الف، ایکس اور میں

September 27, 2020

’الف‘ ایک دیندار شخص ہے، نماز روزے کا پابند ہے، عورت کے شرعی پردے کا قائل ہے اور جدید مغربی تہذیب کا شدید ناقد ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ معاشرے میں پائی جانے والی تمام برائیاں دراصل دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ الف ہر مسئلے کا حل مذہب میں تلاش کرنے کا قائل ہے، اُس کا خیال ہے کہ دورِ حاضر کی تمام بیماریوں کا شافی علاج مذہب کے پاس موجود ہے۔ لبرل اور آزاد خیال لوگوں کو وہ کافر تو نہیں سمجھتا مگر انہیں سچا مسلمان بھی نہیں کہتا۔ اُس کا کہنا ہے کہ جدید گرامر اسکولوں میں مادر پدر آزادی کی تعلیم دی جا رہی ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کو برباد کرکے رکھ دے گی۔ الف کے خیال میں دین اِس ملک کی اساس ہے لہٰذا لبرل حضرات کو ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا خواب دیکھنا چھوڑنا ہوگا۔ اکثر اوقات الف لبرل لوگوں پر پھبتیاں کسنے سے بھی نہیں چوکتا اور اُن کی اندھا دھند مغربی تقلید کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ مغرب میں فرد کی ’لامحدود‘ آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جنسی بےراہ روی، ہم جنس پرستی، بنا شادی کے تعلقات اور اِس نو ع کے دیگر مسائل کو بنیاد بناکر اپنے ہاں کے آزاد خیال لوگوں کو طعنے دینے میں الف کو بہت لطف آتا ہے۔ الف کو فحاشی سے سخت نفرت ہے، اسی لئے وہ ہر فحش فلم کو دیکھ کر آگ لگا دینے کے حق میں ہے۔

دوسری طرف ’ایکس‘ ایک آزاد خیال شخص ہے، اپنے اعمال اور نظریات میں لبرل، مذہب سے اسے خدا واسطے کا بیر ہے اور اسے وہ ہر برائی کی جڑ سمجھتا ہے، جُرم کہیں بھی ہو، کسی نے بھی کیا ہو، ایکس گھما پھرا کر اسے مذہب کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ ہر داڑھی والے کو وہ جنونی اور انتہا پسند سمجھتا ہے اور ٹخنوں سے اونچی شلواریں پہننے والے کا مذاق اڑاتا ہے۔ کوئی کلین شیو بندہ اگر اُس کے سامنے جھوٹ بولے تو وہ بات ہنسی میں اڑا دیتا ہے مگر وہی بات اگر کوئی مولوی قسم کا شخص کہے تو مقدمہ مذہب کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ حاجی، نمازی لوگ اسے منافق لگتے ہیں، وہ سمجھتا ہے کہ ایسے لوگ عبادات کے پردے میں اپنی منافقت اور گناہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کسی داڑھی والے دکاندار سے سودا سلف نہیں خریدتا، باریش لوگوں سے اسے خدا واسطے کا بیر ہے۔ مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم کے بھی سخت خلاف ہے، ایکس کا خیال ہے کہ مدرسوں میں جہالت پروان چڑھتی ہے، تنگ نظری اور فرقہ واریت کو فروغ دیا جاتا ہے جس سے ملک میں تشدد پھیلتا ہے۔ وہ بڑی عید کو طنزا ً ’بار بی کیو عید‘ کہتا ہے اور مذہبی لوگوں کو طعنہ دیتا ہے کہ اِن کی قربانی کا فلسفہ بکرے کی ران روسٹ کروانے تک محدود ہے۔ اسلامی ممالک کے لتے لینا بھی ایکس کا محبوب مشغلہ ہے، یہ ممالک اگر اسرائیل سے جنگ کریں تو بھی ایکس انہی کو قصور وار گردانتا ہے، اگر اسرائیل کو تسلیم نہ کریں تو طعنہ دیتا ہے کہ انہیں جدید سفارت کاری کا کچھ نہیں پتا اور اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ایکس کی نظر میں منافق اور ڈرپوک پھر یہی اسلامی ممالک! مولانا روم، علامہ اقبال اور شاہ ولی اللہ جیسے مفکروں اور عالموں سے بھی ایکس ذرہ برابر متاثر نہیں، جہاں موقع ملتا ہے اِن پر پھبتی کسنے سے باز نہیں آتا، اِس کے برعکس کسی بھی مغربی مفکر نے چاہے کیسی ہی اُوٹ پٹانگ بات کیوں نہ کی ہو، اُسے چوم چاٹ کر سر پر رکھتا ہے۔

الف اور ایکس دونوں میرے دوست ہیں، الف کے نزدیک ایکس کے تمام نظریات غلط ہیں بالکل اسی طرح جیسے ایکس کے نزدیک الف کی ایک بھی بات درست نہیں۔ الف ہر مسئلے کو مذہب کی آنکھ سے دیکھتا ہے جبکہ ایکس کی آنکھوں پر مغربی لبرل ازم کی عینک لگی ہے۔ الف کو مدرسوں میں ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات دکھائی نہیں دیتے بالکل اسی طرح جیسے ایکس کو جدید کالجوں میں بچے منشیات کا استعمال کرتے نظر نہیں آتے۔ دونوں صاحبان کی توجہ جب اِس جانب مبذول کروائی جاتی ہے تو الف منمناہٹ کے انداز میں مدرسوں میں ہونے والی وارداتوں کی مذمت کرکے آگے بڑھ جاتا ہے اور ایکس بھی اسی انداز میں حکومت کو مورد الزام ٹھہرا کر کندھے اچکا دیتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایکس نے کسی اسلامی مفکر کی تصنیف کا مطالعہ کرکے اُس کی تعریف کی ہو، اسی طرح الف نے بھی جھوٹے منہ کسی مغربی مصنف کے بارے میں مثبت جملہ نہیں کہا۔ ایکس دنیا میں ہونے والی تمام دہشت گردی کا تعلق مذہبی انتہا پسندی سے جوڑتا ہے اور الف اِس دہشت گردی کا تمام تر ذمہ امریکہ اور مغربی ممالک کو ٹھہراتا ہے۔ عورت مارچ میں چاہے کسی بھی قسم کے نعرے کیوں نہ لگیں ایکس اُن کا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، دوسری طرف الف کو عورت مارچ والوں کی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی، وہ اِس ضمن میں کوئی مخالف نقطہ نظر سننے کو تیار نہیں۔ الف کے منہ سے میں نے کبھی کسی سائنسی تحقیق کی بات نہیں سنی اور ایکس نے کبھی کسی مذہبی نظریے کو درست نہیں مانا۔ میرے یہ دونوں دوست جب بھی ملتے ہیں تو اپنے موقف کی تائید میں دنیا جہان کی دلیلیں اکٹھی کرکے بحث کرتے ہیں، دونوں کا خیال ہے کہ وہ سو فیصدی درست نظریے پر کاربند ہیں۔ میں جب اِس غیرمنطقی بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو دونوں ایک لمحے کے لئے توقف کرتے ہیں مگر پھر اسی شد و مد سے بحث شروع کر دیتے ہیں۔

آئندہ ملاقات میں میرا ارادہ ایکس کو الف کا چشمہ پہنانے اور الف کو ایکس کی عینک پہنانے کا ہے، شاید کچھ افاقہ ہو جائے مگر یہ محض میری خوش فہمی ہے کہ ایکس اور الف اپنے خیالات تبدیل کر لیں گے۔ سچائی تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان پہلے یہ بات تسلیم کرے کہ اُس کی رائے، نظریہ یا خیال غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ایکس ہو، الف ہو یا مجھ سمیت کوئی بھی شخص، یہ ممکن نہیں کہ اُس پر حتمی سچائی آشکار ہو جائے جس کے بعد اسے اپنی رائے تبدیل کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اُس پر حتمی سچائی اتر چکی ہے اور اب اسے مزید کسی علم یا رہنمائی کی ضرورت نہیں، ایسے شخص کو چاہئے کہ فوری طور پر اخبار میں کالم لکھنا شروع کر دے، فی زمانہ ایسے کالم نگار بہت ’’ہِٹ‘‘ ہیں۔