دوغلی سیاست اور آئینی بالادستی

October 01, 2020

حرف و حکایت … ظفر تنویر
ایک شور سا بپا ہے، آوازیں اٹھ رہی ہیں، طعنے دیئے جارہے ہیں اور انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں جب سے میاں نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کیا ہے،سوشل میڈیا پر ایک آگ سی لگی ہوئی ہے، میاں کے حق میں اور ان کے خلاف ہر دو طرح کی پوسٹ دیکھنے پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہیں، لگتا ہے لوگوں کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے، ان کے مخالفین ان کی اس تقریر کو ملک دشمنی قرار دے رہے ہیں جب کہ حمایتیوں کے نزدیک یہ ملک کی خدمت ہے کہ وہ قوم کو پہلے سے پڑے ہوئے سایوں کے مزید گہرا ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں ،ایک طرف یہ بحث ہورہی ہے اور دوسری طرف سیاستدانوں کی مقتدر حلقوں سے ملاقاتوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس تمام تر شور شرابا کے باوجود دونوں طرف سے جھوٹ بولا جارہا ہے وہ بھی جو ان کے ساتھ ہیں اور وہ بھی جنہیں حکومتی سایہ میسر ہے اور یہ جھوٹ پہلی بار نہیں بولا جارہا، پاکستان کی بدقسمتی تو یہ ہے کہ اس کی پیدائش سے لے کر آج تک جھوٹ کے ذریعہ ہی کام چلایا جارہا ہے چاہے، جب بھی کسی نے بات کرنے کی کوشش کی اسے ’’قومی مفادات‘‘ کے نام پر بات نہ کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی اور ایسا کرنے میں وہ سبھی سیاستدان بھی شامل ہیں جو اپوزیشن میں بیٹھے ہر وقت حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں ،لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت منتخب نہیں بلکہ مقتدر طاقتوں کی حمایت کی وجہ سے اقتدار میں ہے اور دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ہمارے یہی سیاستدان حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے یہ لیڈر ان ہی مقتدر طاقتوں کی نظر التفات کیلئے مرے جارہے ہیںسیالکوٹ سے ن لیگی رکن قومی اسمبلی نے ایک دفعہ اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ پتہ نہیں آج کل وہ کیا محسوس کررہے ہیں، سب کو پتہ ہے سب کو علم ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے کہ پاکستان بنتے ہی اس کے مستقبل کے فیصلے پاکستان کے سیاستدان نہیں بلکہ وہ طاقتیں کرتی تھیں جن کا پاکستان بنانے میں کوئی ہاتھ نہیں تھا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ناظم الدین سے لے کر غلام محمد اور پھر اسکندر مرزا کو رخصت کیا ،یہی نہیں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے بھی اقتدار چھینا اور یہ سب کچھ پاکستانی سیاستدانوں کی نظروں کے سامنے ہوا، سامنے کیا ہوا ان کے اشتراک سے ہوا، جسے حکومت اچھی نہ لگے وہ طاقتور حلقوں کی جھولی میں بیٹھنے کو تیار ہوجاتا ہے، اس جرم میں صرف پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، قائداعظم لیگ اور ایم کیو ایم نہیں پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ ان مقتدر حلقوں کی آشیرباد لینے میں ان سیاسی جماعتوں کی حالت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب لندن میں جمہوریت کے نام پر مقتدر حلقوں سے عدم تعاون کے معاہدہ پر دستخط ہورہے تھے عین اسی وقت بے نظیر بھٹو دوبئی میں پرویزمشرف سے معاملات طے کرنے کیلئے ملاقاتیں کررہی تھیں ایسا صرف پیپلزپارٹی نے ہی نہیں کیا، اپنے معاملات سیدھے رکھنے کیلئے میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار بھی دن رات ایسی ہی ملاقاتوں میں رہتے تھے، سچ تو یہ ہے کہ ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت کے سوا ،کوئی بھی سول حکومت خود کو اس ’’اثر‘‘ سے آزاد نہیں کراسکی، آج اگر وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ ’’اسٹبلشمنٹ کبھی بھی کسی سول حکومت کے ساتھ اس طرح کھڑی نہیں ہوتی جس طرح ہمارے ساتھ ہے‘‘ تو وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں یہی بات اپوزیشن بھی کہتی ہے لیکن دونوں کے الفاظ میں فرق ہے ،اگر سچ ہے تو وہ یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی پورا سچ نہیں بولتا، ان حالات میں نہ ہی پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی انہیں وہ پاکستان دیکھنے کو ملے گا جسے تلاش کرتے کرتے کئی نسلیں گزر گئی ہیں، وہ پاکستان جس کا خواب ان کے بڑوں نے دیکھا تھا، ہمارے ملک میں آج بھی انسانوں کو صاف پانی میسر نہیں، تعلیمی یا طبی سہولتوں کا ذکر تو چھوڑیئے، لوگوں کو زندہ رہنے کیلئے روٹی ملنا مشکل ہوگیا ہے، حکومتی اور حزب اختلاف دونوں طرف کے سیاستدانوں کو دوغلی سیاست کو ختم کرنا ہوگا، مل کر ملک میں آئینی بالادستی کو قائم کرنا ہوگا کہ یہ شاید ان کیلئے آخری موقع ہے۔