چھیڑ خوباں سے ....!!

September 25, 2020

آج لکھنے کے لئے کوئی مخصوص موضوع ذہن میں نہیں تھا اس لئے برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ مواد دیکھنے لگا۔وقت گزرنے کے ساتھ میری دلچسپی تحریک پاکستان، قائداعظم اور تاریخ پاکستان سے اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام طور پر انہی موضوعات کے بارے میں کتابیں اور دیگر مواد دیکھتا رہتا ہوں۔ سیاست کاپوسٹ مارٹم کرنے کی بجائے جی چاہتا ہے کہ تحریک پاکستان یا تاریخ پاکستان کے حوالے سے قارئین میں آگہی کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔کیونکہ آج کی مصروف زندگی میں لوگوں کے پاس مطالعے کا وقت کم ہی ہوتا ہے ۔ جذبات کو ابھارنا آسان ہے لیکن ذہن کو جھنجھوڑنا آسان نہیں۔ ہمارے کئی عالم و فاضل لکھاری تواترسے لکھتے رہتے ہیں کہ قائداعظم کو وہی رہنے دیں جو وہ تھے ۔ان سے پوچھو کہ ’’جو وہ تھے’’ سے کیا مراد ہے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد وہ قائداعظم ہے جیسا ان کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ کیا آپ نے کبھی قائداعظم کو صحیح طورپر سمجھنے کے لئے ان کی سوانح عمریاں، تقاریر اور سرگرمیوں کا مطالعہ کیا؟جو اب آئیں بائیں شائیں۔مزید کریدو تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے ادھر ادھر سے سنی سنائی چند باتوں اور مغربی لباس میں ملبوس قائداعظم کو ذہن میں سجا رکھا ہے اور مذہب سے ماورا ایک شخصیت کا خاکہ بنا رکھا ہے جسے سمجھنے اور مطالعہ کرنے کی انہیں فرصت ہی نصیب نہیں ہوتی لیکن انہیں اپنے خیالات عالیہ پر اصرار بھی ہے۔چنانچہ اگر کبھی کبھار انہیں قائداعظم کی عملی زندگی، قلبی احساسات، مذہبی لگن اور نظریاتی تقاریر کی جھلک دکھائی جائے تو ان کو صدمہ ہوتا ہے ۔

کچھ عرصہ قبل لندن سے میرے مہربان دوست بیرسٹر نسیم باجوہ صاحب تشریف لائے تو میرے لئے بار نے BARNEYکی کتاب (PARTITION) لانا نہ بھولے۔ برطانوی مستند مواد پر مبنی اس کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا تو بعض معاملات کی تصدیق کرنے کیلئے کچھ اور مواد دیکھنے لگا۔ اس مواد میں جہاں انگریز حکومت کی ڈائریاں، وائسرائے کے خطوط اور دوسرے اہم ڈاکومنٹس شامل تھے ان میں ایک تصویر بھی تھی جسے نادر تصویر کہا جا سکتا ہے۔ بعدازاں میں نے ممتاز اسکالر ڈاکٹر ریاض احمد کی کتاب (PAKISTAN MOVEMENT NEW DIMENSIONS)(1935-48)کھولی تو اس میں بہت سی تصاویر کے جھرمٹ میں یہ تصویر بھی شامل تھی جو اس دور کے بمبئی کے اخبارات سے لی گئی تھی۔ تصویر پر نظر پڑی تو سوچا کہ اپنے سیکولر دوستوں کو تھوڑا سا جھٹکا دوں جنہیں قائداعظم کے مذہبی پہلو سے صدمہ ہوتا ہے۔ بمبئی کے اخبارات میں شائع شدہ یہ تصویر 13نومبر 1939ء بروز سوموار کی ہے ۔ عیدالفطر کا دن تھا اور اسپیلانڈے میدان میں نماز عید ادا کی جا رہی ہے۔ پہلی صف میں محمد علی جناح شیروانی پاجامے میں ملبوس نظر آ رہے ہیں ظاہر ہے کہ اس وقت قائد اعظم کو لندن سے واپس آئے ساڑھے چار برس گزرے تھے اور ابھی قرارداد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی۔ امامت بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد خجندانی کر رہے ہیں جو مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا تھے۔ مولانا نذیر احمد کا بیان ہے کہ قائداعظم مذہبی معاملات میں اکثر ان سے مشورہ کرتے تھے۔یہ مولانا نذیر احمد وہی ہیں جن کے ہاتھ پر رتی مشرف بہ ا سلام ہوئیں۔ قائد اعظم رتن بائی کو مولانا نذیر احمد کے پاس لے کر گئے، 18اپریل کو مشرف بہ اسلام کیا جس کی خبر بمبئی کے تمام اخبارات میں چھپی اور پھر 19اپریل 1918ء کو اس سے نکاح کیا۔ خواجہ رضی حیدر کی کتاب کے مطابق نکاح شیعہ عقیدے (DOCTRINE) کے مطابق ہوا اور گواہان میں راجہ محمود آباد بھی شامل تھے۔ مطلب یہ کہ قائداعظم مذہبی فرقہ بندی سے ماورا سوچ رکھتے تھے ۔‘‘ دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کی پہلی اولاد دینا 14-15اگست 1919ء کی درمیانی شب کو پیدا ہوئی اور معنوی اولاد 14۔15اگست 1947ء کی نصف شب معرض وجود میں آئی جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔

مزید لکھنا تھا لیکن جناب منیر احمد منیر صاحب کا خط شامل کرنا ضروری ہے۔میں نے قائد اعظم کی زیارت میں شدید علالت کے حوالے سے کالم لکھا تھا جس میں بی بی سی کی کہانی بھی بیان کی گئی بعض غلط معلومات کی تردید کی تھی۔ جناب منیر صاحب کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں۔ ’’کہا جاتا ہے کہ جب محترمہ فاطمہ جناح نے زیارت میں قائداعظمؒ کو وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی آمد کی اطلاع دی تو قائد اعظم ؒ نے جواباً کہا کہ وہ یہ دیکھنے آ رہے ہیں کہ میں کتنے دن مزید زندہ رہوں گا‘‘۔

اس پر آپ کا تبصرہ ’’پہلی بات نوٹ کر لیں کہ ’’مائی برادر ’’نامی کتاب مادر ملت نے خود نہیں لکھی تھی یہ مسودہ جی الانا نے لکھا تھا جنہوں نے مادر ملت سے ملاقاتیں کرکے نوٹس لئے اور پھر ان کی مدد سے یہ مسودہ تیار کرکے مادر ملت کو دیا ‘‘....’’اگر مادر ملت اس مسودے سے مطمئن تھیں تو انہوں نے اسے کتابی صورت میںچھاپا کیوں نہیں ؟‘‘۔

کسی مسودے کے نہ چھاپنے یا چھپوانے سے اس کی اصلیت، حیثیت اور نقاہت ختم نہیں ہو جاتی۔ مادر ملت کے پاس قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سے بیش بہا کاغذات اور دستاویزات تھیں اگر انہوں نے وہ نہیں چھپوائیں تو کیا ان کی تاریخی منزلت ختم ہو گئی؟

بہرحال، آپ کا موقف اپنی جگہ، مجھے ان الفاظ کی درستی پر شبہ نہیں کہ ’’وہ یہ دیکھنے آ رہے ہیں کہ میں کتنے دن مزید زندہ رہوں گا‘‘۔اس وقت لیاقت علی خاں کے ساتھ چودھری محمد علی بھی تھے۔ قائد اعظم ؒ پاکستانی قوم بلکہ مسلم امہ کی امیدوں کا مرکز تھے۔علیل وہ اس قدر ہو چکے تھے کہ کسی بھی وقت ایسی خبر آسکتی تھی جو قوم کے لئے کسی صورت قابل قبول نہ تھی۔اس نازک مرحلے پر کیا وزیر اعظم اور سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ قائد اعظمؒ کے متعلق صورتحال کی اصلیت سے آگاہ ہوتے؟ کیونکہ قوم کو ذہنی طور پر اس حقیقت کے لئے تیار کرنا تھا۔ یہ امور متقاضی تھے کہ حکومت پاکستان کے دو اعلیٰ ترین عہدہ دار یہ دیکھنے جاتے کہ قائداعظم ؒ حیاتی کے کس مرحلے میں ہیں۔انہوں نے ان دونوں کے اس اقدام کی یہ کہہ کر سراہنا کی ’’وہ یہ دیکھنے آ رہے ہیں کہ میں کتنے دن مزید زندہ رہوں گا‘‘۔

ڈاکٹر صاحب!سربراہ مملکت کے چاق چوبند اور صحت مند و توانا ہونے کے باوجود جانشین کا تقرر و اعلان کیوں کر دیا جاتا ہے ؟ اس لئے کہ حکومتی نظم ونسق میں تواتر رہے اور عوام ذہنی طور پر پہلے سے موجود،خواہ وہ کتنا ہی ہر دلعزیز کیوں نہ ہو حکمران کی جدائی قبول کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔

منیر صاحب کا نقطہ نظر اپنی جگہ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ محنت سے وقت دے کر مسودہ لکھوانے کا مقصد ہی اسے کتابی صورت میں چھاپنا ہوتا ہے اور اگر مسودہ تیار ہو کر دہائی تک پڑا رہے تو اس سے شکوک کا جواز پیدا ہوتا ہے۔رہے قائداعظم اور تحریک کے کاغذات تو انہیں چھپنا نہیں تھا۔وہ قائداعظم پیپرز کا حصہ تھے اور نیشنل ڈاکومنٹ سنٹر میں محفوظ ہیں ۔ذاتی مسودے اور سرکاری کاغذات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔