سیاسی گرما گرمی!

September 30, 2020

پیر کا دن سیاسی رہنمائوں کے تند و تیز بیانات، احتجاجی اقدامات کے اعلانات اور جوابی بیانات کے حوالے سے گرما گرمی کا دن ثابت ہوا۔ اس روز جو دو واقعات سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنے ان میں سے ایک مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحویل میں جانے کا واقعہ ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست شہباز شریف کے وکلا کی جانب سے واپس لئے جانے پر لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے نمٹا دی گئی اور عبوری ضمانت کا حکم واپس لئے جانے کے بعد نیب نے اپوزیشن لیڈر کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا۔ دورانِ سماعت شہباز شریف کے وکلا کا موقف تھا کہ نیب کے پاس کوئی ثبوت نہیں جبکہ نیب کے وکیل کا کہنا تھا جعلی کمپنیاں بناکر اثاثوں میں 22گنا اضافہ کرنے سمیت منی لانڈرنگ کی تفصیلات موجود ہیں۔ میاں شہباز شریف کا عدالت کی اجازت سے پیش کردہ معروضات میں کہنا تھا کہ کسی کمپنی سے ایک دھیلا بھی ان کے اکائونٹ میں نہیں آیا جبکہ خریداریوں میں انہوں نے ایک ہزار ارب روپے بچائے۔ دوسرا اہم واقعہ احتساب عدالت میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت 14افراد پر جعلی اکائونٹس کے میگا منی لانڈرنگ ریفرنس میں فرد جرم کا عائد کیا جانا ہے۔ عدالت نے حاضر ملزمان کے علاوہ گرفتار ملزمان کے وکلا کو چارج شیٹ دی جس پر ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔ یہ واقعات جہاں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت اپوزیشن رہنمائوں کے ردعمل ذریعہ بنے وہاں متحدہ اپوزیشن کے ہنگامی اجلاس کی طلبی کا سبب بھی بنے۔ کچھ عرصے سے سیاسی فضا میں اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے دعوؤں، اسمبلیوں کے اندر اور باہر سے تبدیلی لانے کے بیانات اور اجتماعی استعفوں سمیت متعدد آوازوں کی جو گونج سنائی دے رہی ہے اسے نارمل صورت حال کا حصہ سمجھنے میں مبصرین کو تامل ہے۔ اس کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینے اور سیاسی ماحول ٹھنڈا کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے جس کے ملکی حالات، قومی مفادات اور درپیش چیلنج متقاضی ہیں۔ آئین پاکستان منتخب حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیتا ہے مگر یہی آئین اپوزیشن کو بھی اتنی ہی مدت کے لئے مینڈیٹ دیتا ہے کہ وہ حکومت کی جن پالیسیوں اور اقدامات کو ملکی مفادات کے لئے نادرست اور اصلاح طلب محسوس کرتی ہے ان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جمہوریت کی گاڑی کے دو ناگزیر پہیّے ہیں۔ ایک پہیّے سے گاڑی نہیں چل سکتی لیکن جب نوبت یہاں تک آجائے کہ وزیر کاغذ لہرا کر کسی کو ملزم ٹھہرائیں اور انکے اعلاناتِ گرفتاری عملی صورت اختیار کرتے بھی محسوس ہوں تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں جبکہ قانون کی عملداری اور احتساب ایسی چیزیں ہیں جن میں انتقام کا شائبہ یا سیاست کی کارفرمائی خطرناک ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں قانون اور احتساب کے ادارے آزادانہ و غیرجانبدارانہ انداز میں اپنا اپنا کام کرنے کے پابند ہیں۔ سیاسی ماحول میں گرما گرمی آنا، معیشت کا جمود اور ہاتھا پائی یا افراتفری کا ماحول جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے اور کسی کے مفاد میں نہیں اسلئے اپوزیشن اور حکومت کو سنگین اختلافی امور میں بھی افہام و تفہیم سے درمیانی راہ نکالنی چاہئے۔ افہام و تفہیم سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں اور یہی ہزاروں برس کی دانش کا نچوڑ ہے۔ معاملات کو تنازعات کی صورت اختیار کرنے سے بچایا جانا چاہئے کیونکہ ایسی صورتحال مارشل لائوں، پابندیوں اور سانحوں کی طرف لے جاتی ہے۔