’ماہِ صفر اور توہم پرستی‘ اسلامی تعلیمات کے منافی عمل

September 25, 2020

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ ربانی ہے:انہوں نے کہا: ہم تمہیں نامبارک سمجھتے ہیں، اگر نہ باز آئے تم تو ہم ضرور سنگسار کردیں گے تمہیں اور پائوگے تم ہمارے ہاتھوں دردناک سزا۔انہوں نے کہا:تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے ،(یہ باتیں تم)کیا اس لیے کررہے ہو کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم ایسے لوگ ہو جو حد سے بڑھ گئے ہو۔(سورئہ یٰسین آیات 18،19)

ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے توہم پرستی اور بدشگونی کی مذمت بیان فرمائی اور اسے گمراہ کن قرار دیا ہے اور اس حوالے سے اصحاب ِقریہ کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ایک بستی ’’انطاکیہ‘‘کے اندر اللہ تعالیٰ نے دو پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ انہیں شرک وکفر سے بچنے اور توحید ورسالت کے ماننے کی دعوت دیں ،پھر اللہ تعالیٰ نے ان دو رسولوں کی نصرت واعانت کے لیے ایک تیسرا رسول بھیج دیا، بستی والوں نے انہیں جھٹلا دیا، بلکہ ان کا مزاق بھی اڑایا ، جس کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب وتوہین کی وجہ سے بارش بند ہو گئی اور قحط کی شکل پیدا ہو گئی ،اب بستی والوں نے کہا کہ ہم تمہاری آمد کو منحوس سمجھتے ہیں، تمہارے آنے کے بعد سے ہمارے اوپر مصائب آنا شروع ہوگئے ،حالانکہ وہ مصائب رسولوں کے آنے سے نہیں ،بلکہ انہیں جھٹلانے کی وجہ سے آئے تھے ۔اس پر ان پیغمبروں نے جواباًبستی والوں سے کہا کہ یہ مصیبت تو تمہاری اپنی پیدا کردہ ہے اور تمہاری بد اعمالیوں کےسبب ہے۔

اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی اعمال کے سبب ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: "اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ)

نحوست کا تعلق ہر گز کسی دن، وقت، تاریخ، مہینہ یا سال سے نہیں ہوتا۔ کسی بھی انسان کا آزمائش میں مبتلا ہونا قانونِ قدرت ہے، وہ جو چاہے کرے، جسے جیسے چاہے آزمالے۔ کسی دن یا مہینے میں مصیبت نازل ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اسے منحوس قرار دے دیا جائے۔ تاریخِ اسلام کے کئی ایسے خوشگوار واقعات ماہِ صفر میں رونما ہوئے ہیں جن کو جاننے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ ماہِ صفرخیر والا مہینہ ہے۔ کسی شے کے بارے میں بدفالی، نحوست اور توہّم پرستی کا نظریہ درحقیقت ایک غیراسلامی سوچ اور اسلامی تعلیمات کے منافی عمل ہے۔ہمارے معاشرے میں بدفالی ،نحوست اور توہّم پرستی جہاں دیگر امور میں سمجھی جاتی ہے،وہاں ماہِ صفر کے متعلق عموماً لوگ بے شمار غلطیوں ،ضعیف الاعتقادی ،بدفالی اور توہّم پرستی کا شکار نظر آتے ہیں،جس کا حقیقت اور اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

اسلام سے قبل صفر کے مہینے کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں، مثلاًلوگوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں، لہٰذا وہ اس مہینے میں سفر وغیرہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اسے جنگ وجدال کا مہینہ شمار کرتے تھے اور جوں ہی محرم کا مہینہ ختم ہوتا ، آپس میں جنگ شروع کردیتے تھے۔ (تفسیر ابن کثیر )

اسلامی تعلیمات سے دوری کے سبب آج کے مسلمانوں میں ایسی بہت سی باتیں رواج پا چکی ہیں، جن کا نہ صرف یہ کہ سنت و شریعت سے کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ وہ شریعت و سنت کی تعلیمات سے سراسر متصادم بھی ہیں۔عموماً معاشرے میں صفر المظفرکی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس تصور کیا جاتا ہے اور ان دنوں میں نہ صرف یہ کہ شادی، بیاہ اور سفر وغیرہ سے گریز کیا جاتا ہے، بلکہ بعض مقامات پر تیرہ تاریخ کو چنے اُبال کر اور بعض جگہوں پر چُوری بنا کر تقسیم کی جاتی ہے۔ اب تو رفتہ رفتہ پورے صفر کے مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا گیا ہے اور پورے مہینے کو منحوس سمجھ کر اس میں کسی بھی نئے کام کا آغاز نہیں کیا جاتا۔ اس کی بظاہر وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان تیرہ دنوں میں حضور اکرم ﷺ کے مرض الوفات میں شدت آگئی تھی، لہٰذا یہ نظریہ اپنا لیا گیا کہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن اور ان کی وجہ سے پورا مہینہ منحوس اور ہر قسم کی خیر و برکت سے خالی ہے۔ حالانکہ اس بات کی کوئی اصل نہیں، بلکہ آپﷺ کے مرض میں شدت صفر کے آخری ایام میں پیدا ہوئی تھی، جس کا ذکر آگے آتا ہے۔

عوام میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ اس مہینے میں لولے، لنگڑے اور اندھے جنات بڑی کثرت سے آسمان سے اترتے ہیں اور لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اسی وجہ سے بعض لوگ اس مہینے میں صندوقوں اور درو دیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح ہم ان ضرر رساں جنات کو بھگارہے ہیں، اسی بناء پر بالخصوص خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے معاملے میں بہت محتاط اور خوف زدہ رہتی ہیں کہ کہیں یہ جنات انہیں نقصان نہ پہنچادیں۔بعض علاقوں میں صفر کے مہینے کے اختتام پر خواتین مکڑی کے جالے صاف کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’اے صفر!دور ہوجا‘‘۔ان تمام باتوں کی بنیاد اس مہینے میں بکثرت جنات کے زمین پر اترنے اور لوگوں کو نقصان پہنچانے کے نظریے پر ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔

اسی طرح عوام میں مشہور ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم ﷺ کی بیماری میں افاقہ ہوگیا تھا اور آپﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا، پھر تفریح کے لیے گھر سے باہر تشریف لے گئے تھے، اسی بناء پر لوگوں میں مختلف رسمیں مشہور ہیں:بعض خواتین گھی، چینی یا گڑ کی روٹیاں پکا کر تقسیم کرتی ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور اکرم ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کیا تھا۔بعض لوگ اس بدھ کو اہتمام سے سیرو تفریح کے لیے باغات اور پارکوں میں جاتے ہیں اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اس روز اپنی صحت یابی کی خوشی میں حضور اکرمﷺ نے تفریح فرمائی تھی۔

بعض لوگ پکے ہوئے چھولے اور عمدہ قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کرتے ہیں اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم حضور اکرم ﷺ کی صحت یابی کی خوشی میں یہ عمل کرتے ہیں۔بعض علاقوں میں باقاعدہ تہوار منایا جاتا ہے۔مزدور اور کاریگر مالکان سے اس دن کھانے ، مٹھائی کا مطالبہ کرتے ہیں ان تمام رسومات کی بنیاد غلط اعتقاد ہے کہ حضور اکرم ﷺ صفر کے آخری بدھ کو صحت یاب ہوئے ،حالانکہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اکرم ﷺ کی بیماری میں افاقہ نہیں،بلکہ آغاز ہوا اور اسی بیماری میں آپ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔

یہ بات واضح ہوئی کہ صفر کے آخری بدھ کو سرکار دو عالم ﷺ کے مرض الوفات کا آغاز اور اس میں شدت واقع ہوئی تھی۔ یہود نے اس دن خوشیاں منائی تھیں، ان سے یہ تہوار ہندوؤں کی طرف منتقل ہوا۔ پھر مسلمانوں کو یہ مغالطہ دیا گیا کہ اس دن حضور اکرم ﷺ صحت یاب ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے غسلِ صحت فرمایا تھا اور مدینہ منورہ سے باہر تفریح کی غرض سے تشریف لے گئے تھے۔افسوس کہ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے مسلمان بلاتحقیق باطل کے اس حربے میں آگئے اور اپنے محبوب نبی ﷺ کی شدتِ مرض کے دن کو تہوار کے طور پر منانے لگے۔

اسی طرح عوام کی ایک بڑی تعداد اس مہینے میں شادی بیاہ کو ممنوع سمجھتی ہے اور مشہور ہے کہ ’’جو شادی صفر میں ہوگی ،وہ صِفر ثابت ہوگی‘‘، لہٰذا بعض لوگ اس مہینے میں شادی سے انتہائی گریز کرتے ہیں اور پہلے سے طے شدہ تاریخوں تک کو محض صفر کی وجہ سے تبدیل کردیتے ہیں،اسی طرح خوشی کی دوسری کوئی تقریب بھی منعقد کرنے سے قصداً گریز کیا جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ صفر کا مہینہ (نعوذباللہ) نامبارک اور منحوس ہے، لہٰذا اس میں کیا جانے والا کام بھی نامبارک و منحوس ثابت ہوگا۔

یہ اعتقاد سراسر غلط اور خلافِ شریعت و سنت ہے۔سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی مہینہ بھی منحوس نہیں ہے۔ متعدد احادیث میں سرور کونین ﷺ نے اس بات کی نفی واضح طور پر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی چیز میں فی نفسہٖ کوئی نحوست نہیں ہوتی۔حکیم بن معاویہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی بھی چیزمیں کوئی نحوست نہیں۔ گھر، عورت، سواری (جس کو لوگ منحوس سمجھتے ہیں) ان سے بھی برکت ہوتی ہے۔(ترمذی)

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ماہِ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔ (مسلم شریف)امام بخاریؒ نقل کرتے ہیں: ماہ صفر میں بیماری، بدشگونی و نحوست، شیطان جنات کی گرفت کے اثرات کی کوئی حقیقت نہیں۔(بخاری ذیل حدیث لاعدویٰ ولاطیرۃ)

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا’’ ایک کی بیماری د وسر ے کو نہیں لگتی،نہ بدفالی ونحوست کوئی چیز ہے، نہ الّو کا بولنا کوئی اثر رکھتا ہے اورنہ صفر کا مہینہ منحوس ہے ‘‘۔ تو معلوم ہوا کہ نحوست کسی دن یا کسی چیز میں نہیں ہوتی، بلکہ نحوست کا سبب ہمارے گناہ ہوتے ہیں۔ اس نحوست کو ختم کرنے کے لیے اپنے گناہوں کو چھوڑ کر کثرت سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے، تاکہ اللہ کی ناراضی دور ہوسکے۔