’دکھاوا اور ریا کاری‘ عبادات اور نیک اعمال کی بربادی کا سبب

October 02, 2020

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو، پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ، کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا\۔(سورۃ البقرہ)

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ جو عمل اس کی رضا و خوشنودی اور آخرت میں ثواب کی امیدکے حصول کے بجائے، نام و نمود اور ریاکاری و دکھاوے کے جذبے سے انجام دیا جائے، تو اس عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اور وہ عمل ضایع اور برباد ہو جاتا ہے۔اسی طرح وہ صدقہ و خیرات بھی باطل اور کالعدم قرارپاتا ہے اور ثواب سے محرومی کا باعث بن جاتا ہے، جس کے بعد احسان جتایا جائے اور حاجت مند کو دکھ دیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ محسن انسانیت حضور اقدس ﷺ کواپنی امت کے بارے میں اس بات کا بہت ڈر(اندیشہ)تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری امت اس بیماری کا شکار ہوجائے۔اس لئے آپﷺ نے اس کی برائی اور تباہی کو اپنے ارشادات سے واضح فرمایا۔

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ قیامت کے دن تین بندے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ ان میں سے پہلا شخص ایسا ہوگا جو کہ شہید ہوگا،اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دی جانے والی نعمتیں گنوائے گا، شہید نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا تو نے ان سب نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، میں نے تیری راہ میں اپنی جان قربان کردی۔رب فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے جان اس لیے قربان کی کہ لوگ تجھے بہادر اور شہید کہیں، تو شہید کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو اسے اور ڈال دو جہنم میں، فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔ پھر ایک دوسرا شخص رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا جو عالم و قاری ہوگا، رب تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی گئی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔

پھر رب تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا میں نے علم سیکھا اور سکھایا، قرآن پاک پڑھا اور پڑھایا۔رب تعالیٰ فرمائے گا تو نے علم سیکھا اور سکھایا اس غرض سے کہ عالم کہلایا جائے، قرآن پاک اس لیے پڑھا اور پڑھایا کہ قاری کہلایا جائے، تو دنیا میں تو کہلا چکا۔ فرشتو! لے جائو اسے اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔پھر آخر میں ایک سخی، رب کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی دنیا میں دی جانے والی نعمتیں یاد دلوائے گا۔ وہ نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر رب فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے مقابل دنیا میں میرے لیے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا، اے رب! میں نے اپنی ساری دولت تیری مخلوق پر لٹا دی۔ رب تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے دولت اس لیے خرچ کی کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو دنیا میں سخی کہلا چکا۔ فرشتو لے جائو ،اس سخی کو اور ڈال دو جہنم میں۔ فرشتے اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے‘‘۔اس طویل حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت وہی قابل قبول ہے جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کی جائے ،جب کہ ایسی عبادت جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کی جائے ، وہ خواہ کوئی بھی کرے،جہنم کا ایندھن ثابت ہوگی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک منافق اﷲ سے دھوکا کررہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکے کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یوںہی برائے نام کرتے ہیں ۔‘‘ (سورۃ النساء 142 )اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنے والے ریا کاروں کےلیے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے ، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں ۔‘‘(سورۃ الماعون) یعنی نمازوں کا کما حقہ اہتمام نہیں کرتے ، ان کی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں ، نمود ونمائش اور لوگوں کو دکھانے کےلیے کبھی لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو پڑھ لیتے ہیں ، ورنہ ان کی زندگی میں نماز کا کوئی اہتمام اور حصہ نہیں ہوتا ۔ اس طرح قرآن پاک میں ایک اورجگہ ریا کاری کو کافروں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے اہل ایمان کو اس سے روکا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی ( دکھاوا ) کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے ۔‘‘(سورۃ الانفال47)

(ترجمہ): ’’پس جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو ،اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔‘‘(سورۃ الکہف110)۔ یہاں ’’ عمل صالح ‘‘ سے یہی مراد ہے اور حقیقت میں وہی عمل ’’ نیک ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے جو مطابقِ سنت ہو ۔اسی طرح قبولیت عمل کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل اور نیکی اخلاص کے ساتھ اﷲ کی رضا جوئی کےلیے انجام دی گئی ہو ۔ دوسروں کو دکھانے کےلیے ریا کاری کے جذبے سے انجام نہ دی گئی ہو۔ آیت میں مفسرین ’’ شرک ‘‘ سے ریا کاری ہی مراد لیتے ہیں اور آیت کے شانِ نزول سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے ۔ ریا کاری اور شہرت و نمود کا جذبہ ’’ شرک ‘‘ ہے اور شرک کی یہ خاصیت ہے کہ اس سے عمل باطل ہوجاتا ہے ۔

ایک موقع پررسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ’’ شرک اصغر ‘‘ سے ڈرتا ہوں ۔صحابۂ کرامؓنے دریافت کیا یا رسول اﷲﷺ !شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا ریا کاری ۔‘‘(مسند احمد) ایک اور روایت میں رسول اﷲﷺنے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا ۔ دریافت کیا گیا کہ کیا آپ ﷺکے بعد آپ ﷺکی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائےگی ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں ! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے، لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کریں گے۔ ( تفسیر ابن کثیر)

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے ( یعنی دجال کے فتنے سے ) بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ عرض کیاگیا، یا رسول اﷲﷺ ضرور بتائیں ، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’شرک ِخفی ( یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت ) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو ، پھر اس بناءپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ)

اعمال میں پوشیدہ ہونے والے اس شرک کو رسول اﷲ ﷺنے اپنی اُمت کے لئے فتنۂ دجال سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے ، ایک حدیث میں رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا ، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا ،اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا ۔‘‘(جامع العلوم والحکم)مقصد یہ ہے کہ ریا کاری شرک ہے ، کوئی شخص نماز، روزہ یا کوئی بھی نیکی دکھاوے کےلیے کرے ، اس نے گویا شرک کیا ۔شرک سے اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ہر وہ عمل جس میں بندہ اﷲ کے علاوہ کسی اور کو شریک کرے ایسے عمل کو اﷲ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے،رسول اﷲﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’میں شرک ( شراکت ) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں ، جو کوئی ایسا عمل کرے ، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘(صحیح مسلم)کسی عمل میں دوسرے کی ذرہ برابر شرکت بھی اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں، وہ ایسے عمل کو قبول ہی نہیں فرماتا۔کوئی نیکی خالص اﷲ کےلیے کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے کےلیے کی جائے ، اﷲ کی خوشنودی کے بجائے ، لوگوں کی خوشنودی یا شہرت و نمود کا جذبہ اور لوگوں میں مقام و مرتبہ پانے یا ان کے درمیان نمایاں ہونے کا جذبہ شامل ہوجائے تو یہ ریا کاری ہے جو سخت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے۔

حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ ریا کاری کی تین علامات ہیں :جب تنہائی میں ہوتا ہے تو (عبادت میں )سستی کرتا ہے ،جب مجمع میں ہوتا ہے تو چست ہوتا ہے، جب اس کی تعریف کی جائے تو زیادہ عمل کرتا ہے اور جب مذمت کی جائے تو کم عمل کرتا ہے۔(احیاء العلوم )حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ماضی کے ریاکار اس عمل کا دکھاوا کرتے تھے جو وہ کرتے تھے اور آج کے ریا کار ایسے اعمال کا دکھاوا کرتے ہیں جو کرتے ہی نہیں۔ (احیاء العلوم)ابنِ اعرابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سب سے زیادہ خسارے میں وہ شخص ہے جو لوگوں کے سامنے اپنے نیک اعمال ظاہر کرتا ہے اور وہ ذات جو رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اس کے سامنے برے اعمال کرتاہے۔ (شعب الایمان)اللہ تعالیٰ ہمیں دکھاوے اور ریاکاری سے بچنے کی توفیق اور ہماری نیتوں میں اخلاص پیدافرمائے۔(آمین)