سوچو تو سہی

September 25, 2020

دو روز پہلے نیشنل لائبریری اسلام آباد میں اقوام متحدہ کی ناانصافی اور بے بسی کا رونا رو کر سینیٹر رحمن ملک عالمی برادری کے سب سے بڑے فورم کو جگانے کی کوشش کر رہے تھے ۔سینیٹر ڈاکٹر رحمن ملک گلوبل پیس کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں خوب گرجے برسے، اس سیمینار کا موضوع بہت اہم تھا کہ ’’دنیا بھر میں بے گناہ لوگوں کا قتل کیوں ہوتا ہے اور بے گناہ لوگوں کے قتل کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟‘‘

اس سیمینار میں کچھ اور ممالک کے اراکین پارلیمنٹ آن لائن شریک ہوئے،کچھ سفیروں نے بھی دل کی بھڑاس نکالی، خاص طور پر فلسطین کے نمائندے نے اپنا اور کشمیر کا مقدمہ بڑے احسن انداز میں پیش کیا۔اس سیمینار کی روح رواں فرح عظیم شاہ خود بھی بلوچستان اسمبلی کی رکن رہی ہیں۔ اسی سیمینار میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر میش بلوچ نے امن کا گیت گا کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی۔

پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اور سینٹ میں داخلہ امور کمیٹی کے چیئرمین سنیٹر ڈاکٹر رحمن ملک چار کتابوں کے خالق ہیں ان کی زیادہ کتابیں دہشت گردوں کا ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کرتی ہیں۔روزانہ تین گھنٹے ریسرچ ورک کرنے والے رحمن ملک نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ ’’آخر مسلمان ملک ہی کیوں دہشت گردی کا شکار ہیں اور حالیہ چند سال میں مسلمان ملکوں کے کئی بے گناہ شہریوں کو شہید کیا گیا ہے، ایک سوال بڑا اہم ہے کہ دنیا میں جتنے بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں ان میں سے زیادہ مسلمان ہی کیوں ہیں فلسطین اور کشمیر میں کون دہشت گردی کر رہا ہے، کون بے گناہ انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل رہا ہے، عالمی امن کے وہ کونسے ٹھیکیدار ہیں جنہوں نے القاعدہ اور داعش بنائی، سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ ہم نے داعش کی فنڈنگ کی، ایف اے ٹی ایف کا نشانہ مخصوص ممالک کو کیوں بنایا جاتا ہے، کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم پر دنیا کیوں خاموش ہے، مودی دنیا کا وہ واحد وزیر اعظم ہے جس کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے ہے، یہ تعلق دنیا کو نظر کیوں نہیں آتا، مودی جنگی مجرم ہے، ہماری حکومت کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں جانا چاہئے میں پہلا بندہ تھا جس نے کہا تھا کہ داعش والے جنوبی پنجاب سے بندے بھرتی کر رہے ہیں اب وہ پندرہ ہزار لڑکے شام اور ترکی سے واپس آکر ملک کے مختلف حصوں میں پھیل چکے ہیں، عراق، شام اور ترکی سے واپس آنے والے ان دہشت گردوں کے خلاف حکومت کو کارروائی کرنی چاہئے میں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے کہا تھا کہ آپ اپنا فرض پورا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں آپ کیوں نہیں کشمیر میں امن مشن بھیجتے۔آپ کشمیر میں رائے شماری کیوں نہیں کرواتے، اب بھی وقت ہے اقوام متحدہ جاگے اور دنیا کے مظلوموں کو انصاف مہیا کرے‘‘۔

خواتین و حضرات! میں نے کئی مرتبہ اقوام متحدہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے کئی مرتبہ او آئی سی کے کردار کو بھی کھنگالا ہے مگر مجھے ہر مرتبہ ان اداروں کی کارکردگی پر سوائے ندامت کے کچھ نہیں ملا، وقت کے ہر موڑ پر ان کی ناانصافیاں نظر آئیں حالات کے ہر میدان میں جانبداریاں نظر آئیں ، پابندیوں میں بھی انصاف نظر نہیں آیا، او آئی سی کو دیکھ لیں فلسطین، بوسنیا اور کشمیر میں اس تنظیم کی خاموشی کسی جرم سے کم نہیں۔ عراق، شام، فلسطین اور کشمیر میں معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی یہ تنظیم چپ رہتی ہے، افغانستان اور لیبیا کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے پھر بھی خاموشی رہتی ہے، طرابلس میں چراغ گل کر دیئے جاتے ہیں مگر چپ کا روزہ نہیں ٹوٹتا، کابل جہاں بابر کا مزار ہے کابل جو کبھی بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا اتنا خوبصورت کہ ایک پاکستانی سیاست دان انور سیف اللہ وہاں ہنی مون پر گئے تھے، کابل کی رونقیں اجڑ گئیں آج کا کابل پچاس سال پہلے کے کابل سے کہیں مختلف ہے۔

صاحبو! دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ اس لئے بنائی گئی تھی کہ یہ تنظیم دنیا میں تنازعات حل کروائے گی، اس کے ہونے سے انصاف کا بول بالا ہو گا، دنیا جنگوں سے بچے گی، ہر طرف امن کے گیت گائے جائیں گے مگر پھر کیا ہوا، یہ سب کچھ خواب بن کے رہ گیا۔ اس کے آغاز میں جو دو تنازعات سامنے آئے تھے وہ آج بھی حل طلب ہیں کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کو ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے مگر ابھی ان کا حل باقی ہے جب ایک نظر برما، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، شام، عراق، یمن، لیبا، لبنان اور سوڈان پر جاتی ہے تو ناانصافیوں کا چمکتا سورج دکھائی دیتا ہے، جانبداری چیختی ہے، ایران پر پابندیاں ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ مودی مشرقی پاکستان توڑنے کا اقرار کرتا ہے مگر اصولوں اور انصاف کے عالمی ادارے چپ سادھ لیتے ہیں۔

پچھلے 75 سال میں کیا ہوا ہے، مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی ہے، مسلمان ملکوں کو کھنڈرات بنایا گیا ہے، مسلمان ملکوں کی زمین مسلمانوں کے خون سے سیراب کی گئی ہے، فرقوں میں بٹے ہوئے لوگو! کبھی سوچو تو سہی کہ جب تم پر حملہ ہوتا ہے تو حملہ آور تم سے تمہارا مسلک نہیں پوچھتا،تمہاری موت کے لئے تمہارا مسلمان ہونا ہی کافی ہے، برما، بوسنیا، فلسطین اور کشمیر میں کبھی کسی نے مارنے سے پہلے فرقہ پوچھا ہے؟ مارنے والے آپ سے فرقہ نہیں پوچھیں گے مگر بدقسمتی سے مسلمان معاشرے فرقہ بندی کا شکار ہیں، اسی لئے ایک صدی پہلے اقبالؒ نے کہا تھا کہ

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں