ٹوپی سے خرگوش نکالنے والے

September 30, 2020

میرے گھر کے باہر جو اسٹریٹ لائٹ ہے وہ سال کے تین سو پینسٹھ دن خراب رہتی ہے، آج پچھترواں دن ہے۔ سڑک سے کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا بھی کوئی تسلی بخش انتظام نہیں، اکثر کوئی نہ کوئی شریف آدمی وہاں کوڑے کا ڈھیر لگا کر چلا جاتا ہے۔ اور اسی سڑک پر چند قدم آگے کچھ دکانیں، ایک دو ریستوران اور اِکا دُکا کھوکھے بھی ہیں جن کی تجاوزات کی وجہ سے اچھی خاصی چوڑی سڑک تنگ معلوم ہوتی ہے۔ میں خود کو ایک ذمہ دار، چوکس اور سیانا شہری سمجھتا ہوں، جوکہ بظاہر میری خوش فہمی ہے، میں ذمہ دار ہوں نہ چوکس اور سیانا تو بالکل بھی نہیں۔ دنیا جہان کو مشورے دیتا پھرتا ہوں مگر اپنا یہ حال ہے کہ آج تک یہ معلوم نہیں کر سکا کہ اسٹریٹ لائٹ ٹھیک کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ کام بجلی کے محکمے کا ہے مگر پھر مجھ سے بھی زیادہ کسی سیانے نے بتایا کہ مقامی حکومت نام کی کوئی شے ہوتی ہے جو اگر مادی وجود رکھتی ہو تو اُس کا منتخب نمائندہ اہلِ علاقہ میں سے ہی کسی کو یہ کام تفویض کر دیتا ہے، واللہ اعلم بالصواب، خدا کو جان دینی ہے، میں آج تک ایسے کسی مردِ حُر کو تلاش نہیں کر سکا جس کے ذمے یہ کام ہو۔ کوڑا کرکٹ اُٹھانے والی کمپنی کا فون نمبر البتہ میرے پاس ہے، اُنہیں اکثر شکایت درج کروائی جاتی ہے، تاہم دس مرتبہ شکایت کرنے کے بعد اُن کی گاڑی مشکل سے ایک مرتبہ آتی ہے، غنیمت ہے، ہم اسی پہ شاکر ہیں۔ تجاوزات والے مسئلے کا بھی میرے پاس کوئی حل نہیں، کسی زمانے میں ’’تہہ بازاری‘‘ والے آتے تھے، اب نہ جانے یہ کام کس محکمے کا ہے، سچی بات ہے میں نے کبھی پتا لگانے کی کوشش بھی نہیں کی۔

ضلع بٹگرام کا ایک گاؤں ہے، چلونی، یہاں دو سو گھرانے مقیم ہیں، پہاڑی علاقہ ہے، ذرائع نقل و حمل محدود اور آمدورفت نہایت مشکل ہے۔ تین ماہ پہلے تک اِن گاؤں والوں میں سے اگر کسی کو اسپتال، بازار یا گاؤں سے باہر کسی ہنگامی ضرورت کے تحت جانا پڑتا تو شدید مشکل پیش آتی کیونکہ آمد ورفت کے لئے پکی تو کیا کچی سڑک بھی موجود نہیں تھی، مریض کو چارپائی پر ڈال کر ایک کلومیٹر کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا تھا، پبلک ٹرانسپورٹ گاؤں سے 27کلومیٹر دور تھی۔ علاقہ مکینوں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اگر پکی سڑک نہیں تو کم از کم اِس 27کلومیٹر کو کچا راستہ ہی بنا دیا جائے تا کہ نقل و حمل میں آسانی ہو مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پھر یوں ہوا کہ وہاں کی ایک مقامی فلاحی تنظیم نے دسمبر 2017میں گاؤں والوں کو تربیت دینا شروع کی جس میں اُنہیں بتایا گیا کہ اپنے حقوق کے لئے متحرک کیسے ہوا جاتا ہے، عوامی مسائل کے حل کے لئے کون سا در کھٹکھٹایا جاتا ہے اور اپنے علاقے کے مسائل کیسے حل کروائے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کی تربیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فروری 2018میں گاؤں والوں نے ایک قرارداد تیار کی جس میں علاقہ مکینوں کے دستخط موجود تھے اور پھر وہ قرارداد مقامی ایم پی اے کو دی گئی جس نے کچی سڑک کے لئے دس لاکھ روپے مختص کروائے جس سے صرف دس کلومیٹر کچی سڑک ہی بن سکی۔ 2018کےانتخابات شروع ہوئے تو کام رک گیا جس کے بعد گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پیسے اکٹھے کرکے جون 2020تک کچی سڑک مکمل کر لی۔ اب اس گاؤں کے لوگ شاہراہ قراقرم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور صحت اور تعلیم تک رسائی بھی آسان ہو گئی ہے۔ گاؤں والوں کے لئے یہ ایک چھوٹا سا معجزہ ہے، جس تنظیم نے اِن مقامی افراد کی تربیت کی اُس کا نام عمر اصغر خان فاؤنڈیشن ہے اور یہ تنظیم مالی امداد کرنے کے بجائے لوگوں کی اِس انداز میں تربیت کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق قانونی طریقے سے حاصل کر سکیں۔ ایک پروجیکٹ کے تحت اِس تنظیم نے صوبے کے 12اضلاع میں عوامی تربیت کا یہ کام کیا ہے اور لوگوں کو باشعور اور فعال بنانے میں مدد کی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ایک دور افتادہ گاؤں کے باسی اگر اپنے علاقے کے لئے سڑک بنوا سکتے ہیں تو لاہور، کراچی کے طرم خان شہری اپنے گلی محلے کیوں صاف نہیں رکھ سکتے؟ وجہ یہ ہے کہ بطور قوم ہم گورننس کے چھوٹے چھوٹے نسخوں یا سادہ قسم کے نظام سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ہمیں انقلابی نظام چاہئے اور اسے چلانے کے لئے ایک کرشماتی لیڈر جو روزانہ اپنی ٹوپی سے خرگوش نکال کر دکھائے۔ خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی ٹوپی سے بنیادی جمہوریت کا خرگوش نکال کر دکھایا، نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا، آخری رسومات یحییٰ خان نے ادا کر دیں۔ پھر ہمیں سوشلسٹ انقلاب کا سبز باغ دکھایا گیا، نتیجے میں ایسا صنعتی زوال شروع ہوا جو کئی دہائیوں تک رکنے میں ہی نہیں آیا۔ اِس کے بعد ایک مردِ مومن نے نظامِ مصطفیٰ کا دلفریب نعرہ دیا اور اپنی ٹوپی سے اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا خرگوش نکال کر دکھایا، اِس حکمت عملی نے ملک کو فرقہ واریت کے جہنم میں دھکیل دیا اور ملک کا رہا سہا ڈھانچہ بھی برباد ہو گیا۔ ٹوپی سے خرگوش نکالنے کی اگلی باری پرویز مشرف کی تھی، جناب نے سات نکاتی اصلاحی ایجنڈا پیش کیا، جس کے بعد ملک کی ایسی ’اصلاح ‘ ہوئی کہ ہم دہشت گردی کی دلدل میں ڈوب گئے اور کئی برس تک باہر نہ نکل سکے۔ اب ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِس ملک کا اصل مسئلہ بدعنوانی ہے، سو آج ہمارے پسندیدہ الفاظ، کرپشن اور بےرحم احتساب وغیرہ ہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اِس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ فدوی کی رائے میں دلفریب نعروں اور کسی انقلاب کے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ اپنے علاقے اور محلے کے نمائندوں اور سرکاری کرمچاریوں سے قانون کے مطابق اپنے حقوق مانگیں۔ چلونی گاؤں والے اگر یہ کر سکتے ہیں تو باقی پاکستانی کیوں نہیں؟