مہنگائی سے ریلیف ؟

September 28, 2020

موجودہ حکومت جب سے وجود میں آئی ہے، مہنگائی میں اضافہ روز افزوں ہے۔ کبھی پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو کبھی ادویات۔ اور تو اور اشیائے ضروریہ اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ 20کلو آٹے کے تھیلے کی سرکاری قیمت 860روپے مقرر ہونے کے باوجود مجال ہے کہ بازار میں اِس ریٹ پر آٹے کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا ہو۔ چکی پر تو آٹا 80روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔ سبزیاں تک اپنی بھاری بھرکم قیمتوں کی وجہ سے پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ صرف ادرک کو دیکھ لیں، 800روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کی شرح کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح میں 0.32فیصد اضافہ ہوا اور مہنگائی کی مجموعی شرح 8.86فیصد تک جا پہنچی۔ حالیہ ہفتے کے دوران چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا تو 22دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں جس کے بعد ملک میں پہلے ہی سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ مہنگائی کی اِس لہر میں ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز عناصر عوام کیلئے سلسلۂ حیات مزید تنگ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت کو مجموعی طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیساتھ ساتھ ایسے عناصر کیخلاف بھی سخت اقدامات کرنا چاہئیں۔ اِس مقصد کیلئے مارکیٹ کمیٹیاں پہلے سے موجود ہیں جنہیں فعال اور متحرک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو مہنگائی میں روز افزوں اضافے کو روکنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے جلد از جلد ایسا لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس سے مہنگائی کے جن کو قابو کیا جا سکے۔ کورونا وائرس کے پیشِ نظر کئے جانے والے لاک ڈائون کی وجہ سے عوام کی اکثریت یا تو بیروزگار ہو چکی ہے یا اُن کی آمدنی محدود ہو کر رہ گئی ہے، ایسے میں اگر مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سلسلہ یونہی برقرار رہا تو اُن کیلئے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔