وارث شاہ انٹرچینج

September 25, 2020

وارث شاہ کے دربار پر جاتے ہوئے موٹر وے پر ہرن مینار انٹرچینج دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ مغل بادشاہ کا ہرن پنجاب کے عظیم صوفی شاعر سے زیادہ اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ وارث شاہ جسے پنجاب کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے، جو لفظوں کا جادوگر ہے، جو رومان کے پردے میں سماجی شعور کی تعلیم دیتا ہے۔ بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کے باعث پنجاب کے حالات معاشی، انتظامی اور سیاسی طور پر شدید افراتفری کا شکار ہوئے تو مختلف گروہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آپس میں اس طرح متصادم ہونا شروع ہوئے کہ کسی کی جان و مال محفوظ نہ رہا۔ اس غیر یقینی صورت حال میں وارث شاہ جیسے آفاقی نقطہ نظر کے حامل، انسانیت کے پرچارک شاعر نے ایک رومانی داستان کے ذریعے امن اور محبت کے لازوال پیغام کو فروغ دیا۔ اس نے اپنی کہانی میں مذہبی رواداری کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ پنجاب میں اہل علم و دانش کی قدر و منزلت کا یہ عالم تھا کہ مسلمان گھرانے میں پل بڑھ کر جوان ہونے والا رانجھا مصیبت کے وقت ہندو جوگی سے دعائیں لے کر سفر پر روانہ ہوتا تھا۔ یہ دراصل معاشرے میں موجود مختلف طبقۂ فکر اور مذاہب کے لوگوں کو انسانیت کی ایک چھتری تلے جمع کرنے کی کوشش تھی۔

وارث شاہ کے عرس کی تین روزہ تقریبات پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ پِلاک نے وارث شاہ کے دربار پر ہیر خوانی کے پروگرام کا اہتمام کیا۔ پنجاب بھر سے عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ یہ لوگ یہاں ثواب کمانے اور نفع نقصان کا سبق سیکھنے نہیں آتے بلکہ زندگی کی رمق سے آشنائی کے لئے آتے ہیں۔ سرسبز میدانوں میں لوگوں کی ٹولیاں رات بھر ہیر پڑھتی ہیں اور اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ وارث شاہ کے اشعار میں چھپی ہوئی زمینی دانش کو دل میں بسانے اور شخصیت کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

وارث شاہ کے دربار پر بیٹھ کر ان کی کتاب سے وارث رنگ میں رنگے ہوئے درویش صفت شاعر ویر سپاہی نے عمدہ انداز میں تحت اللفظ اور حسنین اکبر و اسلم باہو (بابا گروپ) نے ترنم سے وارث شاہ کی شاعری پڑھ کر سنائی تو محسوس ہوا جیسے 222برس قبل کا ماحول اُجاگر ہو گیا ہو، جیسے ہم سب وارث شاہ کی محفل میں بیٹھے ہوں۔

کچھ دن پہلے ہمیں بلھے شاہ کے دربار پر بھی جانے کا موقع ملا اور وہاں جب ہمارے ساتھ موجود کچھ لوگوں نے بلھے شاہ کا کلام پڑھنا شروع کیا تو ڈیوٹی پر حاضر ملازمین نے کیمرے کے سامنے ہاتھ رکھ دیا۔ ان کا رویہ اس حد تک ہتک آمیز تھا کہ ہم آنکھوں میں آنسو لئے چلے آئے، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ بلھے شاہ جس نے عمر بھر شرع کے بھیس میں چھپ کر استحصال کرنے والے ظاہر پرستوں کی مخالفت کی، جو باطنی رہنمائی سے علم و دانش اور معرفت کے آسمان تک پہنچ چکا تھا، جس پر رازِ حقانی کھل چکا تھا، اس کے دربار اور کلام کو دوبارہ اسی سوچ کے حوالے کر دیا گیا ہے جس کے خلاف وہ تمام عمر جنگ کرتا رہا۔ ایک ہی اُستاد کے شاگردوں یعنی بلھے شاہ اور وارث شاہ کے دربار کے ماحول اور کلچر کا واضح فرق شاید اس لئے ہے کہ بلھے شاہ دربار اوقاف کے زیر نگرانی ہے اس لئے وہاں مذہبی رنگ غالب ہے جبکہ وارث شاہ دربار ایک ثقافتی ادارے پنجاب آرٹس کونسل کے اس لئے وہاں کلچر کی نمائندگی بھرپور نظر آئی۔ صوفی ہمارا ثقافتی ہیرو ہے۔ جب میڈیا کی رنگارنگی وجود میں نہیں آئی تھی اظہار کے راستے مسدود تھے تو صوفیاء کے دربار پر لگنے والے میلے فن اور ثقافت کی ترویج کرتے تھے۔ یہ دربار ثقافتی اکیڈیمیوں کا درجہ رکھتے تھے۔ صوفیاء کے درباروں کو محکمہ اوقاف کے زیر نگرانی کرنے سے یہ دربار مذہبی حیثیت کے حامل ہوتے گئے اور ان کی ثقافتی سطح معدوم ہوتی گئی۔ درگاہ اور مسجد کا کلچر یکسر مختلف ہوتا ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ اولیاء کے دربار اوقاف کے پاس رہیں جبکہ صوفی شاعروں کے درباروں کا انتظام و انصرام متعلقہ آرٹ کونسلوں کے سپرد کر دیا جائے تا کہ ان ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ ملے جو صوفیاء کی زندگی میں وہاں کی رونق ہوا کرتی تھیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ انسانیت کے رستے پر چلنے والے عظیم صوفی شاعر جو پوری دنیا میں ہماری ایک مثبت پہچان ہیں کو کسی خاص عقیدے کا رنگ دے کر مقید کر دے اور لوگوں کی اُن تک رسائی ناممکن بنا دے۔ وارث شاہ کے دربار سے چار کلومیٹر دور انٹرچینج کا نام ہرن مینار انٹرچینج رکھا گیا ہے۔ ہرن مینار کی تاریخی حیثیت ہے لیکن یہ مینار ایک بادشاہ اور اس کے ہرن کی یادگار ہے جبکہ وارث شاہ لوکائی کا علمبردار ہے اور اس کا کلام لوگوں کو انسانی قدروں سے روشناس کراتا ہے۔ حکومت پنجاب سے درخواست ہے کہ شیخوپورہ کے قریب موٹر وے کے اس انٹرچینج کو وارث شاہ کے نام سے موسوم کیا جائے۔

وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نیں

جیہناں کیتیاں نیک کمائیاں نیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)