پھر وہی منظر یاد آیا

September 25, 2020

مَیں اُس منظر کی بات نہیں کر رہا جس کا رنگ ہمارے منفرد لہجے کے شاعر احمد مشتاق نے باندھا تھا:چاند اِس گھر کے دریچے کے برابر آیا، دلِ مشتاق ٹھہر پھر وہی منظر آیا۔ مَیں اُس منظر کا تذکرہ کرنے چلا ہوں جو 1977ء میں پی این اے کی صورت میں نمودار ہوا تھا، تب اپوزیشن کی جماعتیں بکھری ہوئی تھیں۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اپوزیشن اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اکھٹی ہو گئی اور نو ستاروں کا پرچم لہرانے لگا۔ انتخابات ہوئے جن میں بڑے منظم طریقے سے دھاندلی ہوئی ، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مزاحمتی تحریک زور پکڑتی گئی۔ سیاسی مذاکرات شروع بھی ہوئے اور یہ طے بھی پا گیا کہ نئے انتخابات منعقد کیے جائیں گے، مگر باہمی اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، اِس لیے فوج بھی دکھوں کا مداوا نہ کر سکی۔ انتظامی اور آئینی مشینری کے مفلوج ہو جانے سے تیسری بار مارشل لا نافذ ہوا اور بھٹو دار پر کھینچے گئے اور یہ سانحہ ہماری تاریخ پر ایک گہرے زخم کی حیثیت رکھتا ہے۔

20 ستمبر 2020ء کی رات اپوزیشن کی گیارہ جماعتیں ایک بڑے سیاسی محاذ کی شکل اختیار کر چکی ہیں جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اِس میں اور پی این اے کی تحریک ِ مزاحمت میں ایک خاص مماثلت پائی جاتی ہے۔ الزامات کی نوعیت بھی تقریباً ایک جیسی ہے، البتہ کردار اور صلاحیتیں مختلف ہیں، لیکن سیاسی ذہنییتیں بڑی حد تک ملتی جلتی ہیں، اِس بنا پر وطن کے حقیقی خیرخواہوں کو اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اُن عوامل کی روک تھام کرنا ہو گی جو 1977ء کے مارشل لا میں ہماری رسوائی اور جمہوریت کی زبوں حالی کا باعث بنے تھے۔ بدقسمتی سے تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے۔ دراصل بھٹو صاحب اپنی غیرمعمولی ذہانت اور حکمرانی کے وسیع تجربے کے باوجود اُمڈتے ہوئے سیاسی خطرے کا ادراک نہ کر سکے۔ اُنہیں سقوطِ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں لامحدود اختیارات سے لبالب حکومت ملی تھی۔ اُنھوں نے اپنا سارا زور اختلاف کی آواز دبانے پر صَرف کر دیا اور پُرامن اور جمہوریت پسند شہریوں کی زندگی وبالِ جان بنا دی تھی۔ اخبارات و جرائد بند کیے جا رہے تھے اور صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے لیے سانس لینا دوبھر ہو گیا تھا۔ دلائی کیمپ کے انکشافات نے دہشت کی ایک لہر دوڑا دِی تھی۔ جب پی این اے کی تحریک چل رہی تھی، تب مَیں اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جیل میں تھے۔ جرم یہ تھا کہ مَیں نے ’وقتِ زوال‘ اور ’دیوار پر کیا لکھا ہے‘ کے عنوان سے مضامین لکھے تھے جن میں تفصیل سے بیان کیا تھا کہ حکمرانوں کی آمرانہ پالیسیوں کے باعث معاشرے میں شدید بےچینی پائی جاتی ہے جو کسی وقت بھی بغاوت کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو تحریک اُٹھی تھی، اُس میں سیاسی کارکن، نوجوان، کاروباری اور مذہبی طبقے پیش پیش تھے۔ حسبِ روایت بھٹو حکومت نے یہ تاثر پھیلانا شروع کیا کہ احتجاج کرنے والوں میں امریکی ڈالر تقسیم کیے جا رہے ہیں اور اُنھیں بھارت سے امداد مل رہی ہے۔ حکمران، عوام کے جوش و خروش کا جوںجوں مذاق اُڑاتے رہے، اُسی نسبت سے اُن کے اندر جرأت اور اِستقامت مستحکم ہوتی گئی۔ بھٹو صاحب نے مذہبی طبقے کے دل جیتنے کے لیے جمعے کی چھٹی کا اعلان کر دیا، شراب نوشی اور جوئےبازی پر پابندی لگا دی۔ وہ قادیانیوں کو 1974ء ہی میں قانون ساز اسمبلی کے ذریعے غیرمسلم اقلیت قرار دَے چکے تھے، مگر یہ اقدامات عوام کے جذبات ٹھنڈے نہیں کر سکے، کیونکہ تحریک تو بدترین ظلم، آمریت اور اِنتخابات میں دھاندلی کے خلاف اُٹھی تھی۔

آج بھی وہی سماں دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اپوزیشن کی گیارہ جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں جن کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اُن کے بارے میں تواتر سے ایک ہی بات کہی جا رہی ہے کہ چور، ڈاکو اور لُٹیرے این آر او لینے کے لیے جمع ہو گئے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خاں نے نوازشریف کی تقریر تمام ٹی وی چینلوں پر چلانے کی اجازت دے کرکسی حد تک دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے، حالانکہ تنگ نظر اور کم ظرف سرکاری مشیران کرام اِس کی مخالفت کرتے رہے تھے۔ وہ تو یہ بھی پیش گوئی کر رہے تھے کہ اپوزیشن کی جماعتیں اکٹھی نہیں ہو سکیں گی۔ 1977ء میں بھی حکمران طبقہ اِسی قسم کی طفل تسلیوں میں دھنسا رہا تھا۔ جناب نوازشریف نے ایک مدلل اور ذہنوں کو مسخر کرنے والی تقریر کی ہے اور اسے سنتے ہوئے مجھے شاعرِ مشرق یاد آتے رہے: عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام، اِس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا مَیں۔ جناب نوازشریف، جناب آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن نے جن عوارض کی نشان دہی کی ہے، ان کے علاج پر قومی قیادت کو پوری توجہ دینی چاہیے، ورنہ یہ تام جھام باقی نہیں رہے گا اور مسائل لاینحل ہوتے جائیں گے۔ یہ بہت خوش آئند امر ہے کہ فوجی قیادت نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اُن کا سیاسی معاملات، انتخابات کے انعقاد اَور نیب کے اُمور سے کوئی تعلق نہیں اور ہم آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ ہم اُمید کر سکتے ہیںکہ عمل میں بھی ایسا ہی کچھ نظر آئے گا اور اِنھیں اِس بات کا پورا پورا شعور حاصل ہو گا کہ جمہوری اداروں کی مضبوطی ہی سے ریاستی ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ آج کی صورتِ حال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حکمران جماعت نے اس پارلیمانی کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا جو انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی تھی۔ مزیدبرآں گزشتہ دو برسوں میں عام آدمی کی زندگی سے تمام آسانیاں اور خوشیاں چھین لی گئی ہیں اور پاکستان کے خارجہ تعلقات شدید خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں۔ اِس نازک دوراہے پر فریقین کو دانش مندی اور بُردباری کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کو اوّلین ترجیح دینا اور قومی وحدت کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد نے وزیرِاعظم سے دس روز میں استعفے کا مطالبہ کیا ہے اور شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے انتظامات کرنے پر اصرار کیا ہے۔ حکمرانوں کو طاقت کے بجائے سیاسی رویہ اختیار کرنا ہو گا۔