ارب پتی اور دیوالیہ

October 12, 2020

طرابلس: کہلوی کارنش

لبنان کے شمال میں طرابلس شہر میں دو زرد رنگ کے بل بورڈز پر نعرہ تحریر ہے کہ خوشگوار پس منظر والے جار: ہم ٹوٹ چکے ہیں۔

طرابلس کے میئر ریاض یمق کے مطابق یہ واضح نہیں کہ ان پوسٹرز کی ادائیگی کس نے کی تھی تاہم ان کا پیغام مکمل طور پر سچ ہے۔انہوں نے کہا کہ میونسپلٹی، معاشی طور پر پسماندہ ملک کا غریب ترین علاقہ، اتنی مالی تنگی کا شکار ہے کہ وہ اپنے فرائض کو جیسا چاہے سرانجام نہیں دے سکتا۔

لبنان اپنی جدید تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکا رہے۔ گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے بعد سے حکومت نے مارچ میں اپنے غیر ملکی قرضے ادا نہیں کرپایا، افرادی قوت کا ایک تہائی حصہ بیروزگار ہے اور لیرا اپنی قدر کا 80 فیصد کھوچکا ہے۔کرنسی کی قدر گرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوچکا ہے ،جبکہ بینکوں کے بحران کی وجہ سے لوگوں کی اپنی بچت تک رسائی حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

لبنان کی دولت کی تقسیم میں واضح عدم مساوات ہے۔فوربز کی دنیا کے امیر ترین افراد کی 2020 کی فہرست میں ایسے ملک کے چھ ارب پتی افراد شامل ہیں جن کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 50 لاکھ سے بھی کم ہے۔اقوام متحدہ کی علاقائی اقتصادی ایجنسی ای ایس سی ڈبلیو اے کے ماہر معاشیات ولادیمیر ہلاسنی کا کہنا ہے کہ لبنان میں سب سے زیادہ دولت جمع ہے اور دنیا کے سب سے زیادہ ارب پتی افراد موجود ہیں۔

ای ایس سی ڈبلیو اے کے مطابق لبنان کی تقریباََ 71 فیصد دولت ملک کی 10 فیصد بالغ آبادی کے پاس ہے، ایسا ملک جس نے گزشتہ ماہ تخمینہ لگایا تھا کہ اس کی غربت کی شرح 2019 میں 28 فیصد سے بڑھ کر 2020 میں 55 فیصد ہوگئی ہے۔سعودی عرب کے بعد لبنان خطے کا دوسرا سب سے زیادہ عدم مساوات کا پیمانہ gini coefficient اسکور والا ملک ہے۔

کچھ مقامات ملک کے دولت کے فرق کو طرابلس سے بہتر علامتی طور پر پیش کرتے ہیں،جہاں اسمارٹ بلڈنگز پڑوس کے ناگفتہ بہ غربت کے ڈھیر سے دھندلا جاتی ہیں۔خستہ حال شہر، 6 لاکھ آبادی والا ملک کا دوسرا بڑا شہر، ملک کے سب سے امیر ترین دو ارب پتی افراد کا آبائی شہر ہے، سابق وزیراعظم اور طرابلس کے موجودہ رکن پارلیمان نجیب میکاتی اور ان کے بھائی طحہٰ، جنہوں نے بیرون ملک ٹیلی مواصلات کے شعبے میں اپنی قسمت بنائی۔

طرابلس کے ایک اور بیٹے مصطفیٰ ادیب نے جولائی میں بیروت میں ہونے والے تباہ کن دھماکے کے بعد مختصر عرصے کیلئے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا،گزشتہ ہفتے نئی کابینہ پر اتفاق رائے کیلئے سیاستدانوں کے لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

طرابلس کے چیمبر آف کامرس ٹافک ڈابوسی کے صدر نے کہا کہ اس وقت کاروبار میں اس قدر سست روی آچکی ہے ، 89 فیصد ممبران کمپنیوں کی سرگرمیاں بند یا منجمد ہونے کی وجہ سے تجدید فیس ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کسی زمانے میں طاقتور قدیم شہر عراق تک پہلے ایک اہم تجارتی راستے پر بیٹھا تھا۔ اس کی سابقہ حیثیت اس کے فن تعمیر سے نمایاں ہے، اس کی گلیوں میں برازیل کے جدید معمار آسکر نیمیئر کے ڈیزائن کردہ بین الاقوامی نمائش کمپلیکس، ٹوٹ پھوٹ کا شکارعثمانی دور کی عمارتیں اور صلیبی دور کے محلات سمیت معدومات کے ڈھیر موجود ہیں۔

مسٹر یمق نے کہا کہ طرابلس سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو طرابلس کی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا چاہئے تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قومی بحران پیدا ہونے سے بہت پہلےہی طرابلس میں سماجی و اقتصادی صورتحال ناقص تھی۔ یو این ڈی پی کےپانچ سال قبل اس شہر کے بارے میں مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ طرابلس کے 57 فیصد باشندے غربت کا شکارتھے۔

گزشتہ عشروں میں فلسطینیوں اور عرب اتحاد تحریک کے کارکنوں اور عسکریت پسندوں سے لے کر حال ہی میں اسلام پسندوں تک بحیرہ روم کے حوالے سے طرابلس کی اسٹریٹجک پوزیشن اور شام تمام بڑے شہروں کے قرب میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ مسابقتی مفادات کا میدان بن گیا،مسٹر یومق نے کہا کہ وقتاََ فوقتاََ ہونے والےعدم استحکام نے سرمایہ کاری کو روک دیا ہے اور سرمائے کو بھگوڑا بنادیا۔

اس شہر کے متعدد صاحب ثروت افراد جن میں نجیب میکاتی اور طرابلس کے سیاستدان اور تاجر محمد صفادی بھی شامل ہیں،نے وہاں معاشرتی منصوبوں، بالخصوص تعلیم کے شعبے میں تعاون کے لئے انسان دوست بنیادیں قائم کیں۔

تاہم نجیب میکاتی کے ایک مشیر نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نجیب میکاتی یا محمد صفادی نے کتنا خرچ کیا، خیراتی ادارے طرابلس کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرسکتے۔یہ کافی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک مناسب منصوبہ تیار کرے۔

غربت اور مایوسی نے گزشتہ سال طرابلس کے مظاہروں کو تحریک دی، جس نے سعد حریری کی حکومت کو گرادیا اورجس کی وجہ سے لبنانی شہر کو انقلاب کی دلہن قرار دے دیا گیا۔

تاہم بڑھتی ہوئی مایسوسی کی علمات کے طور پر ہجرت میں اضافہ ہورہا ہے، انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ لبنانی شہری بھی شام اور دیگر علاقوں سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ چھوٹی کشتیوں پر سوار ہورہے ہیں، اور یورپ پہنچنے کی مایوس کن کوشش میں خود کو طرابلس کی کی بندرگاہ سے باہر اسمگل کررہے ہیں۔

25 سالہ نیوروسائنس گریجویٹ مریم مراد نے کہا کہ ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے میرا دوست پہلے ہی ہجرت کرچکا ہے۔ آٹھ ماہ بیروزگار رہنے کے بعد انہیں طرابلس کے سوشل انٹرپرائز سپورٹنگ اسٹارٹ اپ انٹرپرینیور کلب میں ملازمت مل گئی۔تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اوران کے ساتھی ملازمین خوش قسمت ہیں۔

طرابلس میں رہنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ 1990 میں لبنان کی 15 سالہ طویل خانہ جنگ کے خاتمے کے بعد سے جنگ کے خاتمے کے بعد وزیراعظم بننے والے رفیق حریری کی دارالحکومت کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے ان کا شہر نظر انداز ہوا۔

طرابلس میں قائم نیشنل فلور ملز کے چیف ایگزیکٹو انس شار نے شہر کے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع پوائنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ چیکا سرنگ کے بعد لبنان رک گیا ہے۔لہٰذا مقامی انفرااسٹرکچر کم ترقی یافتہ ہے چنانچہ ان کی کمپنی کو فیکٹری کو ٹرانسپورٹ نیٹ ورک سے منسلک کرنے کے لئے اپنی ایک سڑک تعمیر کرنا پڑی۔

شہر کے پرانے سوق(بازار) میں فرنیچر بیچنے والے علی زرک نے گلوبلائزیشن کو مورد الزام ٹھہرایا، ان کا خاندانی کاروبار 20 سال قبل ملائیشیا سے سستا سامان خریدنے میں تبدیل ہوگیا تھا۔

تاہم لبنان کی کرنسی کی قدر گرنے کی وجہ سے درآمدات استطاعت سے باہر ہرچکی ہیں۔ لبنان کےشماریات آفس کے مطابق 2020 تک اگست 2019 کے مقابلے میں فرنشننگ اور گھریلو سامان پر لاگت 664 فیصد بڑھ چکی ہے۔مسٹر زائریک نے کہا کہ انہوں نے کاروبار میں 95 فیصد کمی دیکھی ہے۔

لیکن انہوں نے سڑکوں پر لگے پوسٹروں پر سیاستدانوں کی تسویر کی جانب اشارہ کرکے بھی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ وہ تصاویر جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب جھوٹ ہے۔آپ نے دیکھا کہ کیا ہوا ، ان سیاستدانوں نے لبنان کو تباہ کیا۔