سوشل اور الیکٹرانک میڈیا، ادیبوں کی ذمہ داریاں

October 01, 2020

تحریر: سیّد اقبال حیدر۔۔۔فرینکفرٹ
آج ہر انسان سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سے بلواسطہ یا بلاواسطہ منسلک ہےاور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید اب ہم اس کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتے اکثر جب کوئی شے اتنی قریب ہو جاتی ہے تو اس کے عیوب اور خامیاں ہمیں دکھائی دینا بند ہو جاتی ہیں مگر یہ باشعور افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس قریب ترین شے کے فائدے اور نقصانات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگائیں اور عوام کے سامنے اسے پیش بھی کریں ، ادیب چاہے کسی بھی زبان کا ہواپنے معاشرے کا باشعور فرد ہوتا ہے۔ ادیب قوموں کے معمار ہوتے ہیں،تہذیب و تمدن کے رکھوالے ہوتے ہیں،اسی لئے تاریخ میں اُن کے نام زندہ رہتے ہیں، عہدِ حاضر میں ادیبوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک سے ہمیں جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اس سے عوام کو آگاہی دیں۔ادیبوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کی وہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر زبان کا میعار جو بہت نیچے گر گیا ہے اسے بلند کریں،یہ سب سے اہم بات ہے،زبان کا اعلیٰ معیا ر، الفاظ کا بہترین انتخاب اور نفسِ مضمون کی شائستگی بہت مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ،آج ہر اردو لکھنے والا بھونڈے الفاظ اور الٹی سیدھی باتیں سوشل میڈیا پر لکھ رہا ہے قطع نظر اس کے کہ اِن الفاظ کے کیا معنی لئے جا رہے ہیں،لوگ کیا سمجھ رہے ہیں ،اُدباء کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ زبان کے میعار کو بلند رکھیں اور الفاظ کا انتخاب سکھائیں اور بتائیں کہ بے تکی ،بے مقصد تحریروں کی عمر چند لمحے ہوتی ہے اور معیاری ادب اپنے پورے وقار اور تاثیر کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتا ہے مثلا ابنِ سینا،ابن ِ خلدون ،ارسطو،افلاطون ،گوئٹے کی تحریروں میرتقی میر،غالب اور اقبال کے کلام میں آج بھی وہی تازگی اور اثر پذیری موجود ہے جو برسوں پہلے تھی۔آج کے دور میں سوشل میڈیا کی ستم ظریفی اور دست درازی یہاںتک بڑھ گئی ہے کہ مرزا غالب علامہ اقبا ل کی رنگین تصویروں پر اُن سے منسوب بے وزن اشعارنظر آتے ہیں جو ان کے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ اِس سے یقینا مرزا غالب اورعلامہ اقبال کی روحیں بھی تڑپ جاتی ہو نگی ،آج سوشل میڈیا پر جرأت اتنی بڑھ گئی ہے مختلف تحریروں میں قرآن، بائیبل اور دوسری مقدس کتابوں کا کوئی بھی حوالہ دے کر صفحہ نمبر دے کر کچھ بھی لکھا جا رہا ہے،تو ایسے میں کتنے لوگ ہیں جو ان صفحات پر جائیں گے ،اُن حوالوں کو کتابیں کھول کر پرکھیں گے اب ایسے جعلساز لوگوں کو جواب کون دے گا ،یہاں ادیبوں کی اہم اور اٹل ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کو ان غلط حوالوں سے لکھی گئی تحریروں کے غلط ہونے کی آگاہی دیں کہ، اس طرح کی غلط قسم کی تحریرو ں سے انسان کا شعور یا لاشعور متاثر ہو رہا ہے، اخلاق متاثر ہو رہا ہے ،نظریات متاثر ہو رہے ہیں اس کا گھر اس کا محلہ اس کا شہر اس کا ملک متاثر ہو رہا ہے،اس کی آئندہ نسل متاثر ہو رہی ہے، ادیبوں کو چاہیے ان تمام تحریروں کے خلاف ردِّعمل نہایت نفاسست اور پیار سے لکھا جائے ،گالی کے عوض گالی نہیں بلکہ اظہار خیال بہت نرمی سے کرتے ہوئے بات کو سمجھانا ہے کہ یہ خبر غلط ہے جھوٹی ہے ، تحقیق شدہ نہیں ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے مگر ہماری جوابی تحریر دل نشین ہونی چاہئے ۔ آج دنیا بھرکا اہم موضوع ’’کورونا‘‘ ہے ، کرونا کی وبا سے دنیا پریشان ہے، کرونا زیرِ بحث ہے د نیا میں اس سے پہلے ہزاروں سال سے مختلف وبائیں ،جان لیوا بیماریاں ہر سو سال بعد آتی رہی ہیں اور وبا کے دور میں اس کے موضوع پر ایک مخصوص لٹریچر بھی منظر عام پرآیا،مثلاً آج سے سو سال پہلے افسانوں میں کہانیوں میں نظموں میں،غزلوں میں اور مختلف مضامین میں اُس دور کی اُن وبائوں کا تذکرہ ہے جو اس زمانے میں پھیلی تھیں مثلاً طاعون پھیلا،ہیضہ پھیلا،یورپ میں بلیک ڈیتھ نے تہلکہ مچایا اور آبادی کو نگل گیاتھا،آج ہمیں چاہیے کہ اُس ادب کو سامنے لائیں اور آج جو ادب تخلیق کیا جا رہا ہے، وبائی دور میں اس سے اُس کا موازنہ کریں اور عوام کو بتائیں کہ ُاس دور میں وبا کا تذکرہ کس مثبت انداز میں ہوا ،مگر آج ہم اس ’’وبا کرونا ‘‘پر کیا کیا لکھ رہے ہیں۔ روزانہ کوئی نظم کورونا پر لکھی جا رہی ،لفظ کورونا کسی نہ کسی طرح فِٹ ہونا چاہیے باقی شاعری کے سارے قواعد و ضوابط جائیں جہنم میں ،کورونا کے نام سے الٹا سیدھا بے بہرہ ،بے طرح کلام چھپ رہا ہے ،جس سے سوائے سنسنی اور لغویات کے کچھ حاصل نہیں ہے یہاں ادیبوں کی ذمہ داری ہے کہ ان تحریروں کی تردید کریں کیونکہ ان کے نتیجہ میں ڈپریشن اور دیگر بیماریاں جوپھیل رہی ہیں ان میں کمی واقع ہو اور اس تردید کرنے کا عمل مسلسل ہو کم از کم ایک سال تک، تو میں پُر یقین اور پُر امید ہوں کہ اِن تمام لغیات لکھنے والوں کو عقل آ جائے گی، ان کی اصلاح ہو گی اوروہ لوگ رک جائیں گے۔