اسلامی دنیا کے نئے محور …!

September 25, 2020

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
حرمین شریفین اور تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے دنیا اب تک سعودی عرب کو مسلم دنیا کی طاقت کا محور تصور کرتی رہی ہے۔ مسلمان ممالک کے لئے تو بہرحال سعودی عرب انتہائی قابل احترام ملک ہے جہاں جاکر حج یا عمرہ کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں اگر کسی مسلمان ملک کے بارے میں کوئی پالیسی بنانا چاہتی ہیں تو وہ سعودی قیادت کے ساتھ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ہی مشورہ کرلیتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کی قیادت ماضی میں مسلمان ممالک اور دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتی رہی ہے۔ مسلمان ممالک کے مسائل اور محکوم اقوام کی آزادی کے حوالے سے بھی سعودی عرب کا ایک نکتہ نظر رہا ہے جس کو مسلمان ممالک میں پذیرائی ملتی رہی ہے اور پھر تنظیم اسلامی کانفرنس کی قیادت کے حوالے سے بھی سعودی عرب کو دنیا میں ایک کھڑپنچ اسلامی ملک قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ مادیت کے اس دور میں سعودی عرب کو بھی اپنے اقتصادی و سیاسی مفادات زیادہ عزیز نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اس کی پالیسی کشمیری مسلمانوں کی خواہشات اور پاکستان کی توقعات کے بالکل برعکس نظر آرہی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے اگرچہ سعودی قیادت کا پرانا موقف برقرار ہے مگر اسرائیلی طیاروں کو اپنی ائرسپیس استعمال کرکے متحدہ عرب امارت آنے کی اجازت دینا اور اسرائیل کے قریبی دوست امریکہ کی دوستی کا دم بھرنے کی وجہ سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کل فلسطین کے بارے میں کیا موقف ہوگا، یہ ساری چیزیں آج سے نہیں بلکہ کچھ عرصہ سے اس طرح کی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔وقت کرتا ہے پرورش برسوںحادثہ ایک دم نہیں ہوتاچنانچہ اس وقت سے دنیا میں اسلامی قیادت کا کوئی متبادل تلاش کرنے کی بھی کوشش ہورہی ہے۔ بڑے ممالک کی نظریں کبھی پاکستان پر جاتی ہیں کہ جو دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے مگر اقتصادی اور سیاسی سطح پر کمزور ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اسلامی دنیا کا واحد متبادل محور کے طور پر نہیں دیکھا جارہا۔ ملائشیا کے حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں جب کہ ایران پابندیوں کی زد میں ہے۔ ایسے میں ترکی وہ واحدملک رہ جاتا ہے جو پاکستان، ملائشیا اور ایران کے ساتھ مل کر اسلامی اقتدار اعلیٰ کا محور بن سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی آواز بھی موثر طور پر سنی جارہی ہے۔ جب ترکی کے صدر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حق میں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بنلد کرتے ہیں تو بھارت کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ جب وہ بعض مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھانے کے خلاف موقف اپناتے ہیں تو امریکہ کے پیٹ میں مرورڑ اٹھتے ہیں۔ اب تک یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ترکی تمام بڑے اور اہم مسائل پر نہ صرف مسلم امہ بلکہ پاکستان کے ساتھ بھی کھڑا ہے۔ ان تین چار ممالک کے سوا کسی بھی اسلامی ملک نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا تو پھر کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ترکی، پاکستان، ملائشیا اور ایران مشترکہ طور پر اسلامی دنیا کے نئے مراکز بن رہے ہیں، ایسا شاید فی الحال ممکن نہ ہو تاہم ان میں سے ترکی ایسا ملک نظر آرہا ہے جو مسلمانوں کے حقوق کے لئے کھل کر بات کرتا ہے اور عالمی و بڑی طاقتوں کو بھی کھٹک رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اور دوسرے قابل ذکر اسلامی ممالک اس وقت کیا موقف اختیار کرتے ہیں جب ترکی مظلوم اقوام پر مظالم کے خلاف آگے بڑھ کر مسلم امہ کی قیادت کرنا چاہے گا۔