ہوتا ہے شب وروز سیاپا مرے آگے

September 30, 2020

چُوں چُوں کے مربے سے چُوں چُوں نکال دیں تو پھر آپ بدذائقہ مربہ کھانے سے صرف چاؤں چاؤں ہی کرتے ہیں، مربے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے، چاہے آپ کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں، آپ کی دال نہیں گلتی اور باسی دال کھانے سے پیٹ میں جو مروڑ اُٹھتے ہیں تو آپ بھاگم بھاگ نیم حکیم خطرہ جان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت کو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ہی تو کہتے ہیں۔ دھکے شاہی کے دور میں جب ماضی کے طاقتور پہلوان چُوں چُوں کا مربہ کھانے سے زیر وزبر ہونے لگیں اور مریض نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ جائے تو سب تدبیریں اُلٹی ہو جاتی ہیں۔ وقت اور حالات نے جہاں زندگی کے سارے دھارے ہی بدل کررکھ دیے ہیں وہاں کچھ تلخ حقیقتوں میں زبان و بیان پر بھی ایسا اثر ڈالا ہے کہ دہائیوں پہلے تخلیق پانے والے اُردو محاورے بھی اپنی حقیقت کھونے لگے ہیں جیسے ماضی قریب کی سادہ بھولی بھالی زندگی میں بچوں کی تفریح کا ایک ذریعہ محلے کے نکڑ پر ہونے والا بندر کا ڈگڈگی تماشہ کہیں کتابوں کہانیوں میں ہی کھو گیا ہے لیکن ڈگڈگی پر ناچنے والے بندر ابھی تک ہمارے معاشرے کے پتلی تماشے میں اپنا بھرپور کردار نبھا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ڈگڈگی پر ناچتے ہی چلے جارہے ہیں اور ان بندروں کی حرکتوں پر تالیاں بجاتے، اس مصرعے ”ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے“ پر محض اس لئے سر دھنتے جارہے ہیں کہ زندگی کے یہ سیاپے تو شاید مرتے دم تک بھی ختم نہیں ہونے تو کیوں نا ایک نیا محاورہ تخلیق کیا جائے کہ ”ہوتا ہے شب و روز سیاپا میرے آگے“۔ مورخ جب نئے پاکستان کے وجود میں آنے کی کہانی لکھے گا تو تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کو ورثے میں ملنے والے نت نئے بحرانوں کی داستان کچھ یوں تحریر کی جائے گی کہ سرکار نے سوشل میڈیا پر عوامی آگاہی کی مہمات تو بہت چلائیں، صبح سویرے قوم کو جگانے کے لئے ٹویٹ تو بہت کئے، بڑے بڑے مگر مچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا سیاپا بھی کیا گیا، آخر کار یہ بڑے مگر مچھ احتساب کے کٹہرے میں لائے بھی گئے لیکن سب ایک ایک کرکے باہر نکلتے چلے گئے، پہلے ان کو اندر بھجوانے کا سیاپا، پھر اُنہیں سزا دلوانے کا سیاپا اور اب اُن کے باہر نکل جانے اور اُنہیں واپس لانے کا سیاپا۔ گویا کہ دن رات سیاپوں پر سیاپے کئے جاتے رہے اور کراچی کے عوام طوفانی بارشوں، سیلابی ریلوں میں ڈوب ڈوب کر مرتے رہے، گلی گلی محلے محلے حکمرانوں کا سیاپا ہوتا رہا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ بلدیہ کراچی کے سابق میئر ایم کیو ایم کے کرتا دھرتا وسیم اختر پانچ سال اختیارات، فنڈز نہ ملنے کا سیاپا کرتے رہے، نہ انہیں فنڈز ملے نہ ہی انہوں نے بلدیہ کراچی کے وسائل سے شہریوں کو ایسی آسانیاں ہی فراہم کیں جن سے وہ سکھ کا سانس لے سکتے گویا ایک اور نیا سیاپا کہ گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی کے ووٹ بینک پر مکمل طور پرقابض رہنے والے بھی بےبسی کا سیاپا کرتے رہے لیکن انہوں نے اس بات کا کبھی کوئی جواب نہیں دیا کہ آخر ان تین دہائیوں میں انہوں نے کراچی کے عوام کے لئے کیا کیا؟ کراچی شہر کچرے کا ڈھیر بن گیا، گندے نالوں پر حکمرانوں نے قبضوں کی شکل میں بستیاں آباد کرا دیں لیکن شہر میں سیوریج کا نظام بہتر ہوا نہ ہی پینے کا صاف پانی میسر آیا۔ مورخ لکھے گا کہ یہ سیاپا پیپلز پارٹی بھی کرتی رہی اور تحریک انصاف بھی۔ پیپلزپارٹی میڈیا پر وفاق سے حقوق مانگنے کا رونا روتی رہی تو کبھی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا سیاپا کرتی رہی لیکن یہ سیاپے پھر بھی ختم نہ ہوئے۔ جب تحریک انصاف کے سندھ خصوصاً کراچی کے بھاری مینڈیٹ کی بات ہوگی تو بڑی دلچسپ داستان لکھی جائے گی کہ کراچی ایک طرف ڈوب رہا تھا اور تحریک انصاف کے فنکار، پی ایچ ڈی ڈاکٹر نما ایم این اے شدید بارش کے دوران اپنی دوسری بیوی کو ملنے گئے تو واپسی پر گھر کے باہر اُن کی گاڑی پانی میں ایسی ڈوبی کے جیسے اُن کی لٹیا ہی ڈوب گئی اور وہ گہرے پانی میں غوطے لگاتے، سانسیں روکتے باہر نکلتے، اپنی جوانی پر نازاں نظر آئے۔ انہیں عوام سے زیادہ اپنی گاڑی کی چابی کھو جانے کا سیاپا پڑا تھا۔ یہی فنکار ڈاکٹر کراچی کی پانی میں ڈوبی گلیوں میں سیلفیاں تو بناتے رہے لیکن عملی طور عوام کی کسی قسم کی مدد کو نہ آئے۔ ان حالات میں کراچی کے لوگ کے الیکٹرک کی بدانتظامی و نااہلی کا سیاپا کرتے رہے، گہرے پانیوں سے بچنے والے بجلی کا کرنٹ لگنے سے زندگی کی بازی ہارتے رہے لیکن یہ سیاپا ابھی ختم نہیں ہوا۔ قابلِ صد احترام چیف جسٹس گلزار احمد کی کورٹ سے روشنی کی جو تھوڑی بہت کرن نظر آرہی تھی ہمارے حکمرانوں نے ملی بھگت کرکے ایک ہی جھٹکے میں عوام کی امیدوں کے چراغ گل کر دیے۔ عوام کے ہمدرد نما یہ دشمن کے الیکٹرک کے غلام نکلے، نیپرا نے کے الیکٹرک کو بیس کروڑ روپے جرمانہ کیا ۔ اِن غلاموں نے راتوں رات بجلی کے نرخ بڑھا کرکے الیکٹرک کو ماہانہ 12ارب روپے کا جو یکمشت ہدیہ نذر کیا یہ چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس سے کھلا ٹکراؤ نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا کراچی کے بےیارومدد گار عوام صرف سیاپا ہی کرتے رہ جائیں گے یا پھر کوئی اِس کا نوٹس بھی لے گا۔ خیر کی خبر میں ایک نیا سیاپا بھی پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے کپتان خان نے گیارہ ارب سو روپے کے تاریخی کراچی پیکیج کا اعلان ہی کیا تھا کہ ہر طرف بھانت بھانت کی بولیاں بولی جانے لگیں، بُری نظر والے کہتے ہیں کہ یہ سب کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے قبل دکھایا جانے والا ایک نیا سبز باغ ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کل وفاقی ترقیاتی بجٹ سات سو ارب اور کراچی پیکیج گیارہ سو ارب ہو، آخر یہ پیسہ آئے گا کہاں سے اور اِس پیسے میں فریقین کا حصہ کیا ہوگا؟ گویا ایک نیا سیاپا ہمارا منتظر ہے۔