فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں تیزی

September 29, 2020

تعمیراتی شعبے میں ایسی عمارت جو 300میٹر یا اس سے زائد ہو، اُسے فلک بوس(اسکائی اسکرپیر) عمارت کہا جاتا ہے۔ 20ویں صدی کے اواخر تک آسمان کو چھوتی یا انتہائی بلند قامت عمارتوں کی تعداد بہت کم تھی اور دُنیا بھر میں کُل ملاکر 24ایسی عمارتیں موجود تھیں۔ ان میں سے آدھی عمارتوں کا تعلق امریکا سے ہے، جن میں یادگار، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ اور وِلیس ٹاور کے علاوہ ایٹلانٹا کا بینک آف امریکا پلازو غیرہ شامل ہیں۔

1999ء تک دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں موجود پیٹروناس ٹوئن ٹاورز کو حاصل تھا، جن کی اونچائی 1,483فٹ(452میٹر)ہے، ملائیشیا کے یہ ٹوئن ٹاور 1998ء میں تعمیر کیے گئے تھے۔ اس وقت تک امریکا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز شکاگو میں موجود وِیلس ٹاور کو حاصل تھا، جس کی اونچائی 1,451فٹ (442میٹر) ہے، وِیلس ٹاور کی تعمیر کا سال 1974ء ہے۔ گزشتہ صدی کے اختتام تک امریکا کی دوسری بلند ترین عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی دو عمارتیں تھیں، جن کی اونچائی بالترتیب 1,368فٹ (417میٹر) اور 1,362فٹ (415میٹر) تھی اور ان کے پایہ تکمیل پہنچنے کے سال 1972ء اور 1973ء تھے۔ 1,250فٹ (381میٹر) اونچی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی بدولت دنیا کی اولین بلند ترین عمارت کی تعمیر کا اعزاز بھی امریکا کو حاصل ہے، جو 1931ء میں تعمیر کی گئی۔ گزشتہ صدی میں تعمیر ہونے والی آخری دو بلند و بالا عمارتیں، شنگھائی کا جِن ماؤ ٹاور اور دبئی کا برج العرب ہیں۔ 1999ء میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ان دو فلک بوس عمارتوں کی اونچائی بالترتیب 1,380فٹ (421میٹر) اور 1,053فٹ (321میٹر) ہے۔ پچھلی صدی کی دیگر فلک بوس عمارتوں میں چین اور بنکاک وغیرہ کی عمارتیں شامل ہیں۔

نیویارک کے اصل ورلڈ ٹریڈ سینٹر ٹاورز کو چھوڑ کر، گزشتہ صدی میںتعمیر ہونے والی باقی فلک بوس عمارتیں آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور زیرِ استعمال ہیں۔ البتہ، 21ویں صدی کے آغاز کے بعد فلک بوس عمارتوں کے اصل خصوصی کلب میں مزید نئی عمارتوں کی شمولیت نے اونچائی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔

اس وقت دبئی کا برج خلیفہ دنیا کا بلند ترین ٹاور ہے، جس کی اونچائی 2,717فٹ (828میٹر) ہے۔ برج خلیفہ کی تعمیر 2010ء میں مکمل کی گئی۔21ویں صدی کے 20برسوں میں ہر سال اوسط ایک نیا فلک بوس ٹاور تعمیر کیا گیا ہے۔ مزید برآں، ’کونسل آن ٹال بلڈنگز اینڈ اَربن ہیبیٹاٹ‘ کے مطابق، اس وقت 132فلک بوس ٹاور تعمیر کے مختلف مراحل میں ہیں۔ صرف گزشتہ ایک سال یعنی 2019ء میں دنیا میں جتنے فلک بوس ٹاور تعمیر کیے گئے ہیں، ان کی تعداد گزشتہ صدی کے اختتام پر پوری دنیا میں موجود مجموعی بلند و بالا عمارتوں سے زیادہ ہے۔

21ویں صدی میں معیشت کے دیگر میدانوں کی طرح، فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے میدان میں بھی چین سرِ فہرست رہا۔ نئی صدی کے دوران، سب سے زیادہ فلک بوس عمارتیں دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے ملک میں تعمیر کی گئیں اور یہ سلسلہ چین کے طول و عرض میں پھیلا نظر آتا ہے۔ دیگر ملکوں کے چند ایک بڑے شہروں کے برعکس، گزشتہ 20برسوں کے دوران چین کے کم از کم 30شہروں میں بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی گئیں یا زیرِ تعمیر ہیں۔ دوسری جانب امریکا میں عمودی تعمیراتی سرگرمیاں، فلک بوس عمارتوں کے مرکز نیویارک شہر تک محدود نظر آتی ہیں۔ یہاںیہ حقیقت بتانا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ نیویارک کی 10بلند ترین عمارتوں میں سے 8عمارتیں گزشتہ 15سال میں تعمیر ہوئی ہیں۔

بلاشبہ، دبئی کا ذکر کیے بغیر فلک بوس عمارتوں کے اعدادوشمار نامکمل ہی رہیں گے۔ روئے زمین پر فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے سلسلے میںجس طرح کی ترقی دبئی میں دیکھی گئی ہے، وہ ناقابلِ یقین ہے۔ یہ بات اس لیے دُرست ثابت ہوتی ہے کہ فلک بوس عمارتوں کے حامل دیگر دو ملکوں چین اور امریکا کے معاشی حجم کے مقابلے میں دبئی ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ دبئی میں نئی صدی کے ابتدائی 20برسوں کے دوران 23نئی فلک بوس عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں، جن میں سے 4عمارتیں امریکا کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ سے زیادہ اونچائی کی حامل ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت دبئی میں کم از کم 10مزید نئی بلند و بالا عمارتیں زیرِ تعمیر ہیں، جن کی اونچائی 300میٹر سے زائد ہے۔

مستقبل میں کیا ہے؟

فلک بوس عمارتوں کا ڈیزائن اور آرکیٹیکٹ تیار کرنے سے لے کر ان کی تعمیر کو پایہ تکمیل پہنچانے تک کئی برس درکار ہوتے ہیں۔ کئی برسوں پر محیط اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ ماہرین اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں فلک بوس عمارتوں پر پیش رفت کی کیا رفتار رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت کم از کم 132نئی بلند و بالا عمارتیں زیرِ تعمیر ہیں۔ یہ تعداد نئی صدی کے آغاز پر دنیا میں موجود تمام بلند و بالا عمارتوں سے پانچ گُنا زیادہ ہے۔ ان عمارتوں میں سعودی عرب کا جدہ ٹاور بھی شامل ہے، جو پہلی بار ایک کلو میٹر اونچائی کا نیا سنگِ میل عبور کرتے ہوئے، دبئی کے برج خلیفہ سے دنیا کے بلند ترین ٹاور کا اعزازچھین لے گا۔

تعمیراتی دنیا میں جس طرحجدتیں متعارف کروائی جارہی ہیں اور آنے والے 20برسوں میں جیسے جیسے معاشی صورتِ حال بدلے گی، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ تعمیراتی دنیا کون سے نئے سنگِ میل عبور کرتی ہے۔