حقوق کی جنگ پھر ڈھول بجا رہی ہے

September 30, 2020

دنیا میں 100بااثر افراد کی فہرست میں دلی کے شاہین باغ میں دھرنا دینے والی بوڑھی اماں بلقیس بھی شامل ہے۔ شاید آپ کو بھی یاد ہو کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے منافرت کے خلاف یہ دھرنا کئی ماہ تک چلا مگر ڈھیٹ سیاست دان صرف ایک ملک یعنی بھارت ہی میں نہیں بلکہ امریکہ سے لے کر سارے شاہی اور آمرانہ مائنڈ سیٹ میں بنیادی فلسفہ، عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنا، ایک عمومی بات ہے۔ اب جو بلدیاتی انتخابات اور گلگت بلتستان میں انتخابات کا ایک دم غلغلہ اُٹھا ہے، وہ اپنے اندر بہت سے سوالات لئے ہوئے ہے۔ جن کے جوابات حکومتِ پاکستان نے الگ اور عالمی رہنمائوں نے اپنے طور پر دینے ہیں۔ دور جائیں گے بعد میں پہلے اپنے اردگرد دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔ اب پھر یہ نہیں بتا سکتی کہ کون کروا رہا ہے اور کون کررہا ہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوان ہمارے گزشتہ ہفتے کے پریس کلب کے باہر مظاہرے میں شامل تھے، اُنہوں نے کہا ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ آئے، حکومت اور ہم سب لکھنے والوں سے ناراض تھے کہ ’’اول تو ہمیں کے پی کا حصہ قرار دیدیا۔ اب شور مچا ہے تو صوبے کی حیثیت دینے کا نام زبانی زبانی سن رہے ہیں۔ ہمیں اپنی شناخت چاہئے۔ ہمیں کشمیر کے مسئلے کے ساتھ منسلک مت کریں‘‘۔ میں نے کہا بچو ہر ایک اپنی شناخت کو نئے سرے سے مانگ رہا ہے۔ پشتون الگ، بلوچی الگ، سندھی الگ اور سب سے بڑھ کر طوفان اور بدتمیزی مہاجروں کے نام کو ذلیل کرنے کے لئے، پہلے بےتحاشہ بلااجازت، بغیر نقشے کے بلڈنگوں پہ بلڈنگیں بناتے رہے، اب وہ بلڈنگیں گر رہی ہیں تو وہ بےچارے مکین متوسط طبقے کے لوگ جو پہلے جہاز گرنے سے بےگھر ہوئے، اب بلڈنگیں کچھ خود گر گئیں اور باقی گرائی جا رہی ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ بلڈنگیں بنائی تھیں وہ تو لوگوں سے پیسے بٹور کر کوئی ملایشیا چلا گیا تو کوئی امریکہ یا آسٹریلیا۔ اب حکومت کے پاس بھی نہ ایجنڈا ہے نہ سرمایہ اور منصوبہ سازی، اب وہ بلڈنگیں بھی گرائی جا رہی ہیں جو لوکل ٹرین کی پٹری اکھاڑ کر 1985کی ابتدا سے اُنکی حکومت تک بنتی اور پھیلتی رہیں اُن کو بےچارے مکینوں نے نہیں بنایا گھر والی کے زیور بیچ کر اور قرض لے کر سر پہ چھت ڈلوائی تھی۔ اب وہ سب کہاں جائیں۔ دوسرے یہ اتنے عرصے سے سندھ اور کراچی پر حکومت کرتے رہے اور اب کراچی کا الگ صوبہ بنانے کے لئے جلسے پہ جلسے کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں بولتا، دوائیوں کی قیمت پانچ سو فی صد بڑھ گئی ہے۔ دالیں تین سو روپے کلو اور آٹا تو اوپر سے اوپر سیڑھی چڑھتا چلا جا رہا ہے۔

بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا رقبے کے لحاظ سے صوبہ ہے۔ سنا ہے وہاں جو سونے کی کانیں تھیں۔ وہ تو ریکوڈک والے اڑا کر لے گئے۔ پھر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اب تک تو ساری سیاسی جماعتوں کو حکومت کرنے کا موقع مل چکا ہے مگر چاہے آواران جائو کہ کیچ کے علاقے میں، منصوبہ ہے۔ پیسہ نہیں، پیسہ ہے تو منصوبہ نہیں۔ کیچ کے علاقے میں تو منسلکہ ایرانی علاقوں سے آٹے سے لے کر پیٹرول تک دھکا زوری ایسے کام چل رہا ہے کہ آپ کو نمکو بھی چاہئے تو وہ بھی ایرانی ملے گی۔ سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے کہ اگر صحافیوں کو اغوا کیا جاتا اور چینل بند کیے جاتے ہیں تو بھی قصور ان کا ہی نکلتا ہے، یہ آخر عابد نہیں مل رہا تو یہ بات صحافیوں کی ذمہ داری کیسے بن گئی۔ اگر شہباز شریف کو گرفتار کرنا ہے تو عدالت کا تو لحاظ کرتے۔ شاید وہ ’’عابد‘‘ کی جگہ شہباز کو گرفتار کر کے سرخرو ہو جائینگے۔ جتنے ڈاکے، لوٹ مار، گھروں میں دن دہاڑے ڈالے، کیا شہباز کو گرفتار کرنے سے کم ہو جائینگے۔ یہ کراچی کراچی کرنے والے آخر کراچی کے بےسرو سامان خاندانوں کو کونسی جگہ مل گئی ہے۔بتائیں کہ کراچی کے نوجوان بھری سڑک پہ عورتوں کی بالیاں اور چوڑیاں نہ اتاریں تو اور کیا کریں کہ نوکری تو نہیں ہے۔ آٹا، وہ تو نہیں ہے۔ گھر وہ تو گر گیا۔ اب جو ان بچیاں ہیں کیا ایدھی سینٹر میں چلی جائیں مگر وہاں بھی اتنی جگہ نہیں ہے۔

اس سے پہلے کہ لوگ کوئی اور انتظار حسین کو ڈھونڈیں جو لکھے کہ ’’آگے سمندر ہے‘‘، کراچی کے بوڑھے بےمغز بوسیدہ نعروں کے علاوہ یہ باور کیوں نہیں کرتے کہ پتنگ تو کب کی کٹ چکی ہے۔ سرحد پہ چلتی گولیاں گھروں تک آرہی ہیں۔ روز وزیرستان سے دو تین شہیدوں کی خبر سن کر ہم سب خاموش 1979سے یہ سلسلہ کبھی کم اور کبھی زیادہ چلا ہی جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں نئی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ امریکہ دھمکیاں دینےوالا ہرچند چل چلائو پہ ہے مگر اپنی سفید رنگت پہ اب تو کوئی بھی نازاں نہیں۔ برگ جج کی وفات کے بعد اور کوئی ہماری عاصمہ کی طرح بولنے والا نہیں،چومسکی کبھی کبھی امن کے لئے دہائی دیتا ہے۔ ہم پاکستانی پاکستانی ہی بن کر کب دکھائیں گے۔ بنگالیوں سے لڑے تھے تو آج وہ ہم سے دس قدم آگے ہیں۔ 2020 ختم ہونے کو ہے۔ کورونا کے باعث ہم سب لوگوں کے کرتوت چھپے رہے۔ وزیراعظم کی کوششوں کو روز، شبلی فراز، نئے جملے بنا کر بیان کرتا ہے۔ مہنگائی اور غربت ساتھ ساتھ طاعون کی طرح پھیل رہی ہیں۔ میری طرح سارے سوچنے والے لوگ کیا 2021میں بھی اتنے برے دن دیکھیں گے۔ کیا اس سے بھی زیادہ!