وزیراعظم پاکستان کا یو این میں مدلل خطاب

October 01, 2020

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
وزیراعظم عمران خان کا پچھلے سال یو این اسمبلی اجلاس سے خطاب دنیا کے سب سے بڑے فورم پر ان کی پہلی اوپننگ تھی جس سے انہوں نے بخوبی نمٹ لیا اور ساتھ ہی اس بیانیہ میں کشمیر، عالمی غربت کے خاتمہ اور اسلامو فوبیا جیسے بین الاقوامی ایشوز کو چھیڑ کر حالیہ اجلاس کے لیے مختلف ٹارگٹس بھی خود ہی طے کردئیے تھے۔ 2019ء کے خطاب کو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے بھاری کوریج دی جو پاکستانی حوالہ سے ایک اچھی ابتدا تھی۔ عموماً ہمارے بیانیہ کو توجہ نہیں ملی۔ وہ تمام معاملات جن پرانہوں نے پچھلے سال بات بالخصوص کشمیر ایشو، کسی نہ کسی حد تک لوگوں کی نظروں میں رہے اور بین الاقوامی سطح پہ کشمیر ایشو کو بھاری اٹھان ملی کہ اگست2019ء کے بھارتی اقدامات جن کے ذریعہ ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی ہے اور وہاں ہنگامی بنیادوں پہ دوسرے بھارتی شہروں سے اٹھاکر ہندوئوں کی آبادکاری کی جارہی ہے۔ یو این قراردادوں سے بڑا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے جس کو حل کروانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کسی کو توقع نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وزیراعظم کے ایک پُرزور خطاب سے مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔ پچھلے سال کے دوران دفتر خارجہ نے وزیر خارجہ کی قیادت میں موثر انداز میں اس ایشو کو ہر فورم پر اٹھایا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عوامی اجتماع اور زیادہ موثر انداز کی پریس کانفرنسز نہیں ہو پا رہیں۔ تاہم عمران خان کے اس سال کے یو این خطاب جو ہمہ جہت بھی تھا اور نہایت پرمغز بھی۔ نے دنیا میں ریاست پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔ وزیراعظم نے جس مدلل انداز میں بھارت کے اندر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ تفریق پر مبنی ’’ہندو توا‘‘ مائنڈ سیٹ کو ایکسپوز کیا ہے۔ (مکمل واقعاتی ثبوتوں کے ساتھ) جس طرح انہوں نے دنیا کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کی سنجیدگی سے بات کی ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان کے7بلین ٹری پلان ٹیشن پروگرام کا ذکر کیا ہے جس طریقہ سے احساس پروگرام کے ذریعہ کورونا وبا کے دوران کئی ہزار غریب گھرانوں کے لیے کئی ارب روپے کی امداد فراہم کی گئی ہے کسی بات کی ہے جس طرح دنیا کو اسلامو فوبیا پھیلنے کے خطرات سے نہ صرف آگاہ کیا ہے بلکہ اس حوالہ سے سال میں ایک دن ’’اسلامو فوبیا اگاہی دن‘‘ منانے کا مشورہ دیا ہے، جس طرح انہوں نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات (کہ مالی طور پر مضبوط معاشی معاشرے اس عمل کو روک کر کس طرح بین الاقوامی غربت میں کمی لا سکتے ہیں) اور اہم ترین یہ کہ جس طرح انہوں نے پاکستان کیTwin Trackکشمیر پالیسی کو قابل فہم انداز میں دنیا کے سامنے رکھا ہے، اس سے غیر جانبداران کے لیے اس مسئلہ کی سنجیدگی سے پہلوتہی کرنا ممکن نہیں رہا۔ آج کی دنیا میں ملکوں کا بیشتر بیانیہ کشمیر جیسے لاک ڈائون برداشت کرنے کو تیا رنہیں اور جس طرح وزیراعظم نے جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کے بدلنے کی بھارتی کوششوں کو جنگی جرائم سے جوڑ کر بین الاقوامی اداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، تمام ایسے بیانیہ کا حصہ ہیں جس کی تیاری میں محنت سے کام لیا گیا ہے، وزیراعظم کی پچھلے سال کی تقریر اور مستقبل میں پاکستانی سفارتی اور سیاسی اپروچ کے گرد تیار کی گئی، یہ سوچ کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ حق خودارادیت کے لیے ایک طویل عرصہ سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور ان پیرا میٹرز میں رہتے ہوئے ایک پرامن پاکستان ان کی مدد کرتا رہے گا۔دو سالوں کی ان دو بڑی تقاریر اور انکے درمیانی عرصہ میں ہوئے سفارتی کام پر تسلسل پایا جانا joined up thinking کی عمدہ مثال ہے۔ اس اپروچ کو جن اداروں نے ملکر ترتیب دیا ہے ان کی اس محنت کے ثمرات وزیراعظم تقریر کی شکل میں سامنے آئے جسے قوم کے بڑے حصہ نے ایک عمدہ پالیسی بیانیہ تسلیم کیا ہے۔ حکومت پاکستان کا کشمیر بیانیہ کو دفتر خارجہ اور اپنے سفارتخانوں کے اندر سے ہی آگے بڑھانے کا فیصلہ ایک درست قدم ہے۔ بیرون ملک پچھلے پچاس برس میں کبھی ایک نام پر اور کبھی دوسرے پر قومی دولت کا نقصان ہوا ہے۔ وزیراعظم کی یہ یو این اسمبلی تقریر ایک منجھے ہوئے ڈپلومیٹ کی تقریر لگی جسے اپنے ڈومیسٹک اور خارجی دونوں بریفز پر عبور تھا اور جس انداز میں یہ تقریر ڈیلیور کی گئی اس وہ سب کچھ موجود تھا جس سے واضح ہورہا تھا کہ کہنے والا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسکے دل کی آواز ہے۔ اس تقریر میں نہ ہی لفاظی کا سہارا لیا گیا اور نہ ہی کسی صورتحال کو اور ہائیپ کیا گیا۔ تمام زاویوں سے صورتحال جوں کی توں بیان کردی گئی اور یہ درست اپروچ تھی۔ وزیراعظم بیان کی ترتیب بھی درست تھی کیونکہ کرونا آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو ہر ملک کو درپیش ہے۔ کشمیر ایشو پر یہ تقریر کے درمیان میں بات اچھی منصوبہ بندی تھی کیونکہ دنیا کو یہ تاثر دینا کہ ریاست پاکستان ایک ہمہ جہت مائنڈ سیٹ کا نام ہے جو تمام حوالوں سے دنیا سے جڑا ہوا ہے بھی ضروری تھا ہم نہ کبھی تنہا پسندی کے قائل رہے ہیں اور نہ ہی انتہاپسندی کے۔ بلکہ ان دونوں سمتوں نے پاکستان کو طویل وقت تک گھیرے رکھا جس کے نتیجہ میں اس ملک نے کئی حوالوں سے نقصان برداشت کئے ہیں۔ وزیراعظم کے اس خطاب نے ملک کی خارجہ پالیسی بالخصوص بحوالہ کشمیر ایشو واضح لائن آف ایکشن کا تعین کردیا ہے جو پاکستان کے پرامن ہونے کے ساتھ کشمیریوں کیلئے مسلسل آواز بلند کرنا بھی ہے۔ بال دنیا کے کورٹ میں ہے کہ وہ کشمیریوں کو کس طرح حق خودارادیت دلاتی ہے۔