بری نثر سے خوبصورت نظم تک

September 25, 2020

بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ جس حرکت کو چھپانا پڑے وہ جرم ہوتا ہے یا گناہ اور اگر کوئی بچہ یہ حرکت کرے تو وہ شرارت ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستدان بھی عجیب قسم کی مسخری مخلوق ہیں جو سو چھتر بھی کھاتے ہیں سو پیاز بھی کھاتے ہیں لیکن باز نہیں آتے، سبق نہیں سیکھتے۔

بندہ پوچھے اللہ کے بندو! کچھ چھپانا ہی ہے تو مال، کمیشن، کک بیک، توشہ خانے کے سستے خریدے گئے مہنگے ترین غیر ملکی تحفے چھپائو اور پکڑے بھی جائو تو ڈھٹائی سے صاف مکر جائو تو بات سمجھ میں بھی آئے لیکن تم ’’ملاقاتیں‘‘ چھپا رہے ہو اور ملاقاتیں بھی کس سے؟ اپنے آرمی چیف سے تو سوائے چوروں کی داڑھی میں تنکے بلکہ پورے کے پورے جھاڑو کے اور کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سب کے سب جھوٹے ہوتے تو شاید اوکھے سوکھے گزر بسر کرلیتے لیکن مصیبت یہ کہ منافق ہیں۔

سخت لفظ لکھ گیا اس لئے واپس لیتا ہوں، یہ منافق نہیں، ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں لیکن اس حقیقت کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا کہ ہاتھی کے دانت ہوتے بہت قیمتی ہیں۔

اسی لئے ہمارا ہر سیاستدان بہت ’’قیمتی‘‘ ہے کیونکہ چلتی پھرتی سونے بلکہ ہیرے جواہرات کی کان ہے۔ ان کی ’’گہری کھدائی‘‘ کرکے دیکھو، اتنا کچھ نکلے گا کہ پاکستان نہ صرف آئی ایم ایف وغیرہ کے قرضے چکا سکے گا بلکہ آئی ایم ایف کو بھاری قرضے دے بھی سکے گا۔ یہ سب کے سب چلتے پھرتے ’’خفیے‘‘ ہیں۔ ’’خفیہ‘‘ ان کے ڈی این اے (DNA) کا حصہ ہے اس لئے یہ ہر بات عوام سے ’’خفیہ‘‘ رکھنا چاہتےہیں ۔

اللہ نہ کرے کوئی ایمرجنسی ہو، جنگ یا جنگی صورت حال کا سامنا ہو، کوئی نائن الیون ہوگیا ہو، کسی غیر ملکی وفد سے مذاکرات ہوں یا کوئی اور حساس معاملہ تو اسے ’’خفیہ‘‘ رکھنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن روٹین کے گلے، شکوے، شکائتیں جیسے ’’میری چیچی دا چھلا ماہی لالیا..... ’’اوتھے‘‘ جا کے شکیت لاواں گی‘‘ میں کیا شرمانا؟ ریلیف کی بھیک مانگنے کو کیا چھپانا؟ لیکن نہیں ان بہروپیوں کے کئی کئی چہرے ہیں۔

کوئی اصلی حقیقی چہرہ کوئی نقلی چہرہ۔ بند کمرے کا چہرہ اور عوامی چہرہ اور: جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ گیا گزرا ترین آدمی بھی یہ حرکتیں نہیں کرسکتا جو یہ قائدین ایسے کر گزرتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک وقت تھا جب ’’شرافت کی سیاست‘‘ کے خودساختہ علمبردار نے بے نظیر بھٹو مرحومہ کو ان کی والدہ سمیت پمفلٹس کی صورت میں سکینڈلائز کیا اور سرعام جلسوں میں ایسی ’’شریفانہ‘‘ زبان استعمال کی جسے دہراتے ہوئے مجھ جیسے منہ پھٹ، لٹھ مار کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے، پھر اسی کو بہن بھی بنا لیا اور ’’میثاق جمہوریت‘‘ بھی ہوگیا کہ ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘ اور یہ آگ بھی ہوس اقتدار کی۔

پھر جب جس کا جی چاہا اس نے یہ میثاق جمہوریت کبھی ’’سینڈل‘‘ اور کبھی مگرمچھ کی کھال سے بنے مردانہ جوتے تلے روند دیا۔ ابھی کل کی بات ہے جس کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پرگھسیٹنے کی بڑھکیں مار رہے تھے، آج ایسے جپھیاں مار رہے ہیں جیسے کسی میلے میں بچھڑے بھائی یا چاچا بھتیجا ہوں۔سمجھ نہیں آتی یہ کس مٹی سے بنے ہیں جن کا دین ایمان ہی کوئی نہیں۔

یہاں یہ وضاحت نہایت ضروری ہوگی کہ ’’دین ایمان‘‘ سے میری مراد سیاسی دین ایمان ہے ورنہ ان جیسے دیندار اور ایمان دار تو نہ کسی نے دیکھے نہ سنے، اسی لئے تو ملک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور عوام ’’مہنگائی‘‘ کے ہجے تک بھول گئے ہیں لیکن سمری آف دی ٹریجڈی یہی ہے کہ ’’جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کردیئے جاتے ہیں‘‘۔ اور اب آخر میں ممبئی (ہندوستان) سے میرے ایک قاری جناب ڈاکٹر سدھیر تیج پال صاحب کی بھیجی ہوئی انگریزی کی یہ نظم بغیر کسی تصحیح کے

IT TAKES SUMMER SUN AND RAIN WATER...TO MAKE THE GARDENS GROW.IT TAKES THE TWINKLING STARS & MOONLIGHT...TO MAKE THE HEAVENS GLOW.IT TAKES A WILL & LOTS OF HARD WORK...TO MAKE A DREAM COME TRUE.AND TO MAKE SOME THING WORTH LISTENING. IT TAKES A PERSON LIKE YOU.LOTS OF LOVE TO ALL PAKISTANIS FROM INDIA.

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)