مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا بل

September 27, 2020

تحریر: سیمسن جاوید۔۔۔ لندن
4اگست 2020 کو سینیٹ میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کا ترمیمی بل اکثریت رائے سے پاس ہوا تو پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں خوشی کی ایک لہرسی دوڑ گئی۔ وہ خوش تھیں کہ اب شایدان کی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہو گی،شاید کہ اب تبدیلی مذہب و نکاح کرنے والوں کوکچھ ادراک حاصل ہو،شاید کہ سلیبس میں تبدیلیاں کرنے والوں کو کچھ احساس ہو اورشاید کہ معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی آئے جس سے معاشرہ بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی طرف گامزن ہو مگر یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی چکناچورہو گیا، وہی ہوا جو ہمیشہ سے اس ملک میں ہوتا آیا ہے۔ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھیں تو اقلیتوں کے حقوق ہمیشہ ہی غصب ہوتے رہے ہیں،ویسے بھی اس بل کی منظوری کی کوئی خاص توقعات نہیں تھیں کیونکہ بل میں صاف درج تھا کہ جبری بین المذاہب شادی کروانے والے کو 10 سال تک سزا، پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا، کم عمر مذہبی اقلیت کی شادی کروانے والے کو 14 سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو گا، مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز تقریر پر تین سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا،مذہبی اقلیتوں پر تشدد کے جرم کے مرتکب کو تین سال سزا، 50 ہزار جرمانہ ہو گا، مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک کرنے والے کو ایک سال سزا، 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا، اگرچہ اقلیتوں کے تحفظ کا قانون تو موجود ہے مگر اْس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، سپریم کورٹ نے بھی 4 اکتوبر2019 میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے پیشِ نظر 2014 کے ایک حکم کو برقرار رکھتے ہوئے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا اورقومی کمیشن برائے اقلیتی امور کی تشکیل پر عمل درآمد کی ہدایت بھی کی۔چھ سال بعد 5مئی 2020 میں وزیراعظم کی صدارت میں قومی اقلیتی کمیشن قائم کر دیا گیا مگر تاحال یہ کمیشن اقلیتوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہا ہے۔اور نہ ہی اس کمیشن کی کوئی قابل ذکر کارکردگی سامنے آئی ہے۔واضح رہے کہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کاترمیمی بل 2020 پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کیا تھا۔اورانہوں نے قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور پر واضح بھی کیا کہ حضور اکرمﷺ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا پورا خیال رکھا تھا اور قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنی پہلی تقریر میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہوگی اور وہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے آزاد ہوں گے۔ پاکستان کے تینوں آئین میں بھی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو آئین میں اس کیلئے سزا ہونی چاہئےمگر قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امورنے کوئی نہ کوئی دلیل دے کر اسے یکسر مسترد کر دیا۔دراصل اس بل کو دانستہ طور پر سینیٹ کمیٹی کی بجائے قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کو بھیج دیا گیا تاکہ اس بل کی منطور ی کی کوئی گنجائش ہی باقی ہی نہ رہے ۔حالانکہ قائمہ کمیٹی کے پاس اس بل کو دیکھنے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ اگریہی بل سینیٹ اس بل کو انسانی حقوق کی کمیٹی میں بھیجتی جہاں ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ موجود ہوتے ہیں۔یاپھر وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق اسے اقلیتی کمیشن کے حوالے کیا جاتا۔ تو شاید اس کے نتائج مثبت آتے ۔تمام اقلیتی کمیونٹی سینیٹر جاوید عباسی کی اس کوشش کو بے حد سراہتی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کی بجائے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی شفارشات کا بل قومی کمیشن برائے اقلیتی امور کاکوئی اقلیتی رکن ہی لاتا۔ مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ اقلیتی ا راکین خودحکومت کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ یا پھر ان کی ضروریات کمیونٹی کی اغراض سے بڑی ہیں۔ مذہبی امور کی اس کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جبراً تبدیلیِ مذہب کروانے کی کسی کو اجازت نہیں،مگر مرضی سے مذہب تبدیل کرنے پر کوئی قدغن نہیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نصاب تعلیم سے ظاہر ہونا چاہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ہماری قانون سازی سے مسخ نہیں ہوناچاہئے۔ حافظ عبدالکریم نے تو حد ہی کر دی ان کا کہنا تھا کہ حقوق اقلیتوں کو نہیں مسلمانوں کودئیے جائیں ۔توہین رسالت والا توبیرون ملک چلا جاتا ہے۔ جب کہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ اس بل میں متعدد وزارتوں کا کردار ہوسکتا ہے۔ تعلیم کے نصاب میں ایسا مواد نہ ہو جس سے مذہبی منافرت پھیلے۔ جبری مذہبی منتقلی کے حوالے سے سندھ کے دو تین اضلاع میں یہ واقعات ہورہے ہیں ان اضلاع کی انتظامیہ کو اسلام آباد طلب کرکے پوچھا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت نہیں ۔انکے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کو دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ حقوق میسر ہیں۔ کمیٹی کے رکن راجہ ظفر الحق کو توانکے ادراک پرداد دینا پڑے گی جنہوں نے اقلیتوں کے زخموں پر نمک یہ کہہ کر چھڑکا کہ جبراً تبدیلیِ مذہب کے ایک آدھ واقع پیش آئے ہیں۔ یہ کوئی عام وبا نہیں جسے روکنے کیلئے خاص قانون لایا جائے۔ اس موقع پر بل کے محرک سینیٹر جاوید عباسی نے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر کمیٹی کو اختلاف ہے تو آئین سے اقلیتوں کے حقوق کا آرٹیکل ہی نکال دیں، آئین میں موجود آرٹیکل کے نیچے قانون سازی ہونا چاہیے ۔غرض کہ تعصب اور تنگ نظری کی انتہا ہے اور انسانیت کسی گہری ندی میں غوطے کھا رہی ہے۔قائدِاعظم کا پاکستان ماضی کا قصہِ پارینہ بن گیا ہے جہاں تمام شہریوں کوبلا امتیاز مذہب ، رنگ و نسل برابری کے حقوق حاصل ہونے تھے۔بقول سینیٹر کامران مائیکل مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے اس بل کووہ اور ان ساتھی دوبارہ سینیٹ میں منظور ی کے لئے پیش کریں گئے اور منظور بھی ہوگا ۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔