قانون سازوں کی ٹیکس شکنی جائز نہیں

September 30, 2020

کسی بھی ملک کے پارلیمنٹرینز اپنے عوام کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور عوام اُنہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتےہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں وزیراعظم سے لے کر وزراء اور پارلیمنٹرینز تک سادہ طرز زندگی اپناکر عوام کیلئے مشعل راہ بنتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں وزراء اور پارلیمنٹرینز دولت کے دکھاوے اور نمود و نمائش پر یقین رکھتے ہیں اور شاہانہ کی زندگی گزارنے والی یہ شخصیات ٹیکس کی ادائیگی کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں جس کی نشاندہی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی گزشتہ روز جاری کردہ ٹیکس ڈائریکٹری سے ہوتی ہے جس میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ وزراء اور پارلیمنٹرینز کی بڑی تعداد نے سرے سے کوئی ٹیکس ہی ادا نہیں کیا اور اگر کیا بھی تو وہ اتنا معمولی کہ فقیر بھی شرماجائے حالانکہ اِن شخصیات کے شاہانہ طرز زندگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے اُس امیر و کبیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے۔

ایف بی آر ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق ملک و بیرون ملک اربوں روپے مالیت کے اثاثے رکھنے والے وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سینیٹر فیصل جاوید، سینیٹر رانا مقبول، سینیٹر شمیم آفریدی، محسن داوڑ، عبدالشکور، شیخ راشد رفیق، ثناء اللہ مستی خیل، علی گوہر خان، صاحبزادہ محبوب سلطان، صاحبزادہ امیر سلطان، ظہور حسین قریشی، زین حسین قریشی، خواجہ شیراز محمود، ابراہیم خان اور علی حیدر گیلانی نے قومی خزانے میں سرے سے ایک دھیلا بھی ٹیکس جمع نہیں کرایا جبکہ سردار یار محمد رند نے صرف 400روپے اور کنول شوذب نے صرف 165روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے۔ ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے 2لاکھ روپے، سابق صدر آصف زرداری نے 28لاکھ روپے اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 97لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 24کروڑ 13لاکھ روپے ٹیکس ادا کرکے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی شخصیت قرار پائے۔ ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری میں کچھ دلچسپ حقائق بھی سامنے آئے ہیں جس کے مطابق سادہ طرز زندگی بسر کرنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے شاہانہ زندگی بسر کرنے والے وزیراعظم عمران خان اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو جتنا ٹیکس ادا کیا۔

ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین نے مجموعی طور پر 80کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا۔ اِس طرح صرف ایک ممبر پارلیمنٹ شاہد خاقان عباسی نے مجموعی ٹیکس کا ایک تہائی حصہ 24کروڑ روپے سے زائد ادا کیا جس پر انہوں نے دکھاوا کرنے کے بجائے کہا کہ ’’ٹیکس ادا کرنا میرا فرض تھا اور ٹیکس دے کر میں نے قوم پر کوئی احسان نہیں کیا‘‘۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر ہر روز ٹیکس چوروں کے خلاف بیان بازی کرنے والی شخصیات وفاقی وزیر ریلوے اور لال حویلی جیسی بڑی جائیداد کے مالک شیخ رشید احمد نے صرف 5لاکھ روپے جبکہ وزیراعظم کے مشیر شہباز گل اور وزیر اطلاعات پنجاب فیاض چوہان نے سرے سے کوئی ٹیکس ہی ادا نہیں کیا۔ اِسی طرح چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وہ شخصیت ہیں جنہوں نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جبکہ سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے 48لاکھ روپے، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 10لاکھ روپے اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے صرف 2لاکھ روپے ٹیکس کی مد میں ادا کئے۔ اِن حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا وہ مقتدر طبقہ جس نے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرکے اُن کی زندگی اجیرن کردی ہے، خود ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے تمام حربے استعمال کرتا ہے حالانکہ عوام کے ٹیکسوں سے اِن پارلیمنٹرینز پر تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن ٹیکس دینے کے معاملے میں یہ پارلیمنٹرینز سب سے پیچھے ہیں۔یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ آزادی کے 73سال گزرنے کے بعد بھی ملک میں آج تک ٹیکس کلچر فروغ نہیں پاسکا اور ٹیکس دہندگان میں شمار کئے جانے والے افراد یا تو ٹیکس ادا نہیں کرتے یا پھر اپنی استطاعت سے بہت کم ٹیکس دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں لیکن عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ کے گھر کے لاکھوں روپے کے اخراجات کس طرح پورے ہورہے ہیں، کہیں آپ کرپشن میں تو ملوث نہیں جس کی یقیناً تحقیقات ہونی چاہئیں۔ بیرونی ممالک میں ٹیکس کلچر کی بڑی وجہ وہاں کے شہریوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اُن کا دیا گیا ٹیکس اُن کی فلاح و بہبود پر ہی استعمال ہوگا لیکن اس کے برعکس پاکستان میں ٹیکس ادا نہ کرنے اور ٹیکس چوری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اُن کے دیے گئے ٹیکس اُن کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کے بجائے حکمرانوں کے شاہانہ طرز زندگی اور کرپشن کی نذر ہو جائیں گے۔ افسوس کہ ٹیکس قوانین بنانے والے قانون سازوں کی بڑی تعداد ٹیکس ادا کرنے پر یقین ہی نہیں رکھتی اور یقیناً قانون سازوں کی ٹیکس دینے کے معاملے میں قانون شکنی جائز نہیں۔