سیاست کے گناہوں کا پھل

September 27, 2020

اب کوئی اس پہ کیسے یقین کرے کہ خفیہ ملاقاتوں میں کیا کیا ہوتا رہا۔ سیاسی کھچڑی پکی بھی تو، کھا کوئی نہ سکا۔ بھانڈہ پھوٹا بھی تو میاں نواز شریف کے آل پارٹیز کانفرنس سے توپے توڑ خطاب سے، جس میں اُنہوں نے بقول اُن کے ’’مقتدرہ کی متوازی حکومت‘‘ اور ’’ریاست سے بالاریاست‘‘ کو تمام بیماریوں کی جڑ قرار دیا۔

اور کثیر جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں اُن کی تقریر کے اُن نکات کو مرکزی بیانیے کے طور پر اختیار کیا گیا جس میں سلامتی کے اداروں کو آئین کی پیروی کرتے ہوئے سیاست سے دُور رہنے اور اپنے حلف کی پاسداری کا تقاضا پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس خالص آئینی و جمہوری مطالبے کی فقط معصومانہ خواہش کے اظہار نے جیسے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔

اور پے در پے انکشافات کے ذریعے خفیہ و سرکاری ملاقاتوں کے فسانوں کو طشت از بام کیا گیا بھی تو اس لیے کہ اپوزیشن کی پاکیِ داماں کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑ دیا جائے اور وہ پھوٹا بھی تو اس طرح کہ بھانڈہ پھوڑنے والوں کا بھانڈہ بھی پھوٹ کر سامنے آ گیا۔

اگر اپوزیشن یہ آئینی مطالبہ کرتی ہے کہ ’’ادارے‘‘ سیاست سے باز رہیں اور پھر خود ہی اُنہیں سیاست کے کھیل میں اپنی ہمنوائی کے لیے رام کرنے کی سیاسی سازشیں بھی کرے تو آزاد جمہوری سیاست کے پلے کیا رہ جاتا ہے۔

دوسری طرف سیاست کو تھوتھو کرتے، طاقتور مقتدرہ شطرنج کی بساط بچھائے رہے تو بھی اس غیرآئینی کھیل کے حمام میں سبھی متحارب منافقت کا شکار ہوتے دکھائی پڑتے ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاور ہی سیاست ہے اور جو زیادہ پاورفل ہے وہ بڑا سیاسی کھلاڑی ہے۔

یوں سیاسی کھیل میں چھوٹے بڑے سب کھلاڑی باہم برسرِ پیکار بھی رہتے ہیں اور حصہ دار بھی۔ اب مخالفانہ بیانیے ہیں اور سیاسی گرماگرمی کہ کسی کے پاس ہوش کے ناخن نہ رہے۔ جوآواز سہ بار منتخب وزیراعظم نے لگا دی ہے، اب وہی آئندہ مہینوں اور برسوں میں سیاست کا مرکزی نکتہ رہے گی۔ اُنہوں نے ’’متوازی انتظامیہ‘‘ اور ’’ریاست سے بالاریاست‘‘ کی تاریخ بیان کی بھی تو خود سیاست دانوں کی سہولت کاری کا ذکر کیے بغیر۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں نے باہمی چپقلش میں ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے طالع آزمائوں کے ہاتھوں کھلونا بننا قبول کیا اور جس نے جب مقتدرہ کا آلۂ کار بننے سے انکار کیا عبرتناک یا حسرتناک انجام کو پہنچا۔

کسی کو بھی معصوم بننے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بعد از نوآبادیاتی دور میں پاکستان کو وائسرائی نظام ورثے میں ملا اور گورنر جنرل کے خالی ہونے والے عہدے کو بانیِ پاکستان کو پُر کرنا پڑا جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لا کے تحت خالی ہونے والے عہدے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا آفس سنبھالنا پڑا۔

جب ناظم الدین کو ہٹا کر غلام محمد گورنر جنرل کے عہدے پہ براجمان ہوا اور بعد ازاں اسکندر مرزا اور پھر صدر فیلڈ مارشل ایوب خان، تو ایک نوکر شاہانہ نیو کالونئیل آرڈر مستحکم ہو گیا اور سیاست و سیاستدان آئوٹ ہو گئے۔

بچے تو وہ جو اس آٹو کریٹک نظام کے جہاز پہ بیٹھ گئے۔ یہ آمرانہ مقتدر شکنجہ ٹوٹا بھی تو 1968 کی عظیم عوامی جمہوری تحریک سے اور پہلی بار عوام کے حقِ خود اختیاری یا حقِ رائے دہی کے بیباکانہ اظہار سے۔ لیکن آمرانہ شکنجہ پہلے آزادانہ انتخابات کے کرشماتی نتائج اور عوامی منشا کے سامنے ہتھیار پھینکنے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کے قتلِ عام کی راہ پہ چل کر آدھا ملک گنوا کر بھی مقتدر رہنے پہ مصر رہا۔

لیکن اس کی شکست اتنی فیصلہ کُن تھی کہ باقی پاکستان میں جمہوری انٹرول کی اجازت دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اُس تاریخ ساز کایا پلٹ کا نتیجہ 1973 کے آئین اور وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین اک نئے عمرانی معاہدے کی صورت برآمد ہوا۔ فقط چار برس کے وقفے کے بعد پھر پِٹے ہوئے سیاست دان میدان میں اُترے یا اُتارے گئے اور 1973 کی جمہوریہ اس کے خالق کی پھانسی کے ساتھ اپنے خوفناک انجام کو پہنچی۔

پھر ایک اور (گورنر) جنرل ضیا الحق نے تمام تر سیاسی و نظریاتی اور آئینی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اس کے زیرِ سایہ غیرپارٹی انتخابات کے ذریعے پھر سے ایک نئی کنونشن لیگ کی بنیاد رکھ دی گئی اور اس طویل سیاہ دور میں جمہوری کارکنوں کو ایک اندوہناک امتحان سے گزرنا پڑا۔

آمرانہ مقتدرہ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور آزادانہ انتخابات کے نتائج سے یہ سبق لیا کہ آزادانہ انتخابات میں عوامی منشا کے کھلے اظہار سے کھیل اُس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور یہ کہ اگر بالواسطہ راج ہی پہ گزارا کرنا پڑے تو آزادانہ انتخابات سے یہ ممکن نہیں۔

نتیجتاً بعد از جنرل ضیا زمانے میں تمام انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور سب سے پاپولر عوامی جماعت کو پنجاب سے نکال باہر کیا گیا اور خود سندھ کو مستقل نسلیاتی، لسانی تقسیم کی بھٹی میں جھونک دیا گیا اور پسماندہ علاقوں میں فرقہ پرست قوتوں اور اُن کے جہادی مراکز کو فروغ دے کر مفتوحہ علاقوں میں بدل دیا گیا۔ جو ہاتھ عمران خان نے ایمپائر کے ساتھ مل کر دونوں پرانی پارٹیوں کی قیادتوں کے ساتھ کیا وہ نواز شریف بھی پیپلز پارٹی کے خلاف کر چکے تھے۔

اور جب باہم خود کشی کے کھیل سے دونوں بڑی پارٹیوں کو ہوش آیا اور اُنہوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی کا عہدنامہ کرتے ہوئے جو قسم کھائی تھی کہ ایک دوسرے کے خلاف مقتدرہ سے مل کر سازش نہیں کریں گے۔ وہ عہد ایک بار نہیں باری باری کئی بار توڑا گیا۔

پھر بھی یہ میثاقِ جمہوریت کی دین تھی کہ 10 برس جمہوری تسلسل اور ٹرانزیشن چلی۔ اب عمران خان بھی شاکی ہیں کہ انہیں اور فوج کو لڑانے کی سازش ہو رہی ہے جبکہ وہ اس اعتماد سے اعلان بھی کر رہے ہیں کہ اُن کی حکومت واحد حکومت ہے جسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

شاید اس غلط فہمی کا ذوالفقار علی بھٹو بھی شکار ہو گئے تھے کہ اُن کا کلہ مضبوط ہے جسے اُکھڑتے دیر نہ لگی۔ اب جس طرح سے عمران خان اپوزیشن کو دیوار کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں تو وہ اُن کی حکومت کو گرانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

اب پھر یہ نہ ہو کہ زور دار اعلامیے سے دبائو بڑھا کر سب سے طاقتور کھلاڑی کی اشیرباد حاصل کی جائے۔ اور وہی پرانا جعلی سیاسی ڈرامہ جاری رہے اور سیاست کے گناہوں کے بوجھ تلے جمہوریہ سسکتی رہے اور وائسرائی راج جاری رہے۔

بھلا اس طرح کے بلی چوہے کے کھیل سے ہم جیسے ستائے ہوئے جمہوریت پسندوں کا کیا لینا دینا۔ دوغلی سیاست ختم کیے بِنا جمہوریت کی نیّا منزل تک نہیں پہنچ پائے گی۔