نئے میانوالی کا نوجوان ڈپٹی کمشنر

September 27, 2020

اکثر چیزوں کے دورخ ہوتے ہیں۔ ایک روشن تر صبح صادق کی طرح اور دوسرا تاریک تر، بھادوں کی رات جیسا۔ اہلِ قلم کا کام یہ نہیں کہ وہ صرف اندھیروں کے امیج اپنے قارئین کو دکھاتے رہیں اور انہیں مایوسیوں کی ہولناک گپھائوں میں دھکیلے رہیں۔

اہلِ قلم کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو روشنیوں اور خوشبوئوں کے منتروں سے معطر رکھیں، امیدوں کے باغ لگاتے رہیں۔ ہر اچھی خبر کو اپنی تحریروں کا جھومر بنائیں۔ سو آج کا کالم پھر ہنگامۂ طلوعِ سحر کے نام۔

کہتے ہیں 22کروڑ لوگوں میں ایک کروڑ لوگوں کے پاس گھر نہیں ہیں۔ 70لاکھ گھروں کی شہروں میں اور 30لاکھ گھروں کی دیہات میں ضرورت ہے۔ بےشک یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے مگر ایسا نہیں کہ اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

عمران خان نے اس مسئلے کا بغور جائزہ لیا اور کنسٹرکشن سیکٹر کو صنعت کا درجہ دیا۔ یوں گھروں کی یہ قلت پورے کنسٹرکشن سیکٹر کیلئے سنہری موقع میں بدل گئی۔ کروڑوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے لگے۔ اینٹوں والے بھٹوں سے لیکر سیمنٹ کے کارخانوں تک، کام کرنے والوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ روزگار کا پہیہ گھومنے لگا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب تعمیراتی شعبے میں کافی متحرک نظر آرہے ہیں۔ سیمنٹ سیکٹر کیلئے کاروباری آسانیاں پیدا کی ہیں۔ سیمنٹ کا شعبہ جو 130ارب روپے ٹیکس ادا کرتا ہے، اب 2021تک اس شعبے کی استعداد میں 56فیصد تک اضافہ ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے سیمنٹ فیکٹریز لگانے کیلئے این او سیز کا حصول آسان بنادیا ہے۔ ایک سیمنٹ فیکٹری پر 40ارب روپے کی لاگت آتی ہے۔

پنجاب میں ایسے منصوبوں کی صورت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ پنجاب میں تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کیلئے اسٹامپ ڈیوٹی 5فیصد سے کم کرکے 1فیصد کردی گئی ۔یہ مجموعی طور پر 35ارب روپے کا ریلیف ہے۔

پنجاب میں 25لاکھ رہائشی یونٹس بنانے کے لئے نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے تحت پہلے ہی ایک ارب روپے مختص ہیں۔ نقشوں کی منظوری، تکمیل تعمیر سرٹیفکیٹ، زمین کے استعمال میں تبدیلی کے اجازت نامے کے ساتھ رہائشی سوسائٹیوں کے این او سیز کے حصول کیلئے ون ونڈو سینٹرز قائم کر دیے گئے ہیں۔

لوگ گھر بیٹھے بھی کنسٹرکشن پورٹل کے ذریعے این او سیز کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں ایک خوشگوار ہلچل نظر آرہی ہے۔ سی پیک میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے بھی سیمنٹ سیکٹر کا فروغ ناگزیر تھا۔ اس سلسلے میں 23درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 5کے این او سیز تیار ہیں۔ باقی بھی بروقت پروسیسنگ کے عمل سے گزریں گے۔ سی پیک سے متعلقہ منصوبوں کو برق رفتاری سے مکمل کرنے کیلئے حال ہی میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی جنرل عاصم سلیم باجوہ کی ملاقات بھی ہوئی۔

ریور راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے تحت لاہور میں دبئی کی طرز کا نیا شہر بھی آباد کیا جارہا ہے جو یقیناً لوکل سطح پر تعمیراتی شعبے میں انقلاب برپا کرے گا۔

یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت 5ہزار ارب کی سرمایہ کاری سے ایک لاکھ ایکڑ اراضی پر جدید سہولیات سے آراستہ شہر بسایا جا رہا ہے۔لاہور اور راولپنڈی میں رنگ روڈ جیسے میگا منصوبے بھی نجی شعبے کے اشتراک سے بنائے جارہے ہیں۔

ایسے موقع پر صنعتی شعبے کو مراعات دینا، سیمنٹ سیکٹر کیلئے آسانیاں پیدا کرنا وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے قابلِ قدر اقدام ہے۔ میرے خیال میں پنجاب بازی لے گیا ہے۔ ترقیاتی کاموں میں صرف ایک ضلع میانوالی کا دیکھیں تو ترقی کا حیرت انگیز سفر نظر آنے لگتا ہے۔

سرگودھا، میانوالی ڈبل روڈ جون 2021میں مکمل ہوجائے گا، تقریباً آدھا کام ہو چکا ہے۔ 42فارم ٹو مارکیٹ روڈ اسی سال نومبر میں مکمل ہونے ہیں۔

48غیرفعال پانی کی فراہمی کے منصوبوں کو بحال کیا گیا ہے۔ اسکولوں میں طلبا کے اندراج کے مطابق 400اضافی کلاس رومز تیار کئے گئے ہیں۔ اسکولوں کی 77خطرناک عمارتیں مسمار کرکے ان کی تشکیلِ نو کردی گئی ہے۔ 40بے گھر اسکولوں کو زمین اور اس پر عمارت تعمیر ہو چکی ہے۔

ٹی ایچ کیو کالاباغ اور پپلان میں اضافی سہولیات اور سامان فراہم کردیا گیا ہے۔ 10دیہی صحت مراکز کی تزئین و آرائش اور دور دراز علاقوں میں 5بنیادی ہیلتھ یونٹوں کی تعمیر نو ہورہی ہے۔خٹک بیلٹ کے 08یوسیوں کو 82دیہات اور 280چھوٹی بستیوں کو پانی کی فراہمی کے لئے آبی ذخائر اور پائپ لائنز فراہم کی جارہی ہیں۔جس پر 3ارب لاگت آئے گی۔

کندیاں کےجنگلات میں 1300ایکڑ پر، پچھلے ایک سال میں 15لاکھ سے زیادہ درخت لگائے گئے ہیں اور اگلے 5 سال تک اسی رفتار سے جاری رہیں گے۔ عمر خان نہر کی فزیبلٹی اسٹڈی ہو چکی ہے، اس کی مالی اعانت کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ یہ تحصیل عیسیٰ خیل کے کاشتکاروں کے لئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔

اس وقت تک 765ترقیاتی منصوبوں پر تیز ی سےکام جارہی ہےجن کی لاگت تقریباً 19ارب روپے ہے۔ میانوالی میں چالیس سال سے کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں ہوا تھا اور جتنی تیزی سے وہاں کام ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ نیا پاکستان بنے نہ بنے۔

نیا میانوالی ضرور بن جائے گا۔اس سلسلے میں وزیراعظم عمران اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو چاہئے کہ وہ میانوالی کے نوجوان ڈپٹی کمشنر عمر شیر چٹھہ کو خصوصی طور پر کوئی انعام دیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بہت بڑے پروجیکٹ مکمل کرائے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میانوالی میں پانچ سال کے اندر 84ارب روپے کے پروجیکٹ مکمل ہونے ہیں۔

اللّٰہ کرے یہ سچ ہو۔ وزیراعلیٰ سے درخواست ہے کہ انہوں نے جب احمد خان بھچر کے ساتھ میانوالی شہر کی گلیوں کا معائنہ کیا تھا تو میانوالی سٹی کے دو ارب کا ایک پروجیکٹ بنانے کا حکم بھی دیا تھا۔ اس پر فوری عمل درآمد کے احکامات جاری کئے جائیں۔