اے پی سی اور پی ڈی ایم

September 27, 2020

پاکستان میں 20ستمبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے خلاف گیارہ جماعتوں نے پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد بنایا، اس سے قبل بھی ایسے اتحاد بنتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9ستاروں نے مل کر تحریک نظامِ مصطفیٰ چلائی اور اس اتحاد کا نام قومی اتحاد رکھا گیا۔ اس اتحاد کی صدارت مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود کے حصے میں آئی جبکہ سیکرٹری جنرل مولانا شاہ احمد نورانی کی جماعت کے رفیق باجوہ بنے۔ قومی اتحاد نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کی مہم چلائی ۔ تحریک اتنی زبردست چلی کہ بھٹو کو مجبور ہو کر اپوزیشن کی باتیں ماننا پڑیں لیکن ضیاء الحق نے اس دوران بھٹو حکومت کو برطرف کردیا اور خود مارشل لاایڈمنسٹریٹر بن کر بیٹھ گئے۔ پھر کیا ہوا اپوزیشن تتر بتر ہو گئی اور جماعت اسلامی ضیاء الحق کے مارشل لاکی حکومت میں شامل ہو گئی۔ ان کے کئی رہنماؤں محمود اعظم فاروقی، پروفیسر غفور اور دیگر لوگوں کو وزارتیں مل گئیں اور محکمہ اطلاعات و نشریات میں جماعت اسلامی نے اپنے ورکروں اور ساتھیوں کی بھرمار کردی جس کی جھلک آج بھی نظر آتی ہے۔ ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو آخر کار پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا۔ اسی طرح پاکستان میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا۔ جس میں اس اتحاد کو بےنظیر بھٹو کو شکست دینے کے لئے عام الیکشن میں حصہ لینے والوں کو رقوم تقسیم کی گئیں۔ جب عقدہ کھلا تو بیگم عابدہ حسین نے ملنے والے پیسے واپس کرنے کا عزم کیا جبکہ پیر پگاڑا نے کہا کہ واپس نہیں کروں گا۔ جبکہ میاں نواز شریف جو اس اتحاد کے بینی فشری تھے انہوں نے جنرل درانی کی طرف سے ملنے والی رقم سے صاف انکار کردیا اور اس طرح بےنظیر بھٹو کے خلاف بننے والے اتحاد نے جنرل الیکشن میں میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنا دیا۔ اتحاد میںشامل باقی جماعتوں کو حصہ بقدر جثہ حکومت میں حصے دار بنایا گیا۔ میاں نواز شریف جنہوں نے 20ستمبر 2020کو قیدی مفرور اور لندن میں مقیم ہونے کے باوجود آل پارٹیز کانفرنس سے جو خطاب کیا وہ اپنی ہی غلطیوں کا مجموعہ تھا۔ اور ان کی ساری تان اداروں پر ٹوٹی، انہوں نے کہا کہ جب تک وزیراعظم عمران خان کو لانے والوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جاتا ساری جدوجہد بیکار ہے جبکہ میاں نواز شریف خود تین دفعہ وزیر اعظم اور قبل ازیں وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور وہ بھی انہی راستوں سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جب وہ پہلی بار وزیر بنے تو پنجاب کے جنرل غلام جیلانی کے ساتھ پنجاب کے وزیر خزانہ رہے اور پھر اسی گملے میں پروان چڑھے اور وزیراعظم بنے۔ نواز شریف ہی 20ستمبر کو ہونے والی کانفرنس کے روحِ رواں تھے۔ ان کی تقریر ایک گھنٹہ سے زیادہ وڈیو لنک پر تھی جو ایک تندرست شخص ہی کرسکتا ہے۔گویا انہوں نے ثابت کیا کہ وہ بیمار صرف عدالتوں میں حاضر ہونے اور جیل میں سزا بھگتنے کے لئے ہیں۔ اس طرح میاں نواز شریف نے اپنے کئے جرائم دوسروں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی اور اپنی تقریر میں کھل کر اپنے عزائم بتانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر عمران خان کی حکومت نواز شریف کی تقریر پیمرا کے ذریعے روک دیتی تو گھاٹے کا سودا تھا۔ نواز شریف نے کھل کرووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا۔

سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ نواز شریف کی موجودگی میں جتنے بھی اتحاد بنے اس کا سارا فائدہ نواز شریف نے اٹھایا۔ اب یہ پہلا اتحاد ہے، ایم آر ڈی کے بعد جس میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف دونوں شامل ہیں۔ عمران خان نے ان دونوں جماعتوں کے سربراہوں اور رہنماؤں کو ملکی دولت لوٹنے کے جرم میں نشانِ عبرت بنانے کا عزم کر رکھا ہے لیکن نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں قابو میں نہیں آرہے۔ سوا دو سال عمران خان کو وزیراعظم بنے ہو گئے ہیں، ان دونوں پارٹیوں سے ایک روپیہ وصول نہیں کر سکے جبکہ عوام میں بھی ان کی مقبولیت میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی۔ اب بلدیاتی الیکشن ہوں گے تو پتا چل جائے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ کمر توڑ مہنگائی حکومت کی مقبولیت کو بتدریج کم کر رہی ہے۔ اگر عمران خان قومی لٹیروں سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو کچن آئٹم کو سستا کردیں پھر دیکھیں عوام کس کو ووٹ دیتے ہیں۔