کیا ہم آگ سے کھیل رہے ہیں؟

September 30, 2020

خفیہ ایجنسیاں گزشتہ تین چار ماہ سے پریشان اور سرگرداں ہیں جبکہ اب عام آدمی کو بھی نظر آگیا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی منظم سازش ہورہی ہے۔

بھارت تو اِس میں ملوث ہے ہی لیکن بعض اوقات شک پڑتا ہے کہ اِسے مغربی ممالک کی شہہ بھی حاصل ہے۔ شومئی قسمت کہ حکومت میں بھی بعض ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو اس آگ کو دانستہ یا نادانستہ بھڑکا رہے ہیں۔

سعودی عرب اور ایران نے اپنے اپنے پراکسیز کو گرم کردیا ہے جبکہ اب ترکی بھی میدان میں کود پڑا ہے۔ ترکی فرقہ واریت کو ہوا نہیں دے رہا لیکن وہ سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لئے اپنا اثرورسوخ بڑھا کر پراکسیز پیدا کرنے میں مصروف ہے۔

پاکستان میں یہ مفروضہ قائم کر لیا گیا تھا کہ جوں جوں افغان طالبان، افغانستان میں کامیابی حاصل کریں گے توں توں، وہاں وہ ٹی ٹی پی کو ختم کریں گے۔ یہ عاجز پہلے دن سے دہائی دیتا رہا کہ ٹی ٹی پی نظریاتی اور سماجی حوالوں سے ٹی ٹی اے کی ایکسٹینشن یا فرانچائز ہے لیکن پاکستانی ریاست کے اصل وارث اِن دونوں کو الگ الگ اکائیاں ثابت کرنے میں مگن رہے۔

اگر صرف اسٹرٹیجک آئینے میں دیکھ کر ان کے ٹارگٹ کے لحاظ سے تجزیہ کیا جائے تو پھر وہ دعویٰ درست نظر آتا ہے لیکن جو لوگ نظریاتی اور معاشرتی پہلوئوں کو سمجھتے ہیں یا افغان اور پاکستانی طالبان کو قریب سے جانتے ہیں، وہ کبھی بھی دونوں کو مخالف یا الگ نہیں سمجھتے۔

اب پتا نہیں کہ افغان طالبان کی فتح کے تاثر کا نتیجہ ہے یا کسی نے کوشش کرکے جمع کیا ہے لیکن پاکستان طالبان کے پانچ دھڑے ایک بار پھر متحد ہو گئے اور مفتی ولی الرحمٰن کے ہاتھ پر بیعت کرلی جس کے فوراً بعد طالبان کی کارروائیاں شدت اختیار کر گئیں اور مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان خاکم بدہن ایک بار پھر 2013والا پاکستان بنتا جارہا ہے۔

دوسرا خطرہ افغانستان کی صورتحال ہے۔ امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے بعد جس سست رفتاری سے بین الافغان مفاہمت کا عمل آگے بڑھ رہا ہے، اس سے میرے ذہن میں یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ امریکہ جس طرح جنگ ختم کرکے افغانستان سے نکلنے میں سنجیدہ ہے، اتنا وہ افغانستان میں بین الافغان مفاہمت کے ذریعے امن لانے میں نہیں۔ پاکستان نے تو طالبان پر پورا دبائو ڈال دیا ہے کہ وہ افغان حکومت سے مفاہمت کریں لیکن امریکہ کی طرف سے اشرف غنی حکومت پر کوئی خاص دبائو نظر نہیں آتا۔

بعض اوقات تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے بین الافغان مذاکرات کو چلا کر امریکہ افغانستان کو خانہ جنگی کے سپرد کرنا چاہتا ہے تاکہ چین، پاکستان اور ایران جیسے پڑوسی سکون سے نہ رہ سکیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کا نمبرون نشانہ اب چین ہے اور وہ کسی صورت بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور سی پیک کی کامیابی نہیں چاہتا۔

وہ اپنی افواج کو تو افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے لیکن یہاں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے کہ سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوجائیں۔ اسی طرح اس نے بھارت کو شہہ دے کر مقبوضہ کشمیر کو اُس سے ہڑپ کروایا لیکن اب پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اسٹیٹس کو تسلیم کرے۔

اس کا مقصد بھی شاید یہ ہو کہ بھارت کو چین کے مقابلے کے لئے آزاد کرایا جائے اور پھر دونوں مل کر افغانستان اور وہاں سے پختونخوا اور بلوچستان میں پراکسیز کے ذریعے فساد کروائیں۔

ویسے تو پورے پاکستان کے حالات اس وقت نازک ہیں لیکن گلگت بلتستان، قبائلی اضلاع اور بلوچستان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ ہر جگہ نوعیت مختلف ہے لیکن وہاں ریاست کے خلاف جذبات کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ مہاجروں اور سندھیوں کی قیادت کو قابو کر لیا گیا ہے لیکن مہاجر اور سندھی نوجوان قابو میں یا خوش ہرگز نہیں ہیں۔

ایم کیو ایم کی طرف سے جس طرح کراچی صوبے کا مطالبہ شدت سے دہرایا جانے لگا اور پھر ایک جلوس میں مہاجروں کے خلاف نامناسب نعرے لگوائے گئے، اس سے پتا چلتا ہے کہ نفرتوں کو صرف دبایا گیا تھا، کسی وقت بھی یہ لاوا ابل سکتا ہے۔ ایک پنجاب باقی تھا لیکن اب پنجاب میں بھی مسلم لیگ(ن) کے جلسے جلوسوں میں پی ٹی ایم جیسے نعرے لگنے لگے ہیں۔

معیشت پہلے سے پی ٹی آئی کے بقراط تباہ کر چکے تھے اور رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی۔ یوں مہنگائی اور بےروزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

یہ ہیں اس ریاست کے اصل مسائل اور چیلنجز لیکن بدقسمتی سے ملک کو ایسے سیاسی بونوں کے سپرد کردیا گیا ہے کہ جنہیں ان مسائل کا احساس ہے اور نہ سمجھ۔ وہ صرف اپوزیشن کو ملک کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

وہ بھلے ہیں یا برے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرقہ واریت اور ٹی ٹی پی جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے سیفٹی والو کی حیثیت مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت کو حاصل ہے۔ پی ٹی ایم جیسے ایشوز کے بارے میں سیفٹی والو کی حیثیت اسفند یار ولی خان اور محمود خان اچکزئی یا ان کی جماعتوں کو حاصل ہے۔

کراچی کے نوجوان کا ریموٹ آج بھی ایم کیو ایم جبکہ اندرون سندھ کا زرداری کے ہاتھ میں ہے اور یہی پوزیشن پنجاب میں میاں نواز شریف کو حاصل ہے۔ اب ان سب کو بھڑکانے اور بغاوت پر اُکسانے کی کوششیں خود حکومت کررہی ہے۔

بدقسمتی سے اِس معاملے کو نواز شریف، زرداری اور عمران خان کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے لیکن اب جب مولانا فضل الرحمٰن بھرپور طریقے سے مذہبی کارڈ استعمال کرکے اپنے لوگوں کو میدان میں اُتاریں گے، ساتھ بلوچ اور پختون قوم پرست ہوں گے اور اوپر سے پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) یا پھر صرف مسلم لیگ (ن) کی چھتری ہوگی، تو یہ لوگ کیا اس ریاست کو ہلا نہیں دیں گے۔

پھر اگر وہ اپنی توپوں کا رخ اسلام آباد کے بجائے پنڈی کی طرف رکھیں گے تو کیا فساد نہیں ہوگا؟ اوپر ذکر شدہ مسائل اور چیلنجز کے ہوتے ہوئے جب یہ میدان سجے گا تو خود اندازہ لگالیجئے کہ اس ملک کا کیا حشر ہوگا؟۔

مذکورہ چیلنجز کا تقاضا تو یہ تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے گلے شکوے دور کئے جاتے اور بصد احترام ریاست کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے اُن کو تعاون پر آمادہ کر لیا جاتا لیکن ہم ایسی بدقسمت قوم ہیں کہ جوں جوں خطرات بڑھتے جارہے ہیں، توں توں اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر بغاوت پر اکسایا جارہا ہے۔