حکومت مخالف تحریک

September 27, 2020

پاکستان میں سیاسی اتحادوں کی تشکیل کوئی اچھنبے کی بات نہیں، ماضی میں بھی حکومتوں کے خلاف ایسے سیاسی اتحاد بنتے رہے ہیں جن کے پلیٹ فارموں سے حکومت مخالف تحریکیں چلیں اور کئی پہلوؤں سے کامیاب بھی رہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو جماعتیں تحریک چلائیں، کامیابی کا پھل بھی ان کی جھولی میں گرے، کبھی کبھار سیاست میں وہ لوگ بھی منزل پا لیتے ہیں جو شریکِ سفر نہیں ہوتے لیکن تحریکیں محض اس خدشے کی وجہ سے تو نہیں رُکتیں کہ ان کا نتیجہ حسبِ منشا نہیں نکلے گا۔ اس لئے اگر یہ نیا سیاسی اتحاد اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب نہیں بھی ہوتا تاہم سیاست پر اس کے اثرات لازماً مرتب ہونگے۔ احتساب کے نام پر جو عمل کچھ عرصے سے جاری ہے اب اس کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی اور یک طرفہ ٹریفک کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ کوئی اس اے پی سی کو بھلے سے جتنا بھی ناکام کہے اس نے اپنا جو لائحہ عمل مرتب کر لیا ہے وہ نتائج ضرور دے گا۔ جو لوگ 2ہفتے پہلے ہی اس کانفرنس کو ’’ٹائیں ٹائیں فِش‘‘ قرار دے رہے تھے اب ان کا خیال ہے کہ 2023 تک ایسی بہت سی کانفرنسیں ہوں گی لیکن یہ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، یہی اس کانفرنس کی کامیابی ہے کہ اس کے انعقاد کو غیرممکن سمجھنے والے اب خود ہی ایسی بہت سی کانفرنسوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

اب اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے نام سے سیاسی جماعتوں کا نیا اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو حکومت کے خلاف مرحلہ وار تحریک چلائے گا، اپوزیشن کے پلان آف ایکشن کے مطابق حکومت مخالف تحریک میں وکلا، تاجر، کسان عوام اور سول سوسائٹی کو شامل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں آئندہ ماہ چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے اور ریلیاں ہوں گی۔ دوسرے مرحلے میں دسمبر سے احتجاجی مظاہرے اور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ نئے سال کے آغاز میں یعنی جنوری 2021 کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہو گا حکومت کی تبدیلی کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام آپشنز استعمال کئے جائیں گے۔ پروگرام میں عدم اعتماد کی تحاریک اور اجتماعی استعفے بھی شامل ہیں۔ ایک خصوصی کمیٹی بنائی جائے گی جو عدم اعتماد اور اجتماعی استعفوں کے معاملے پر لائحہ عمل وضع کریگی۔ اے پی سی میں جو 26نکاتی قرارداد منظور کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے جائیں۔ اپوزیشن کے یہ تمام اقدامات اسی صورت میں روبہ عمل آئیں گے اگر وزیراعظم مطالبے کے مطابق مستعفی نہیں ہوتے۔ حکومت نے اے پی سی کو ’’چوروں کا اکٹھ‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کرپٹ مافیا اکٹھا ہو گیا ہے کسی کو رعایت نہیں ملے گی نہ کسی کو این آر او دیا جائے گا۔ حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ نواز، زرداری بےنقاب ہو گئے، واویلا کرپشن چھپانے کے لئے ہے، اربوں لوٹنے والے اکٹھے ہوئے مگر ایک بات طے ہے کہ تمام پیش گوئیوں اور تبصروں کے باوجود یہ کانفرنس نہ صرف منعقد ہو گئی بلکہ ایک نیا سیاسی اتحاد بھی بن گیا ہے جس کے تحت حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ جس کا آخری مرحلہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہو گا جو نئے سال کے آغاز میں ہوگا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکتوبر سے دسمبر تک 3مہینے اہم ہیں۔ کانفرنس میں جو فیصلے کئے گئے ہیں لگتا ہے ان پر سوچ بچار کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا ورنہ چند گھنٹے کی کانفرنس میں تو ایسے تمام فیصلے نہیں کئے جا سکتے۔ کانفرنس کا سب سے اہم ’’آئٹم‘‘ سابق وزیراعظم نوازشریف کا خطاب ہے، انہوں نے تو جو کچھ کہا وہ سب لوگوں نے سن لیا وہ اپنا مدعا بیان کرنے اور عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہے اس پر خود مسلم لیگی حلقوں میں بھی غور و خوض جاری ہے لیکن حکومت کے نمائندے اس خطاب پر جس انداز کی حاشیہ آرائی کر رہے ہیں اور جس جس طرح تشریحات کے ذریعے وہ حجابات بھی الٹے جا رہے ہیں جنہیں نواز شریف نے اپنے خطاب میں نہیں اٹھایا تھا اس طرح تو حکومت کے نادان دوست خود نواز شریف کا پیغام عام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اس تقریر میں نواز شریف نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کہی جو وہ کسی نہ کسی انداز میں پہلے نہ کہہ چکے ہوں خاص طور پر اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد انہوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا جو نعرہ اپنایا تھا تقریر سے لگتا ہے کہ وہ اب تک اس پر قائم ہیں اور خطاب کا موقع ملتے ہی انہوں نے اسے نپے تلے الفاظ میں دہرا دیا ہے۔ دوسری جانب آل پارٹیز کانفرنس کے بعد نیب گردی میں تیزی آگئی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کے ایک ساتھی کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ شہباز شریف کی گرفتاری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پی پی پی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ جب سے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا آغاز ہوا ہے، پی ٹی آئی کا ہلا گلا گروپ حب الوطنی کے سر ٹیفکیٹ تقسیم کر رہا ہے اور اپوزیشن کی حب الوطنی کو چیلنج کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے ورکر بن کر قانون سازی کررہے ہیں اور اپوزیشن کے لیڈروں کو بات نہیں کرنے دیتے، عدلیہ کی آزادی، الیکشن اصلاحات، آزاد خارجہ پالیسی، سقوطِ کشمیر اور احتساب بلاتفریق ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی قومی سلامتی کے ایشو پر اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے تو وزیراعظم چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں، آرمی چیف سے اپوزیشن رہنماؤں کی ملاقات نیشنل سیکورٹی کے ایشو اور گلگت بلتستان میں شفاف الیکشن کے موضوع پر بات ہوئی تھی، اس ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف بھی موجود تھے،جس کو اب سیاسی ایشو بنا یا جا رہا ہے جبکہ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر)اسلم بیگ نے بھی کہا ہے کہ سیاستدانوں اور جنرلوں کے درمیان ملاقات کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ہمیشہ قومی معاملات اور سیکو رٹی صورتحال سے آگاہی کے لئے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور لوگ مجھ سے بھی ملتے رہے ہیں۔ لہٰذ ا اس کو ایشو نہیں بنانا چاہئے۔