساتھ ہی تربوز اگاتے ہیں۔

گھڑے سے آب پاشی کے طریقےمیںچوڑے پیندے اور تنگ منہ والےمٹی کے ایک بڑے برتن کو زمین میں دفن کرکے پانی سےبھر دیا جاتاہے-مٹکے سے پانی رِس رِس کر آس پاس کی مٹی میں جذب ہوتارہتا ہے اور قریبی پودوں کی جڑیں سیراب کرتا رہتا ہے۔یوں بخارات کی صورت میں اس قیمتی مایع کی کم مقدار ضایع ہوتی ہے۔

انہیں ان کے ایک دوست نے یہ طریقہ بتایا تھا۔وہ پہلے گھڑے کےپیندے میں ایک چھوٹا سا سوراخ کرتے ہیں-پھر چھید سے رسی ڈالتے ہیں ، پھر گھڑے کومٹی میں دبا دیتے ہیں اور اس کے گرد کیچڑ اور ریت کو اچھی طرح بھر دیتے ہیں۔ اس سے صرف اس گھڑے کا منہ کھلا رہتا ہے ، جسے کھوسو پانی سے بھرتے ہیں۔

پانی چھدری مٹی سے گزرتا ہے اور رسی کے ذریعے ریت میں منتقل ہوتا رہتا ہے، جہاں وہ آس پاس لگے پیڑوں اور پودوں کی جڑوں میں جذب ہوتا جاتا ہے- قدرتی کھاد کے ساتھ ساتھ کھوسو نگر پارکر کے قریب واقع شہر ویراوہ سے کیچڑلاکراستعمال کرتے ہیں جہاں ایک قدیم جھیل موجود ہے۔ ہر گھڑادو سے تین فیٹ چوڑا ہے اور اس میںدس لیٹر پانی آتا ہے جو پندرہ تا بیس دن تک مٹی کو سیراب کرتا رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں گھڑے کے ذریعے آب پاشی عام نہیں ہے۔ ضلع سانگھڑ میں بھی بعض کسانوں نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے لیموں کے باغات لگائے ہیں۔ شہروں میں لوگ اس ٹیکنالوجی کو چھوٹے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہندوستان کے علاقے راجستھان کے ریگستان جیسے نیم بنجر علاقوں میں بہت کارآمد ہے۔ جہاں پانی کی دست یابی مسئلہ ہے۔ وہاں کاشت کار زراعت کو فروغ دینے کے لیے گھڑے استعمال کرتے ہیں۔صحرا میں لوگ خوش حال نہیں ہیں ۔ انہیں گھڑے والی تیکنیک کی اہمیت کا احساس نہیں ہے اور ہمارے ملک میں یہ سستی بھی نہیں ہے ، لہذا ہمیں پانی کی بچت کی یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر نظر نہیں آتی۔

یہ گھریلو باغ بانی کے لیے بھی کارآمد ہے۔ حکومت سندھ اور محکمہ زراعت کو ان کاشت کاروں کی سہولت کےلیے آگے آنا چاہیے جو محدود وسائل کے ساتھ گھڑے والی تیکنیک استعمال کررہے ہیں۔یہ طریقہ کار کسی بھی فصل کے لیے روایتی آب پاشی سے ستّرفی صد کم پانی استعمال کرتا ہے- اس کے فوائد کے باوجود یہ ٹیکنالوجی اپنی فطرت کی وجہ سے ایسی جگہوں اور پودوں تک ہی محدود ہے جو اس کے استعمال سے مفید طور پر اگائی جاسکتی ہے۔

یہ مٹی کے مقابلے میں ریت میں زیادہ موثر ہے اور صحرا کے علاقوںکےلیے ہی موزوں ہے۔اگر ہم اس ٹیکنالوجی کو قومی سطح پر استعمال کریں تو ہمیں زیادہ پانی اور زیادہ گھڑے کی ضرورت ہوگی اور یہ بہت مہنگا ہوگا۔ لہذا یہ بہترین ہے گھریلو سطح پر اور ان علاقوں کے لیےجہاں پانی کی کمی ہے- خاص طور پر تھر میں اب لوگ گھڑے کی کاشت سے تازہ سبزیاں استعمال کر رہے ہیں۔ لہذا یہ مقامی لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یہ پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کےلیے استعمال ہوسکتا ہے۔

قطرہ آب پاشی کا تجربہ

پاکستان میں کئی کسان موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر کاشت کاری کے عمل میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم سرمائے کے فقدان اوراور تعلیم کی کمی کے باعث زیادہ تر کسانوں کے لیے یہ ایک مشکل عمل ثابت ہو رہا ہے۔اکیس سالہ معیز اسد اللہ پاکستان کے صوبے سندھ میں سات ایکڑ زمین کی تنہا ہی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ان کے والد کا انتقال 2011 میں ہو گیا تھا۔ اسد اللہ کے دو بھائیوں کو کاشت کاری میں کوئی دل چسپی اس لیے نہیں رہی کیوں کہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب زراعت ایک منافع بخش شعبہ نہیں رہا۔لیکن اسد اللہ مایوس نہیں ہوئے۔انہوں نے بدلتے موسم کے مطابق ایک نئے منصوبے کا آغاز کیا اور لاڑکانہ سے کچھ میل کے فاصلے پر واقع اپنے گاؤں بکرانی میں چاول کی کاشت اس لیے روک دی کیوں کہ اس میں بہت زیادہ مزدوری درکار ہوتی ہے اور چاول کی فصل تیار ہونے میں کئی مہینے لگتے ہیں۔

اب اسد اللہ چاول کی جگہ سبزیاں کاشت کرتےہیں،جو بہت جلد تیار ہو جاتی ہیں اور انہیں چاولوں کی نسبت پانی کی بھی کم ضرورت ہوتی ہے۔اسد اللہ اب اپنے کھیتوں میں گوبھی، پالک، ہری مرچ، بند گوبھی، ٹماٹر اور پیاز کاشت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب کئی کسان، جو زیادہ زمین کے مالک ہیں، ڈرپ اری گیشن جیسی تیکنیک استعمال کر رہے ہیں، جس سے پانی کا استعمال کم ہوجاتا ہے۔ اسد للہ بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا کرنے کے لیے انہیں ہر ہیکٹرپرتقریبا آٹھ سو ڈالرز خرچ کرنا پڑیںگے۔

دوسری جانب خیر پور کے علاقے میں نواز سومرو 80 ہیکٹر زمین پر لیزر کی مدد سے کپاس کی پیداواربڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ تعلیم اور مالی وسائل کی بہ دولت اب وہ لیزر ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جس کے ذریعے اب فصل کو کم پانی درکار ہوتا ہے۔

زرعی ماہرین کے مطابق وہ کسان جو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق کاشت کاری کے طریقے تبدیل کر رہے ہیں فوڈسیکیورٹی میں 8 سے 13 فی صد بہتری لائے ہیں۔دوسری جانب تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دولت مند کسان،جو زیادہ زمین کے مالک ہیں اور تعلیم یافتہ بھی ہیں، اب تیزی سے کاشت کاری کےنئے طریقے اپنا رہے ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو ایک ایسے مستقبل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں غیر یقینی موسمیاتی مسائل کی وجہ سے ایسے کئی کسان زراعت کا شعبہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گےجو ملک کی اسّی فی صد زمین پر کاشت کاری کرتے ہیں۔

ایک خطرناک صورت حال ہمارے سامنے ہے ۔ ایسے میں ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ورنہ حالات کی ایک پھونک ہمیں شدید نقصان پہنچاسکتی ہے۔