GIDC وصولی کے صنعت پر مضر اثرات

September 28, 2020

گزشتہ دنوں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے GIDCکیخلاف 107کمپنیوں کی تمام اپیلیں خارج کرکے گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (GIDC) کی مد میں 417ارب روپے کمپنیوں سے وصول کرنے کا فیصلہ سنایا جو صنعت پر بم کی طرح گرا۔ اِن صنعتوں میں ٹیکسٹائل، شوگر ملز، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور سی این جی اسٹیشن کی کمپنیاں شامل ہیں۔ گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (GIDC)2011میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کیلئے گیس کے بلوں میں فرٹیلائزر سیکٹر پر 150MMBTUروپے، صنعتوں کے Captive پاور بجلی گھروں پر 200MMBTU روپے، آئی پی پیز پر 100MMBTUروپے اور سی این جی اسٹیشنز پر 100سے 263روپے فی یونٹ کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) حکومت نے اسے بجٹ میں شامل کرکے پارلیمنٹ سے منظوری لی تھی لیکن اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور عدالت نے حکومت کے اس اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے نافذ کرنے کی ہدایت کی۔ GIDCکے مسئلے پر پیپلزپارٹی دور میں مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار سے میرے علاوہ اپٹما کے پیٹرن انچیف گوہر اعجاز اور صنعتی سیکٹر کے دیگر نمائندوں نے ملاقاتیں کیں جس میں ڈاکٹر عاصم حسین نے کیسز واپس لینے کی صورت میں GIDCکی شرح میں تقریباً 50فیصد کمی کا عندیہ دیا تھا لیکن صنعتی سیکٹر کا یہ موقف تھا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے اخراجات صنعت سے وصول کرنے کے بجائے حکومت کو خود برداشت کرنا چاہئیں جس کی وجہ سے حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کے مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ بزنس کمیونٹی کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے GIDCکی مد میں جو 295ارب روپے وصول کئے ہیں، وہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر خرچ نہیں کئے گئے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت GIDCکے وصول کردہ 295ارب روپے کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن، TAPIگیس پائپ لائن منصوبہ، RLNG-1&2 گیس پائپ لائن منصوبوں پر لگانے کے بجائے اسے بجٹ فنانسنگ کیلئے استعمال کرنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے سوئی سائودرن اور سوئی نادرن کمپنیوں کو RLNGپائپ لائن بنانے کیلئے بینکوں سے 100ارب روپے قرض لینا پڑا۔

ایک تخمینے کے مطابق حکومت کو GIDCکی مد میں تقریباً 712ارب روپے حاصل ہونے تھے جس میں سے گزشتہ 11برسوں میں 295ارب روپے وصول کئے جاچکے ہیں اور اب 417ارب روپے وصول کرنے باقی ہیں جو اب بڑھ کر 523ارب روپے ہوچکے ہیں جس میں آئی پی پیز 10ارب روپے، کیپٹو پاور (انڈسٹریز) 116ارب روپے، ٹیکسٹائل سیکٹر پر 17ارب روپے، فرٹیلائزر پر 196ارب روپے، سی این جی پر 83ارب روپے اور دیگر پر واجب الادا ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے GIDCکے 11سالہ پرانے مسئلے کو حل کرنے کیلئے 2019میں ایک حکومتی آرڈیننس کے ذریعے GIDCکے 220ارب روپے معاف کردیئے تھے جبکہ فرٹیلائزر اور ٹیکسٹائل سمیت پانچوں ایکسپورٹ سیکٹرز پر GIDCختم کردیا گیا تھا لیکن اپوزیشن اور میڈیا کی شدید تنقید کہ حکومت نے اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو اربوں روپے کی واجب الادا رقم معاف کردی، کے دبائو میں حکومت کو اپنا آرڈیننس واپس لینا پڑا جس کی وزیراعظم عمران خان نے بزنس مینوں سے شکایت کی تھی کہ میڈیا کی تنقید پر ان اسٹیک ہولڈرز نے ان کی حکومت کو سپورٹ نہیں کیا۔ بالاخر 13اگست 2020کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سوئی سائودرن، سوئی نادرن، OGDCاور دیگر گیس کمپنیوں کو صنعتوں سے 31اگست 2020ءتک واجب الادا بقایا جات 417ارب روپے 24قسطوں میں وصول کرنے اور ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر 6ماہ میں کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو گیس پر مزید ٹیکس عائد کرنے سے روکتے ہوئے 2020-21ءکیلئے گیس کے نرخوں کے تعین کیلئے قانون سازی کی ہدایت کی جبکہ عدالتِ عظمیٰ کے 3رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ اگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 6ماہ میں قانون سازی نہ کرسکی تو GIDCکی مد میں وصول شدہ رقم واپس کرے۔ کراچی میں بارشوں کے دوران ممتاز بزنس مینوں اور ایکسپورٹرز نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم عمران خان سے اپنی ملاقات میں اُنہیں GIDCکے مسئلے پر صنعت کی مشکلات سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ اپٹما کے 100، ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی 200کمپنیوں اور سی این جی ایسوسی ایشن کے 750ممبران نے GIDCکے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی پٹیشن دائر کی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے طویل ملاقات میں درخواست کی گئی کہ وہ ملکی مفاد میں وزیراعظم سے بات کرکے باہمی رضامندی سے اِس سنگین مسئلے کا حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں، میری تجویز ہے کہ GIDCکے نرخ 200سے کم کرکے 100روپے MMBTU اور 2سال کے بجائے 4سال میں ادائیگی کی سہولت دی جائے، ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں صنعتوں کے بند ہونے سے ملک میں بیروزگاری میں اضافہ اور ایکسپورٹس میں کمی آئے گی جو ہماری کمزور معیشت برداشت نہیں کر پائے گی۔